قاطع نجدیت مولانا محمد حسن علی رضوی
قاطع نجدیت مولانا محمد حسن علی رضوی (تذکرہ / سوانح)
بانی انوارِ رضا اہلسنت میلسی، پاکستان
ولادت
قاطع کفر و بدعت حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی کی ولادت تقسیم ہند اور قیام پاکستان سےکچھ پیشتر ہریانہ شہر ہانسی شریف ضلع حصار نبالہ ڈویژن میں ہوئی۔ جو دہلی سے ۸۰ میل جانب مغرب میں روہتک سے کچھ آگے ہے۔ جہاں تارا گڑھ اجمیر مقدس کے بعد پر تھوی راج کا دوسرا بڑا قلعہ تھا۔جس کو سلطان اسلام شہاب الدین محمد غوری نے فتح کیا تھا۔
یہ شہر اولیاء اللہ کا مرکز و مسکن رہا ہے۔ حضرت باب فرید گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خواجہ مسعود علیہ الرحمۃ یہاں بارہ سال رونق افروز رہے۔ قلعہ پر حضرت میراں نعمت اللہ ولی شہید رضی اللہ عنہ کا مزار ہے۔ اور شہر ہانسی کے مغرب میں شمالی ہند کی عظیم درساہ چار قطب آستانہ خواجہ قطب جمال ہے۔ جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے اولین و محبوب ترین خلیفہ و مجاز مہر ولایت تھے۔
پاکستان آمد
علامہ مولانا حسن علی ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے والدین کے ہمراہ میلسی ضلع ملتان (پاکستان) تشریف لائے۔ میلسی پاک پٹن سٹر ریلوے لائن پر آپ کے والدین آباد ہوئے۔
تعلیم وتربیت
مولانا حسن علی رضوی نے ابتدائی تعلیم میلسی ہی میں حاصل کی،پھر ۱۹۸۷ء کو جامعہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخلہ لے کر محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رضوی حدیث شریف کی کتابیں پڑھیں۔ کچھ عرصہ حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی بدایونی کی خدمت میں تکمیل علو و فنون کیا۔
خدمات دینیہ
میلسی شہر میں سنیت اور رضویت کی تبلیغ واشاعت کے لیے مولانا محمد حسن علی نے سب سے پہلے ا نجمن خدام الاولیاء قائم کی۔ جس نے ضلع ملتان میں علماء اہلسنت کی تصانیف کو عام کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں اور امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے مسلک کی تبلیغ میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ متعدد جلسے کرائے۔ ماہانہ گیارہویں شریف کا اہتما وانتظام کیا۔ بعد ازاں حاجی محمد سلیمان، مولانا ابو المختار اور مولوی عبدالجبار کے تعاون سے آپ نے جامعہ رضویہ سراج العلوم قائم فرمایا۔ لیکن محدث اعظم پاکستان نے ا س کا نام مدرسہ حنفیہ رضویہ مصباح العلوم رکھ دیا۔ اور فرمایا
‘‘مولانا سراج العلوم ہمارا مدرسہ گوجرانولہ میں ہے اس لیے اس کا نام بدل دیا۔’’
حضرت مولانا محمد حسن علی نے انجمن خدام الاولیاء کا نام فیصل باد میں مولانا سردار احمد رضوی کی انجمن کے نام پر ایک فدایان رسول ﷺ رکھ دیا۔ اور آپ درس دینے کے لیے مطہر اسلام فیصل اد تشریف لے گئے۔ وہاں پر محدث اعظم پاکستان کی سر پرستی میں مسند درس پر فائز رہ کر تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھایا اور بیشمار تشنگان علم آپ سے فیضیات ہوئے۔
مولانا سرادر احم رضوی کے وسال کے بعد مولانا مختار احمد نعیمی کے ساتھ مل کر داتا دربار لاہور سے ماہنامہ آستانہ فیض عالم جاری کیا۔ پھر محدث اعظم مولانا سردار احمد کے خلف اکبر صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی کے حکم پر جامعہ رضویہ مطہر اسلام فیصل آباد کے ہفتہ وار ترجمان محبوب حق میں بحیثیت نائب مدیر کے خدمات انجام دیں۔ محدث اعظم پاکستان کی یادگار میں مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت کے لیے میلسی میں مدرسہ حنفیہ غوثیہ انوار رضا قائم کیا جس نے کافی عرصہ تعلیمی تبلیغی خدمات سر انجام دیں۔ انجمن خدام رضا اہلسنت، بزم انوار رضا جیسے اہم اداروں کی کارکردگی میں آپ کی سرپرستی قابل تحسین ہے، شہر میلسی میں امام احمد رضا فاضل بریلوی کا عرس سب سے پہلے آپ ہی نے شروع کیا۔
تصانیف
ضرورت زمانہ کے تحت مخالفین اہلسنت بے دینیوں، بد مذہبوں کے روابطال میں ان کی معرکتہ الآراء کتابوں کو مدلل و مفصل اور محقق جوابات کے تحریر کرنے میں مولانا محمد حسن علی کا ایک قابل قدر کا رنامہ ہے۔ رد ابطال پر آپ کا قلم شمشیر برہنہ نظر آتا ہے۔ آپ کا انداز نگارش دیانیہ وہابیہ کے الزامات کے تعاقب میں اپنا جواب آپ ہے۔ تقریباً ۵۴کتابوں کی تصنیف کا سہرہ مولانا محمد حسن علی کے سر ہے جن میں سے مشہور کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ برہان صداقت برونجدی بطالت
۲۔ قہر خداوندی بر دھماکۂ دیوبندی
۳۔ برق آسمانی برفتنہ شیطانی
۴۔ سیف الجبار علی متن الافتخار
۵۔ انوار حق بجواب اظہار حق
۶۔ اکابر دیوبند کا تکفیری افسانہ
۷۔ تنبیہہ الجہال
۸۔ آئینہ حق وباطل
۹۔ تذکرۂ محدث اعظم پاکستان
۱۰۔ جرم وسزا
حضرت مولانا محمد حسن علی مضامین و مقالات ماہنامہ نوری کرن بریلی چھپتے تھے اور اب سنی دنیا بریلی میں ا شاعت پزیر ہوتے رہتے ہیں۔ آج کل مولانا کا مشغلہ تصنیف و تالیف ہے اور ساتھ ہی ساتھ جامع مسجد فریدیہ بلدیہ میونسپل پارک میلسی ضلع ملتان میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بیعت وخلافت
مولانا محمد حسن علی رضوی کو حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی سے ارادت و خلافت کا شرف حاصل ہے۔
آپ کو محدث اعظم مولانا سردار احمد رضوی، ملک العلماء مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اور مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بریلوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے [1] ۔
[1] ۔ یہ جملہ کوائف حضرت مولانا حسن علی رضوی میلسی نے راقم کی درخواست پر مہیّا فرمائے۔ راقم تہہ دل سے ممنون ہے۔ مکتوب بنام راقم۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲ رضوی غفرلہٗ