واعظ الاسلام مولانا سید محمد اکرم الدین بخاری
واعظ الاسلام مولانا سید محمد اکرم الدین بخاری (تذکرہ / سوانح)
مولانا سید محمد اکرام الیدن جید علام دین اور مقبول زمانہ و اعظ تھے اسی لئے آپ کو ’’واعظ الاسلام‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ قادریہ میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمین گنج مراد آبادی قدس سرہ کے دست مبارک پر بعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے ، حضر ت شیخ نے۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ ء میں درج ذیل الفاظ میں اجازت مرحمت فرمائی :۔
اللہ اکبر
از فضل رحمن
اما بعد الحمد للہ میاں کواجہ اکرام الدین بخاری کہ مرید ایں فقیر است اجزت طریقۂ نقشبندی یہ وقر دریہ ادم کہ بمر دماں تعلیم نما یند ، ثم السلام والد عائ۔
نیز حضرت مولانا عمر ضیاء الدین عثمانی خالدی کردی رحمہ للہ تعالیٰ بھی سلسلۂ عالیہ نقشبندی قادریہ میں اجازت عطا فرمائی ، اجازت کے الفاظ ہیں:۔
اما بعد فقد شرقنا الحبیب الاکرم والا عز الا فخم غرۃ جباہ اصحاب الیقین بھجۃ جبھۃ اصحاب التمکین العالم الفاضل خواجہ محمد اکرام الدین البخاری الشھیر بواعظ الاسلام (الی ان قال ارناہ نیابۃ عن المشائخ الکرام فی الطریقۃ اعلیۃ النقشبندیۃ القادریہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ساداتھم السنیۃ ونفعنا من بر کاتھم البھیۃ اجازۃ مؤثرہ بالنصیحۃ والتربیۃ ولتعلیم ۔
مولانا اکرام الدین کا دل اللہ تعالیٰ نے کی محبت ، سرور دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی الفت اور بزرگان دین کی عقیدت سے معمور تھا ۔ ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۶ء میں حضور سید نا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور آپ کی شان میں ہدیہ عقیدت پیش کیا اور استغانت واستحداد کی ، اشعار ملاحظہ ہوں:
بد گاہ جنابت آمدہ یا شاہ جیلانی
منور شد دلم از پر تو انوار ربانی
غر یبم بے نوا افتادہ ام بیمار در کویت
نظر فرما بحالم حضرت محبوب سجانی
آپ شعر و سخن بہترین ذوق رکھتے تھے اور اخترؔ تخلص کرتے تھے ۔ ان کے کلام میں زیادہ تر نعت و منقبت کا پہلو نمایاں ہے ، درج ذیل مشہور قصیدہ نعتیہ آپ ہی کے فکر عالی کا نتیجہ ہے :
تری الفت میں مرٹنا شہادت اسکو کہتے ہیں
ترے کوچے میںہونا دفرن جنت اسکو کہتے ہیں
تجھی کو دیکھنا،تیری ہی سننا تجھ میں تم ہونا
حقیقت معرفت اہل طریقت اسکو کہتے ہیں
ریاضت علم ہے تیری گلی میں آنے جانے کا
تصور میں ترے رہنا ، عبادات اسکو کہتے ہیں
بنایا مشرکوں کو عاشق توحید یکدم میں
یہ ہے شان نبوت اور رسالت اسکو کہتے ہیں
ادھر ایما، ہو اشہ کا ادھر بخشے گئے عاصی
شفاعت اسکو کہتے ہیں و جاہت اسکو کہتے ہیں
سگ درگاہ جیلاں مجھکو حق کردے تو شاہوں سے
کہوں دنیا کے کتوا بادشاہت اسکو کہتے ہیں
ترا مضمون،جاں وادہ،ترا عاشق ترا شیدا
ترا مضطر ترا اختر ہدایت اسکو کہتے ہیں
فارسی کلام ملاحظہ ہو:۔
فیض جنوں بہ نشہ صہبا برا براست
یک خوں دل بہ لعل مسفا برا براست
بے در د عشق ، ہیچ کسے قرب حق نیافت
یک ذہ غم بہ جمۂ اشیاء برابراست
یک لحظۂ توجہ خاطر باہل حق
با فیض صبح و باشب یلدار برابراست
ذکردوام عقیل زنگاہ باطن است
دل صاف گشت و بادل بیضار برا براست
اخترؔ دلے کہ واقف اسرارعشق شد
اور ابہشت و دامن صحرا برا براست
آپ اپنے خطبات میں اصلاح عقائد اور بد مذہوبوں سے اجتناب پر بہت دزور دیتے تھے ، چنانچہ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:۔
ہے جب تک میں دم باقی عقیدہ پاک رکھ اپنا
دگر نہ بے ادت کو روز محشر آہ حسرت ہے
مسلمانوں!بچو ہر وقت تم بہودہ باتوں سے
زمانہ میں فسادوفتنہ کی اب بہت کثرت ہے
کوئی منکر حدیثوں سے کوئی کہتا ہے میں عیسیٰ
بچو!ان بد عقیدوں سے ، یہ نیکی اور عقیدت ہے
کوئی مزرائی ، وہابی کوئی چکڑا لوی لیکن
خدا کا شکر مومن اک فقط سنت جماعت ہے
تمامی اولیاء اللہ تھے اس مذہب حق پر
ہمیشہ اس جماعت پر خدا کا دست رحمت ہے
ان کے دور میں مزارئے قادیانی کے دعادی کا بہت زور شور سے پروپیگینڈہ کیا جارہا تھا ۔ علماء اسلام کی ہمنوائی میں مولانا نے عقائد اہلسنت کے تحفظ اور مرزاجی کے بلند بانگ دعاوی کے رد میں بڑی سر گرمی دکھائی اور بذریعہ تحریر و رقریر اس فریضہ کو باحسن وجودہ نبھایا چنانچہ اپنی تالیف فیض جاری ملقب بہ بدیۃ البخاری کے ایک خطبہ (جس میں مسئلہ ختم نبوت کامد لل طور پر بیان فرمایا ) سے پہلے فرماتے ہیں:۔
آج کل خطہ ٔ پنجاب وغیرہ میں دعویٰ نبوت و مہدویت کا بہت چرچا ہوگیا ہے چنانچہ مریدان مرز قادیانی کہ بڑے دعوے سے میرز کو وحی کا آنا وعیسیٰ مو دود ہونے کو ثابت کرنیمیں سر گرم ہیں ، اگر چہ تمہید علامہ امام ابو الشکور سلامی میں صاف وار دہے کہ:
ومن یری الوحی والنبوۃ لاحد بعد محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غیر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فانہ یسیر کا فر ً ا۔(تمہید شریف ۱۶۹)
(فیض جاری ص ۸۸)
’’جو شخص نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی کے لئے وحی اور نبوت کا اعتقاد کرے ، وہ کافر ہے۔‘‘
افسوس کہ نہ تو آپ کے مزید حالات مل سکے اور نہ تاریخ وفات معلوم ہوئی، یہ بھی پتہ نہیں چلا سکا کہ لاہور میں آپ کا مزار کس جگہ ہے۔
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)