محمد بن سلمہ بلخی: فقیہ کامل تھے متجر تھے۔۱۹۲ھ میں پیدا ہوئے کنیت ابو عبداللہ تھی،فقہ شداد بن حکیم پھرابی سلیمان جو زجانی سےپڑھی اور بغداد میں محمد بن شجاع سے تعلم کیا اور سات برس تک ان کی صحبت میں رہے۔جب آپ نے محمد بن شجاع سے اپنے وطن کو واپس جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے فرمایاکہ جب تم خراسان میں گئے اور وہاں کے لوگوں نےآپ سے مسائل پھر اپنے وطن کو واپس آئے۔
آپ کا قول ہے کہ علم فقہ کا اس شخص سے پڑھان چاہئے جو اپنی دکان کو تلف اور باغ کو برباد کر کے یہاں تک علم میں مصروف ہو کہ اگر اس کا کوئی قریبی بھی مرجائے تو اس کے جنازہ تک کے ساتھ نہ جائے۔آپ سے ابو بکر محمد اسکاف نے تفقہ کیا اور ستاسی سال کی عمر میں ۲۷۸ھ میں آپ نے وفات پائی۔کہتے ہیں آپ کی وفات سے ایک روز پیشتر ابو نصر محمد بن سلام آپ کی عیادت کو آئے اور کہا کہ آپ مجھ کو وصیت کر جائیں۔آپ نے فرمایا کہ میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں،اول یہ کہ اپنی زبان کو اہل قبلہ کے حق میں برا کہنے سے بند رکھیں گو وہ بدی ہی کیوں نہ کریں۔دوم توخدا اور آخرت کو نہ پاؤگے اور اگر خدا او آخرت چاہتے ہو تو اس کو پالو گے اور خدا بھی تم پر راضی ہوگا۔’’قبلۂ عالم‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)