مفکر اسلام مولانا محمد ابراہیم علی چشتی
مفکر اسلام مولانا محمد ابراہیم علی چشتی (تذکرہ / سوانح)
عظیم دانشوار مولانا محمد ابراہیم علی چشتی ابن مولانا محرم علی چشتی ابن مولانا احمد بخشش یکدل غالباً ۲۸/شوال،۱۶ /اگست(۱۳۳۵ھ/۱۹۱۷ئ)کو لاہور میں پیدا ہوئے[1]۔
آپ کا خاندان علمی اور مذہبی روایات سے مالا مال تھا۔آپ کے والد ماجد مولانا محرم علی چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ نامور وکیل،قانون دان،سیاست دان،صحافی اور صاحب دل بزرگ تھے آپ کے جد امجد مولانا احمد بخش یکدل عربی اور فارسی کے مایہ ناز فاضل تھے،آپ کے تایا مولانا نور احمد چشتی مؤلف تحقیقات چشتی شہرۂ آفاق مؤ رخ تھے۔ ٓٓآپ کے نانا حضرت خواجہ ستان شاہ کا بلی اپنے دور کے قطب شمار ہوتے تھے ، امیر عبد الرحمن والی کابل ان کے ہاتھ پر بیعت تھے ۔ اس دینی اور علمی ماحول نے مولانا محمد ابراہیم علی چشتی کو افکارو کر دار کی وہ پختگی بخشی جو کم ہی کسی کے حصے میں آیا کرتی ہے ۔
مولانا محمد ابراہیم چشتی کی دنیاوی تعلیم اسکول سے شروع ہوئی،ابھی گورنمنٹ کالج ، لاہور میں فرسٹ ائر ہی میں تھے کہ والد ماجد کا وصال ہو گیا اور گھر کی تمام تر ذمہ داری ان کے کندھوں پر آپڑی ، اس کے با وجود انہوں نے نہ صرف سلسلۂ تعلیم جاری رکھا بلکہ ملکی وملّی معاملات میںبھی گہری دلچسپی لیتے رہے ۔
۱۹۳۸ء میں چشتی صاحب انٹر کا لجیٹ مسلم برادر ہُڈ کے سیکر ٹیری مقر ہوئے، کالج میں مثنوی مولانا روم(قدس سرہ ) کا درس بڑے ذوق و شوق سے دیتے رہے ۔ ۱۹۳۹ ء میں اسی جماعت نے خلافت پاکستان پر چشتی صاحب کا لکھا ہوا ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں خلافت پاکستان کا مجوزہ نقشہ بھی شامل تھا ، یہ پمفلٹ اور نقشہ ہندوستان بھر کے بڑے بڑے اخباروں میں خبروں اور تبصروں کا موضوع بنے رہے[2]
ڈاکٹر عبد السلام خورشید لکھتے ہیں :
’’مولوی ابراہیم علی چشتی نے ۱۹۳۹ء میں خلافت پاکستان کی اسکیم پیش کی،اس کا مد عایہ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک اچھا خاصا چوڑا کا ریڈ ور بھی رکھا جائے،انہوں نے اس سارے علاقے کو خلافت پاکستان قرار دیا اور باقی ہندوستان کے نقشے پر لکھ دیا ’’ الارض للہ ‘‘اس سے ہند خاصے پریشان ہوئے اور انہوں نے اس بنار پرپاکستان کی اور بھی شدید مخالفت شروع کردی [3]
یہ اس دور کی بات ہے جب چشتی صاحب تعلیم حاصل کر رہے تھے ، نامساعد حالات کے باوجود آپ نے نہ صرف بی۔اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں بلکہ صحافت کا ڈپلو ما بھی حاصل کیا ۔
۱۹۴۱ء میں جب صحافت کی کلاس کا آغاز ہوا تو مشہور عالمی وقائع نگار ڈاکٹر عبدالسلام خورشید آ پ کے ہم جماعت تھے، چشتی صاحب فرسٹ آئے اور ڈاکٹر صاحب سیکنڈ۔چشتی صاحب کو اردواور انگریزی میں یکساں دستر س حاصل تھی اور دونوں زبانوں میں لکھتے تھے،کچھ عرصل غیر ملکی اخبارات کے نامہ نگار بنی رہے،ملکی اخبارات میں منکر اور مبصر کے نام سے مقالات لکھ کر قرئین سے داد تحسین حاصل کرتے رہے[4]
۱۹۴۱ء کے اواخر میں چشتی صاحب ایک نئے میدان میں داخل ہوئے ، راجہ نرنید رنا تھ جو سیاسی طور پر ایک کٹر فرقہ پرست ہند نہ اور تہذیب و تمدن میں مسلمانوں سے ملتا جلتا ذوق رکھتے تھے ، مولانا محرم علی چشتی کے گہرے دوست تھے،اسی نسبت سے چشتی صاحب پر بڑی شفقت کرتے تھے،انہوں نے متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم سر سکند رحیات کو کہا کہ ہندئووں اور مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے اتحاد کی کوئی صورت نہیں ہے البتہ اگر ایک غیر ساسی ادارہ قائم کر دیا جائے جس سے دونوں قومیں وابستہ ہوں تو فرقہ دار نہ کشید گی کم ہو سکتی ہے اور اس ادارے کی تشکیل کے لئے مولانا ابرہیم علی چشتی کا نام پیش کیا ، چنانچہ چشتی صاحب نے تحریک رفاقت کے نام سے ادارہ قائم کر کے کام شروع کر دیا[5]،
تاہم مسلم لیگ کی ہمدردی اور اعانت کا سلسلہ بد ستور جاری رہا۔جناب میاں محمد شفیع قمطراز ہیں :۔
’’ انہوں نے ۱۹۴۱ء کے اواخر میں تحریک رفاقت کی تشکیل کا فیصلہ کن وجوہات کی بناء پر کیا اور وہ ۲۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک اپنے احباب کے ذریعہ کس طرح مسلم لیگ کی حمایت کرتے رہے؟ یہ علحٰدہ داستان ہے [6] ‘‘
کتنا اچھا ہوتا اگر میاں صاحب یہ داستان کسی وقت سپرد قلم فر ما دیتے !
۱۹۴۶ء میں جب حکومت نے محسوس کیا کہ یہ تحریک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں رہی تو اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا،چشتی صاحب ڈٹ گئے کہ یہ تحریک میں نے شروع کی تھی، تمہیں اسے ختم کرنے کا کیا حق ہے ؟ جب وہ کسی طرح چارج دینے پر رضا مند نہ ہوئے تو حکومت پنجاب کے ڈائر یکٹر جزل مسٹرہا ور پولیس لے کہ تحریم کے دفتر میں پہنچ گئے اور انہیں جبراً الگ کر دیا[7]
قیام پاکستان سے قبل ہر جگہ مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہور ہا تھا البتہ صوبۂ سرحد میں خان عبد الغفار خان اور اس کے خدائی خد مت گاروں کا گہرا،اثر تھا، اس کے علاوہ مشہو ر انگریز دشمن فقیر آف اپی کا قبائلی علاقہ میں بڑا چر چا تھا اور کہا جاتا تھا کہ خفیہ طور پر خان عبد الغفار خاں کو اس کی حمایت حاصل تھی ،مسلم لیگیوں کے لئے یہ بات وجہ تشویش تھی،میاں محمد شفیع ( م ش) نے آزاد علاقے میں فقیر آف اپی کا حریف تلاش کر لیا اور رسول اینڈ ملٹری گزٹ میں بابا بلند کو ئی زابلستانی کے انٹرویو تحریک پاکستان کی حمایت میں بڑی گھن گرج کے ساتھ شائع کرنے شروع کر دئے۔نوائے وقت ان دنوں نیا پر چہ تھا، حمید نظامی نے میاں محمد شفیع سے فر مائش کی کہ بیانات زیادہ تفصیلی حاصل کئے جائیں،چنانچہ میاں صاحب کے نام سے مقالات کا سلسلہ شائع کیا گیا۔ان بیانات اور مقالات کے دورر س نتائج مرتب ہوئے اور تحریک پاکستان کو زبردست تقوت ملی۔یہ ۱۹۴۶ء کی با ت ہے ، شائد یہ راز پر دہ خفا میں رہتا اگر ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر عبد السلام خورشید انکشاف نہ کر تے:۔
’’حضرت با با بلند کو ہی اصل میں مولوی ابراہیم علی تھے اور انہی کے تاثرات اور نظریات کو آزاد قبائلی علاقے کے مفر وضہ حضرت با با بلند کوہی سے منسوب کیا گیا تھا اور یہ کہ میاں محمد شفیع آزاد قبائلی علاقے میں نہیں پیسہ اخبار سٹریٹ جاتے رہے تھے،لاریب اس سے بڑا اسکوپ دنیا کسی اخبار نویس نے نہیں جیتا ؎
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ‘‘[8]
مولانا محمد ابراہیم علی چشتی ۱۹۴۶ ء میں تحریک رفاقت سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جب صوبائی مسلم لیگ کی ہائی کمانڈ کے تمام اراکین گرفتار کر لئے گئے تو چشتی صاحب تحریک سول نا فرمانی کی رہنما کرتے ہوئے جیل چلے گئے ، اسی سال جب بنارس میں انڈیا سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو چشتی صاحب نے اس میں بھی نمایاں طور پر حصہ لیا اور خصوؔصی میٹنگوں میں شریک رہے،میاں محمد شفیع ( م ش) لکھتے ہیں : ۔
’’ انہوں نے پنجاب کی اہم گدیوں تو نسہ شریف،سیال شریف اور گولڑہ شریف کے قابل احترام سجادہ نشینوں کے بے پناہ اظر در سوخ کے دھاروں کا رخ مسلم لیگ کی طرف موڑنے میں خاموش لیکن موثر کردار ادا کیا،قیام پاکستان کے بعد مولوی چشتی صاحب نے پاکستان کی آئیڈیا بالوجی کے متعلق بے شمارکالم سپرد قلم فرمائے[9]
تحریک ختم نبوت ۲۹۵۳ء میں پر جوش حصہ لیا،منیر انکو ائری رپورٹ میں آپ کے مقدمہ کی رپورٹ سے آ پ کے عزم واستقلال کا پتہ چلتا ہے،مجموعی طور پر دس سال تک قید و بند میں رہے[10]
مولانا محمد ابراہیم علی چشتی نے ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں بے شمار کا م لکھنے کے علاوہ اردو اور انگریزی میں متعد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض دوسروں کے نام سے شائع ہوئیں،چند مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ میری جدو جہد: ہر ہٹلر کی خود نوشت سوانح عمری کا اردو ترجمہ
۲۔ ٹریرآف جزل نالج (انگریزی )
۳ پاکستان کے لئے جدید اسلامی دستور (انگریزی)
۴۔ مختصر معار ف علوم اسلامیہ
۵۔ ملفوظات با با بلند کوہی (اردو)
ٍ۶۔ خلافت پاکستان ( ’’)
۷۔ انگریزی راج کیوں ختم ہو ا؟(ترجمہ از انگریزی ) [11]
مولانا محمد ابراہیم علی چشتی کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا،مولانا عبد الستار خاں نیازی مد ظلہ جزل سکر یٹری جمیعت علمائے پاکستان، مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری، جناب حمید نظامی، ڈاکٹر عبد السلام خورشید اور میاں محمد شفیع ( م ش) وغیر ہم آپ کے مخلص احباب میں سے تھے ،چشتی صاحب ، شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی اور اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی قدس سرہما کے مسلک پر سختی سے کا ر بندتھے۔ مفتی اعظم پاکستان مولانا سید ابو البر کات دامت بر کاتہم العالیہ کے فتاویٰ کو بڑی قد رو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ان کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ حضرت قبلہ سید صاحب نے پڑھائی ۔
۱۳ ربیع الثانی،۱۱ جولائی( ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء) کو مولانا محمد ابرہیم علی چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا اور شاہی مسجد کے قریب مولانا محرم علی چشتی کی نبوائی ہوئی مسجد کے قریب مولانا محرم علی چشتی کی نبوائی ہوئی مسجد حضر ت صابر شاہ ولی شہید میں دفن کئے گئے ۔ مولانا سید شریف احمد شرافت احمد شرافت نو شای مد ظلہ قطعۂ تاریخ کہا ؎
جناب براہیم چشتی کمال
زدنیائے دوں شد سوئے ذوالجلال
ذکی و سخن پر ورو خوش بیاں
نبودہ کسے مثل او در زماں
بعربی و انگریزی وفارسی
باردو و عبرانی و جرمنی
مہارت بسے داشت در ہر زباں
بتالیف پر داخت در ہرلساں
بتجرید و تفرید بودہ وحید
بفقر و غنا مثل سے کس ندید
پسر پاک حضرت محرم علی
کہ بودہ با قران مرد جلی
زا ولاد آن فر د مسعو دیں
شکر گنج قطب زمان وز میں
بد از عاشقان بزرگان چشت
خدا وند جایش کندر بہشت
بفردوس اعلیٰ شود مستقیم
بروضات جنات دارالنعیم
طو بر بست رخت حیات از جہاں
ربیع دوم سیز دہ بود آں
سن حلتش گویم از لطف شاہ
سراج ہدایت مروت پناہ
زسال مسیحی چو خواہی نشاں
بداں خسر دے منتخب بہر آں
[1] مکتوب جناب عبد القدیر،مزنگ لاہور بنام محب گرامی جناب محمد صادق قصوری زیدہ مجدہٗ
تحریر ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۵۴
[2] میاں محمد شفیع ( م ش ) : مولوی ابراہیم علی چشتی ، روزنامہ نوائے لاہور ، ۷ ؍اگست ۱۹۶۸ء۔
[3] عبد السلام خورشید ، ڈاکٹر : روزنامہ مشرق لاہور ، ۴؍ اگست ۱۹۶۸ء
[4] ایضاً
[5] عبد السلام خورشید ، ڈاکٹر : روزنامہ مشرق لاہور ، ۴ اگست ۱۹۶۸ء
[6] میاں محمد شفیع ( م ش ) : روز نامہ نوائے وقت لاہور ، ۷ اگست ۱۹۶۸ء ص ۲
[7] عبد السلام خورشید،ڈاکٹر: روز نامہ مشرق لاہور،سنڈے ایڈیشن، ۴؍اگست ۱۹۶۸، ص ۴
[8] عبد السلام خورشید ڈاکٹر ؛ روز نامہ مشرق لاہور ، ۴ اگست ۱۹۶۸ء
[9] میاں محمد شفیع (دم ش): روز نامہ نوائے وقت لاہو ر، ۷ ؍اگست ۱۹۶۸ء
[10] روزنامہ کوہستان لاہور،۷؍ اگست ۱۹۶۸ئ
[11] مکتوب جنا ب محمد صادقصوری بنام راقم الحروف۔
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)