عالمِ باعمل مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی ایم اے
عالمِ باعمل مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی ایم اے (تذکرہ / سوانح)
شیخ الادب دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف
ولادت
ماہر علم ادب، ملک التدریس حضرت مولانا محمد انور علی رضوی بن محمد وارث علی بن محمد اسلم ۲۲؍ ستمبر ۱۹۵۶ھ بروز دو شنبہ مبارکہ کو موضع درگا پور واپوسٹ میٹر اسٹیشن ضلع بہرائچ شریف میں پیدا ہوئے۔
مولانا محمد انور علی کے جد امجد بہت نیک اور سچے آدمی تھے۔ نماز پنجگانہ کے اس قدر پابند تھے کہ مہ وقت نماز کی فکر رہتی تھی۔ مسجد میں برابر جاکر اذان بڑے اہتمام سے کہا کرتے تھے انہیں کی صحبتِ کیمیا اثر نے مولانا محمد انور علی کو دس گیارہ سال کی عمر میں نمازی بنادیا، اور والد ماجد بھی دینی تعلیم سے خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں، تاریخ اور مسائل دینیہ پر اچھا عبور حاصل ہے۔
تسمیہ خوانی
جناب وارث علی کے خاندان میں یہ پہلی خوشی تھی کہ بڑی دھوم دھام سے مولانا محمد انور علی کی رسم بسم اللہ خوانی ہوئی، اس تقریب مین احباب و اقارب کے علاوہ علماء ومشائخ نے شرکت کی۔
تعلیم وتربیت
حضرت مولانا محمد انور علی کو ان کی ننہال میں بھیج دیا گیا اور وہاں پر قرآن پاک ناظرہ پڑھنے لگے۔ جب کچھ شعور پیدا ہوا تو بلبلِ ہند مفتی رجب علی قادری رضوی نانپاروی کے جامعہ مصطفویۂ مدرسہ عزیز العلوم قصبہ نانپارہ ضلع بہرائچ میں داخل ہوئے، اور یہاں سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔
ناظرہ قرآن پاک اور اردو درجۂ پانچ تک، حساب وغیرہ جناب ماسٹر سید نور الحسن نانپاروی سے پڑھا، درجہ چار تک ہندی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد فارسی کی پہلی، آمد نامہ مولانا محمد حسیب رضا نوری بہرائچی سے پڑھی۔ گلستاں بوستان، دیوانِ حافظ، سکندر نامہ وغیرہ مولانا صوفی قاضی محمد زین الدین صدر المدرسین مدرسہ عزیز العلوم نانپارہ سے پڑھیں۔
مولانا محمد انور علی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے ہم سبق رفیق مولانا کمال احمد خاں رضوی نانپاروی کے ہمراہ مدرسہ انوار العلوم عتیقیہ تلشی پور ضلع گونڈہ تشریف لے گئے۔ وہاں کے حالات موافق نہ آنے کی وجہ سے جلد ہی جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور ضلع گونڈہ چلے آئے۔۔۔ آپ کو یہاں کی معیاری تعلیم بہت پسند آئی اور مولانا مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی کے غایت احسان وکرم اور خصوصی توجہ فرمانے کی وجہ سے دل مطمئن ہوگیا۔ مولانا محمد انور علی خوب محنت ولگن کے ساتھ پڑھنے لگے۔
۱۹۷۱ء و ۱۹۷۲ء میں شرح جامی اور فنِ تجوید وقرآن کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۷۲ء میں قراءت امام عاصم بروایت حفص کی تکمیل کر کے دستار اور سندِ قراءت سے نوازے گئے۔
آپ نے ۱۹۷۳ء میں دار العلوم حشمت الرضا حشمت نگر پیلی بھیت میں داخلہ لیا، اور مناظر اعظم مفتی مشاہدہ رضا خاں رضوی حشمتی سجادہ نشین آستانۂ حشمتیہ پیلی بھیت سے دیگر علوم و فنون میں اکتساب فیض کیا، اور قراءت سبعہ کی تعلیم محققانہ طور پر حاصل کی۔ پھر ۱۹۷۵ء میں حضور مفتئ اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کے دارالعلوم مظہر اسلام مسجد بی بی جی بریلی شریف میں داخل ہوئے۔ یہاں پر علامہ مولانا تحسین رضا قادری بریلوی، مولانا مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی جیسے متبحر علماء دین سے اکتساب علم کیا۔
۳۰؍اکتوبر ۱۹۷۵ء کو دارالعلوم منظر اسلام میں تشریف لے آئے، اور درجۂ پنجم سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک منظرِ اسلام میں خوب دل جمعی کے ساتھ پڑھتے رہے۔
فراغت
حضرت مولانا محمد انور علی نے ۲۴؍اپریل کو دورۂ حدیث کا امتحان صدر العلماء مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ کو دیا۔ ۱۷؍جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ؍ اپریل ۱۹۷۸ء کو دستارِ فضیلت اور سند فراغت حاصل ہوئی۔ اس سال ۴۷ علماء فارغ ہوئے تھے۔ جلسۂ دستار بندی میں حضور مفتئ اعظم ، مفتی برہان الحق رضوی جبل پوری، مولانا الشاہ حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی اور مفتی رفاقت حسین رضوی کانپوری رونقِ اسٹیچ تھے، اور اور ان علماء ومشائخ کے مبارک ہاتھوں سے مولانا محمد انور علی کی دستار بندی ہوئی۔
دیگر اساتذۂ کرام
۱۔ محدث منظر اسلام مولانا احسان علی رضوی مظفر پوری علیہ الرحمۃ
۲۔ جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ
۳۔ شیخ المعقولات مولانا محمد نعیم اللہ خاں رضوی بستوی، صدر المدرسین۔
۴۔ شیخ المحدثی مولانا سید محمد عارف رضوی نانپاروی شیخ الحدیث منظر اسلام
۵۔ حضرت مولانا بلال احمد رضوی بہاری
۶۔ منبع العلم مولانا بہائ المصطفیٰ رضوی امجدی مدرس منظرِ اسلام
۷۔ حافظ قاری عبد الحکیم عزیزی گونڈوی
درس وتدریس
مولانا محمد انور علی ۱۹۷۸ء میں فارغ ہوکر مناظر قدرت الٰہیہ کا نظارہ کرنے اور موسم بہار کو خوش گواری حاصل کرنےکے لیے مدرسہ رضویہ انوار القرآن کاٹھ گودام ضلع نینی تال میں تدریس کے لیے تشریف لے گئے، اور ساتھ ہی ساتھ جامع مسجد کاٹھ گودام کی خطابت دامات کے فرائض بھی انجام دیئے۔ تقریباً تین سال بحسن و خوبی مذہب اہل سنت، مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کرتے رہے۔ آپ نے بد مذہبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور بہت سے افراد کو حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ سے بیعت بھی کرایا۔
مولانا قاری غلام محی الدین شیری رضوی کے برابر اصرار و مجبور کرنے پر بحیثیت صدر مدرس مدرسہ اشاعت الحق ہلدوانی ضلع نینی تال چلے گئے۔ ہلدوانی کے حالات ناموافق ہونے کے باعظ صرف چارماہ رہنے کے بعد ۱۹۸۱ء کے آخر میں دارالعلوم گلشنِ بغداد رام پور میں آپ کا تقرر ہوگیا۔ مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی رام پوری نے دارالعلوم کا نظم ونسق بہت ہی بہتر بنادیا تھا لیکن نا مساعد حالات کے پیش نظر مفتی سید شاہد علی رضوی رام پوری نے استعفیٰ دے دیا، تو آپ نے بھی استعفیٰ پیش کردیا۔
پھر مفتی سید شاہد علی رامپوری کی تحریک پر دارالعلوم الجامعۃ الاسلامیہ کا قیام عمل میں آیا، اس میں آپ کو مدرس اول کے اعلیٰ عہدے پر رکھ گیا۔ پانچ سال تک اس اعلیٰ عہدے پر فائز رہ کر بحسن خوبی تدریسی وتبلیغی خدمات انجام دیں، اور مفتی سید شاہد علی کے شانہ بشانہ رہ کر ان کی مذہبی تحریکوں میں سر گرمِ عمل رہے۔ مولانا محمد انور علی کی الجامعۃ الاسلامیہ میں خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ الجامعۃ الاسلامیہ کی تاریخ نا مکمل رہے گی۔
۱۹۸۵ء میں علامہ مولانا محمد نعیم اللہ خاں رضوی بستوی کے حکم سے دار العلوم اسلام میں تشریف لے آئے، اور یہاں کی تعلیمی ترقی میں بھی آپ کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ تادمِ تحریر منظر اسلام میں شیخ الادب کےمنصب پر فائز ہیں۔ مولانا محمد انور علی جملہ کتب درس نظامیہ میں مکلم دسترس رکھتے ہیں، پڑھانے کا انداز ایسا ہے کہ ہر بات طلابِ علم کے ذہن نشین ہوتی جائے۔
امتحانات
دیگر امتحانات کا بھی شوق تھا۔ اسی جذبے کے تحت آپ ن ے مندرجہ ذیل امتحانات الٰہ آباد بورڈ ومسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے دیئے جن میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل ہوئی۔
۱۔ ۱۹۷۱ء میں ادیب۔
۲۔ ۱۹۷۲ء میں ادیب ماہر۔
۳۔ ۱۹۷۶۔ میں مولوی۔
۴۔ ۱۹۷۷ء میں عالم۔
۵۔ ۱۹۷۸ء میں منشی۔
۶۔ ۱۹۸۲ء میں فاضل دینیات۔
۷۔ ۱۹۸۳ء میں کامل۔
۸۔ ۱۹۸۵ء میں فاضلِ ادب۔
۹۔ ۱۹۸۵ء میں ادیبِ کامل۔
۱۰۔ ۱۹۸۸ء میان ایم۔ اے اُردو۔
مکتبہ المصطفیٰ کا قیام
مولانا محمد انور علی نے حضور مفتئ اعظم علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد انکی یاد میں ۱۹۸۲ء میں مکتبہ المصطفیٰ قائم کیا اور قیام کے ایک سال بعد امامِ اہل سنت سیدنا امام احمدرضا قدس سرہٗ کا معرکۃ الآراء رسالہ مسئلۂ خضاب یعنی ‘‘حک العیب فی حرمۃ تشوید الشیب’’۱۳۰۷ھ اور شیر بیشۂ اہلِ سنت مولانا حشمت علی رضوی پیلی بھیتی کی تصنیف ‘‘تقیریر منیر قلب’’ (۱۳۴۲ھ) کی اشاعت کی۔ مکتبہ المصطفیٰ کے اغراض و مقاصد کے تحت مولانا محمد انور علی رقم طراز ہیں:
اس کا مقصد اولین حضورِ انورﷺ کی محبت کا چراغ ہر گھر میں جلانا، بزرگانِ دین کی ملی خدمات سے دینائے اسلام کو روشناس کرانا، خصوصاً اعلیٰ حضرت امام اہل سنت سیدنا امام احمد رضا قدس سرہٗ کی تصنیفات و تالیفات مع تراجم و تشریحات نیز صدر الافاضل، محدث اعظم ہند، صدر الشریعۃ، شیر بیشۂ اہل سنت، مفتئ اعظم ہند قدس اللہ اسرارہم کی اکثر کتابیں بطرزِ جدید چھپواکر منظر عام پر لانا، تاجدار اہلِ سنت حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے اسمِ گرامی سے منسوب ہونا ہی مکتبہ کی کامیابی کی ضمانت اور اس کے نظریۂ قیام کی وضاحت ہے [1] ۔
اس ادارہ مکتبہ المصطفیٰ کے تحت مسئلۂ خضاب از امام احمد رضا بریلوی، تقریر منیر قلب از مولانا حشمت علی خاں رضوی پیلی بھیتی، تجلیات امام احمد رجا از م ولانا قاری محمد امانت رسول نوری پیلی بھیتی، پندرھویں صدی کے مجدد از قاری محمد امانت رسول نوری،نسیم الوردہ ترجمہ قصیدہ بردہ از مولانا مفتی جہانگیر خاں رضوی فتح پوری وغیرہ کتابیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔
عقدِ مسنون
مولانا محمد انور علی کا عقدِ مسنون ۱۹۷۶ء میں جناب عید وانصاری رضوی (قصبہ امام گنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ) کی دختر نیک اختر سے ہوا، فی الھال یہ اولاد باحیات ہیں۔
۱۔ محمد قیصر رضا متعلم دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی
۲۔ محمد طارق رضا
۳۔ محمد حسان رضا عرف رضوان انصاری
بیعت وخلافت
مولانامحمد انور علی کو ۱۹۶۹ء میں مولانا مفتی زین الدین نے مفتی رجب علی قادری رضوی نانپاروی کےدولت کدےپر حضور مفتئ اعظم کے دست حق پرست پر بیعت کرایا، اور ۲۴؍رمضان المبارک ۱۳۹۹ھ کو رضا مسجد میں بعدِ نماز عصر حضور مفتئ اعظم مولانامصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
قلمی خدمات
مولانا محمد انور علی ادیب، مضمون نگار، محقق ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ قلمکار بھی ہیں، آپ کی قلمی کاوش اور معیاوری مضامین ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی میں نکلتےرہتےہیں۔ مندرجہ ذیل کتابیں آپ ہی کی تربیت کردہ ہیں:
۱۔ انتخاب نوری
۲۔ مناقبِ مفتئ اعظم
۳۔ انتخاب حسن
۴۔ انتخاب کلامِ رضا
۵۔ مناقبِ اعلیٰ حضرت
۶۔ انتخاب ازہری
۷۔ انتخاب رحمانی
۸۔ راقم کو ہدیۃ الخو پڑھاتے وقت اس کی تخلیص کی جو ابھی تشنۂ طباعت ہے۔
۹۔ اصول فقہ میں اصول الشاشی کی طرز پر ایک مختصر سا رسالہ لکھا۔
۱۰۔ علمِ منطق میں آسان اور عام فہم زبان میں بھی رسالہ تصنیف کیا۔
۱۱۔ علم الصرف میں ایک معلوماتی سالہ تحریر کیا [2] ۔
شعر وشاعری
حضرت مولانا محمد انور علی نے زمانۂ طالب علمی میں شعر وشاعری میں طبع آزمائی کی۔ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۷۳ء میں ہوا۔ آپ کےکلام میں سلاست، روانی، تشبیہ اور استعارات کثیر تعداد میں پائےجاتے ہیں۔ اشعار کی اصلاح ھافظ انعام اللہ نسیم حامدی بریلوی، علامہ مولان تحسین رضا بریلوی اور جناب اشہر پیلی بھیتی سے لی۔ آپ نعتیہ دیوان نغمۂ قادری ہے، انور تخلص اختیار کیا۔نمونۂ کلام کے طور پر چند بحروں کے اشعار ملاحظہ ہوں؎
ہو مبارک ربیع الاول شفیع ابرار آرہے ہیں
جہاں ہے روشن فضا منور فلک سے انوار آرہےہیں
دم ولادت کھڑے تھےدر پر فرشتے پڑھتے درود مل کر
پڑھو ادب سے سلام انورؔ حضور تشریف لارہےہیں
دل سے جوبھی یارسول اللہ تمہارا ہوگیا
خلق کا محبوب وہ خالق کا پیارا ہوگیا
گرچہ عاصی ہوں مگر کیا خوف محشر کا مجھے
جبکہ آقا شافعِ محشر ہمارا ہوگیا
ملا بخشش کا پروانہ نہ خدا کے فضل و رحمت سے
نگاہِ لطف جب تم نے گنہگاروں پہ ڈالی ہے
دعائے بد پئے دشمن کریں کیون رحمتِ عالم
جلال جوش کی صورت بھی جب انورؔ جمالی ہے
پرچم حق زمانےمیں لہرائیں گے روشنی ہم مدینے کی پھیلائیں گے
حق وباطل میں ہم فرق دکھلائیں گے دشمنوں کو اگر چہ یہ کھلتا رہے
گرچہ احباب مرے وقت پہ ڈل جاتے ہیں
فضل مولیٰ سے مرے کا سنبھل جاتے ہیں
انکی الفت میں مریں پائیں حیات ابدی
شادماں اہلِ وفاقتِ اجل جاتےہیں
خصوصیات
۱۔ مولانا محمد انور علی سنی صحیح العقیدہ اور سنی گر ہیں۔
۲۔ نہایت ہی منکسر المزاج، شریف النفس، خوش اخلاق اور خوش لباس ہیں۔
۳۔ اکابرین ملت خصوصاً امام احمد رضا ومشائخ قادریہ سے بہت زیادہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔
۴۔ تلاوت قرآن پاک، دلائل الخیرات اور شجرۂ رضویہ کے بڑے پابند ہیں۔
۵۔ آپ کے بیعشتر اواات عشقِ رسولﷺ اور مفتی اعظمم کے ذکر میں بسر ہوتےہیں۔
۶۔ مولانا کی درس گاہ کے طلبہ ذی شعور، باصلاحیت اور مسلکِ اعلیٰ حضرت پر سختی سے کاربند رہتےہیں۔
۷۔ مولانا کا طلبہ کی قدرو منزلت اور مہمان نوازی میں بلند کردار ہے۔
چند تلامذہ
مولانا محمد انور علی سے اکتساب کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر چند مشاہیر طلبہ کےنام ذکر کیے جاتےہیں:
۱۔ علامہ مولانا عبد الحمید رضوی ساؤتھ افریقہ
۲۔ مولانا حافظ محمد بشارت علی رضوی صدر مدرسہ رضاء العلوم شیدا پور قیصر گنج بہرائچ
۳۔ حافظ قارینور الحسن نوری بہرائچی شیخ التجوید دار العلوم منظر اسلام بریلی
۴۔ مولانا محمد قاسم خاں رضوی کھیری لکھیم پور
۵۔ مولانا وصی اللہ خاں رضوی کھیری لکھیم پور
۶۔ مولانا قاری سخاوت حسین مراد آبادی
۷۔ مولانا مختار رضا نوری رام پوری مدرس الجامعۃ الاسلامیہ
۸۔ مولانا ولی محمد رضوی نینی تالوی مدرس دارالعلوم شاہ جماعت ہاسن (کرناٹک)
۹۔ مولانا عبد الغنی کشمیری
۱۰۔ مولانا محمد زین الدین رضوی پوری نوی مدرس مدرسہن ور الاسلام چمردّا رام پور
۹۔ مولانا عبد الحسن ہلدوانی نینی تال
۱۱۔ مولانا سلطان رضا بہرائچی مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف
۱۲۔ مولانا سید ولی اللہ رضوی کرناٹکی
۱۳۔ مولانا سید نور اللہ رضوی کرناٹکی
۱۴۔ مولانا محمد عتیق الرحمٰن رضوی اللوارہ ضلع رام پور
۱۵۔ محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی (راقم السطور)
۱۶۔ مولانا محمد یعقوب رضوی پیلی بھیتی
(حاشیہ)( [3] )
[1] ۔ حشمت علی رضوی، مولانا تقریر قلب ص ۳۲، مضمان از مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی
[2] ۔ یہ مؤخر الذکر چار کتابیں راقم کے پاس موجود ہیں، انشاء اللہ عنقریب ہی جدید تربیت کے ساتھ شائع کی جائیں، تاکہ طلبہ وعلماءاس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[3] ۔ مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد انور علی رضوی بنام راقم۔ ۱۲غفرلہٗ