شمس الائمہ سرخسی
شمس الائمہ سرخسی (تذکرہ / سوانح)
محمد بن احمد بن ابی سہل[1] سرخسی: ابو بکر کنیت اور شمس الائمہ سرخسی سے ملقب تھے۔۴۰۰ھ میں پیدا ہوئے،اپنے زمانہ کے امام،علامہ،حجت،متکلم،مناظر، اصولی،فقیہ،محدث،مجتہد تھے،ابن کمال پاشا نے آپ کو طبقہ مجتہدین فی المسائل میں سے شمار کیا ہے۔پہلے اپنے باپ کے ساتھ واسطے تجارت کے بغداد میں آئے پھر شمس الائمہ حلوائی کی صحبت اختیار کی اور ان سےعلوم پڑھے اور یہاں تک ان سے اخراج کیا کہ یگانۂ زمانہ ہوئے۔آپ سے برہان الائمہ عبد العزیزی بن عمرو ب مازہ و محمود بن عبد العزیزی اور جندی اور رکن الدین مسعود بن حسن اور عثمان بن علی بن محمد بیکندی نے تفقہ کیا،چونکہ آپ بڑے حق گو تھے اس لیے آپ نے ایک کلمہ حق کا بادشاہ کو کہا جس سے وہ ناراض ہو گیا اور آپ کو شہرا وزجند میں ایک کنوئیں کے اندر قید کردیا جس میں آپ مدت تک قید رہے اور آپ کے شاگرد کنوئیں پر بیٹ کر آپ سے س بق پڑھتے اور جو آپ کنوئیں کے اندر سے کہتے وہ لکھ لیتے تھے چنانچہ محبوسی کی حالت میں کتاب مبسوط کو پندرہ جلد میں محض اپنی فکر رسا و طبع ذکاء سے بغیر مطالعہ کسی کتاب کے اپنے تلامذہ سے لکھوایا اور نیز شرح کتاب عبادات اور شرح کتاب الاقرار کو مجلس میں تصنیف کر کے شاگردوں سے لکھوایا چنانچہ جب وہ شرح عبادات سے فارغ ہوئے تو اس کے اخیر میں یہ لکھوایا: ہٰذا آخر شرح العبادات با وضح المعانی وادجز العبارات املاء المحبوس فی مجلس الاشرار۔
علاوہ ان کے مجلس میں ایک کتاب اصول و فقہ میں اور سیر الکبیر کی شرح بھی املاء کرائی،اور جب باب الشروط تک پہنچے تو آپ کو قید سے رہائی حاصل ہو گئی،پس آپ آخر عمر میں فرغانہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں آپ کو امیر حسن نے اپنے مکان میں اتار اور طبلباء آپ کے پاس پہنچ گئے،پس وہاں آپ نے شرح سیر الکبیر کا املاء کامل کرایا۔علاوہ ان کے مختصر طحطاوی اور امام محمد کی کتابوں کی بھی شرحیں لکھیں۔ کسی نے آپ کے سامنے امام شافعی کا ذکر کر کے کہا کہ ان کو تین سوجزو کتابوں کے یاد تھے،اس پر جب اپ نے اپنے محفوظ جزو کو شمار کیا تو وہ بارہ ہزار خز نکلے۔
وفات آپ کی بقول بعض ۴۹۰ھ [2] اور بقول بعض ۵۰۰ھ کے قریب قریب ہوئی،’’شمس ملک‘‘ اور مجتہد اولیاء‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب آپ کو ظالم نے قید کر کے قاور جند کی طرف بھیجا تو راستہ میں جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے ہاتھ پاؤں سے کود بخو و بند کھل جاتے اور آ پ وضو یا تیمم کر کے پہلے بانگ نماز پھر تکبیر کہہ کر نماز شروع کردیتے،اس وقت سپاہی پہرے والے دیکھتے کہ ایک جماعت سبز پوشوں کی آپ کے پیچھے کھڑی ہو کر آپ کے ساتھ نماز ادا کرتی ہے۔جب آپ نماز سے فارغ ہوتے تو سپاہیوں کو کہتے کہ آؤ تم مجھ بادندھلو! سپاہی کہتے کہ اے خواجہ ہم نے تمہاری کرامت دیکھ لی ہے،اب ہم تم سے ایسا معاملہ نہیں کرتے۔اس پر خواجہ یہ جواب دیتے کہ میں مامور حکم خدا کا ہوں،پس میں اس کا حکم بجا لایا تاکہ قیامت کو شرمندہ نہ ہوں اور تم اس ظالم کے تا بعدار ہو پس چاہئے کہ تم اس کا حکم بجا لاؤ تاکہ اس کےظلم سے خلاصی پاؤ۔
جب آپ شہر اور جند میں پہنچے تو ایک مسجد میں مؤذن نے تکبیر کہی، آپ بھی نماز پڑھنے کو مسجد میں داخل ہوئے،امام نے آستین کے اندر ہی ہاتھ رکھ کر تکبیر تحریمہ کہی،آپ نے پچھلی صف سے آواز دی کہ پھر تکبیر کہنی چاہئے۔امام نے پھر اسی طرح آستین میں ہاتھ رکھ کر تکبیر کہی،پس اسی طرح کہا کہ ہاں،امام نے کہا کہ کیا تکبیر میں کچھ خلل ہے۔آپ نے فرمایا کہ نہیں لیکن مردوں کے لیے ہاتھ آستین سے باہر نکال کر تکبیر کہنی سنت ہے،پس مجھ کو اس شخص کے ساتھ اقتداء کرنے سے عار ہے جو عورتوں کی سنت کے ساتھ نماز میں داخل ہو۔
ایک دن کا ذکر ہےکہ طالب علم آپ سے اس کنوئیں پر جس میں آپ قید تھے،سبق پڑھ رہے تھے ایک طالب علم کی آواز آپ نے نہ سنی،اس پر آپ نے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے،ایک طالب علم نےکہا کہ وضو کرنے گیا ہے اور میں بہ سبب سردی کے وضو نہیں کر سکا۔امام نے فرمایا کہ عافاک اللہ تجھے شرم نہیں آتی کہ اس قدر سردی میں تو وضو نہیں کر سکتا حالانکہ مجھ کو طالب علمی کے وقت بخارا میں ایک دفعہ عارضہ شکم کا لاحق ہوا تھا جس سے مجھ کو چالیس دفعہ قضائے حاجت ہوئی، پس میں ہر دفوہ نالہ سے وضو کرتا تھا جب مکان پر آتا تھا تو میری دوات بسبب سردی کے جم گئی ہوتی تھی پس میں اس کے اپنے سینہ پر رکھ لیتا،جب وہ سینہ کی گرمی سے حل ہو جاتی تو اس سے تعلیقات لکھتا تھا۔
1۔ محمد بن ابی سہل احمد ’’سائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘ (مرتب)
1۔ ولادت ۴۰۰ھ وفات ۴۸۳ھ اردو سائیکلوپیڈیا اسلام ۔’’(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)