مولانا پیر محمد ابراہیم جان سر ہندی
مولانا پیر محمد ابراہیم جان سر ہندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا پیر محمد ابراہیم جان سر ہندی بن حضرت پیر محمد اسماعیل روشن بن حضر ت پیر حکیم محمد حسین بن خواجہ عبدالرحمن جان سر ہندی مجددی فاروقی رمضان المبارک ۱۳۳۴ھ؍ ۱۹۱۶ء بروز دو شنبہ تولد ہوئے۔
نام محمد عرف ابراہیم تخلص ’’خلیل ‘‘ اور کنیت ابو العلاء ہے۔علوم ظاہری و باطنی کے جامع ، عالم باعمل عابد و زاہد تھے زندگی بھر گلزار خلیل تحصیل سامارو( ضلع عمر کوٹ ، سندھ) میں مجددی اور سر ہندی مسند رشد و ہدایت پر جلوہ فرماتے رہے اور مخلوق خدا کی رہبری و ہدایت فرماتے رہے۔ ( صوفیائے نقشبند)
تعلیم و تربیت:
آپ نے جدا مجد ، والد گرامی ، مولانا عبدالرحیم دل ، مولانا غوث محمد بھر گڑی ( شاگرد مولانا علامہ محمد عثمان قرانی مجددی ؒ ) مولانا محمد قاسم کالرو اور مولانا عطاء اللہ سے عربی اور فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ بعدازاں انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی میں داخلہ لے لیا مگر جدامجد حضرت پیر محمد حسین سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کا انگریزی پڑھنا پسند نہ آیا اور فرمایا: اگر تم انگریزی پڑھنا چاہتے ہو تو ہم گاوٗ ں میں ہی کسی استاد کو مقرر کر دیں گے۔ چنانچہ آپ نے گاوٗں میں ہی انگریزی زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی لیکن جلد ہی اس زبان سے ایسی نفرت ہو گئی کہ اسے بالکل ترک کر دیا۔
اب آپ کو علم طب کا شوق چر آیا تو دہلی تشریف لے گئے لیکن حکیم محمد اجمل خان صاحب کی رحلت کے سبب طیبہ کالج انار کی کاشکار ہو چکا تھا ، چنانچہ آپ نے حکیم کبیر الدین کے ہاں داخلہ لیا اور بڑی تندہی سے علم طب کی تحصل شروع کر دی۔ وہاں سے آپ نے جدامجد کو خط لکھا کہ میں طب کی تحصیل کیلئے دوردراز کا سفر کر کے یہاں آیا ہوں اب آپ کی دعاوٗں کی ضرورت ہے حضرت نے جواب میں لکھا کہ جس علم کے حصول اور جن کتب کی تکمیل کے لئے تم بھٹکتے پھر رہے ہو وہ مجھ سے بہتر تمہیں کوئی پڑھا سکتا۔ لہذا آپ واپس وطن تشریف لے گئے اور جدامجد کے حضور علم طب کی آخری کتا بیں قانون الشیخ ونفیسی وغیرہ پڑھیں ۔ اس کے بعد علوم دینیہ کی مزید تعلیم کے لئے اجمیر شریف تشریف لے گئے اور علامہ معین الدین اجمیری ؒ سے استفادہ کیا اور ساتھ ساتھ مولانا کے برادر اصغر مولانا حکیم نظام الدین اجمیری سے علم طب میں بھی اکتساب فرمایا ۔( اکابر تحریک پاکستان )
بیعت و خلافت :
فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت خواجہ نور بخش رحمتہ اللہ علیہ خانقاہ پھلن شریف ( ضلع ملتان ) کے دست حق پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت کی اور پھر مولانا فیض محمد قندھار ی رحمتہ الہ علیہ ( فیض آباد تاندلیا نوالہ تحصیل سمندری ، ضلع فیصل آباد ) سے بیعت ہو کر طریقت و معرفت کے مقامات طے کئے ۔ اجازت و خلافت بھی انہیں سے پائی ۔
قیام مدرسہ :
گلزار خلیل میں آپ ایک طرف رشد و ہدایت اور طب و حکمت کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہے اور دوسری طرف اسی طرف اسی گاوٗں میں ایک مدرسہ بنا م ’’مجددیہ سر ہند یہ ‘‘ قائم فرمایا۔ جس میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔
عادات و خصائل :
آپ زندگی اس قدر سادہ گزارتے تھے کہ باوجود صاحب حیثیت زمیندار ہونے کے آخر تک پختہ مکان نہیں بنایا۔ چار پائی پر نہیں سوتے تھے ۔ عیش و تنعم سے سخت نفرت تھی ۔ خوراک بھی سادہ تھی اور مٹی کے تھلہ پر بیٹھتے تھے۔ آپ کی تقریر بڑی دل پذیر اور مرتب ہوتی تھی عیدین کے موقعہ پر آپ کا عام خطاب ہوتا تھا۔ خدمت دین کا بڑا جذبہ رکھتے تھے ، لادینیت کے خلاف تحریک ہو یا سوشلز م و بد عقیدگی کے خلاف جہاد ہو یا وہابیت کے خلاف ملتان کی سنی کانفرنس ہو یا رائے ونڈ کی سنی کانفرنس الغرض ہر تحریک میں آپ نے بھر پور کردار ادا کیا۔
شعر و شاعری :
شعر و شاعری کا ملکہ آپ کو ورثہ میں ملا تھا، کیوں کہ آپ کے والد گرامی پیر محمد اسماعیل ’’روشن ‘‘ ٹنڈو سائنداد ( ضلع حیدرآباد ) کے سر ہندیوں کے واحد صاحب دیوان شاعر تھے اور شعر و شاعری میں بڑا بلند مقام رکھتے تھے۔ اسی لئے پیرا براہیم جان خلیل بھی شروع ہی سے شعر کا ذوق رکھتے تھے۔ فارسی اور سندھی دونوں زبانوں میں بہت عمدہ اشعار کہتے تھے۔ سلاست ، برجستگی ، شگفتگی ، رنگین بیانی آپ کے کلام کی بنیاد خوبیاں ہیں ۔
جشن میلاد شریف :
آپ ہر سال ۱۴، ربیع الاول شریف کو اپنے آستانہ گلزار خلیل میں جشن عید میلاد النبی ﷺ نہایت عقیدت و احترام سے مناتے تھے۔ صبح تا نماز ظہر تک علماء کرام کی تقاریر اور نعت خوانوں کی نعت خوانی ہوتی جس میں لاڑ اور تھر سے کثیر تعداد میں عوام النا س کی شرکت سے ایک عید کا سماں ہوتا۔ فقیر راشدی نے حضرت کی زندگی مبارکہ میں ایک بار شرکت فرمائی ۔
شمشیر بے نیام :
آپ نے سندھ میں لادینی عناصر کے خلاف جہاد کیا۔ آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ملحدوں ، بھارت کے ایجنٹوں ، کمیونیسٹوں ، قوم پرستوں اور راجہ ڈاہر پر ناز کرنے والوں کے کلاف قلمی جہاد ہے۔ آپ نے ’’سندھ سونہاری ‘‘کے نام سے سندھی زبان میں ایک وقیع کتاب لکھی تھی آپ نے اس کتاب میں لادینی عناصر ، ملحدوں ، قوم پرستوں اور نظر یہ پاکستان کے دشمنوں کا اس انداز سے تعاقب کیا ہے کہ زبان سے مرحبا و ماشاء اللہ کی صدائیں بے ساختہ نکلتی ہیں ۔ اس کتاب نے سندھ کی عوامی زندگی پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کئے ہیں ۔ آپ نے مذکورہ حضرات کو نام بنام یہ کتاب رجسٹری بھجوائی تھی۔
سندھ میں اسلام دشمن اور وطن دشمن عناصر کے خلاف آپ شمشیر برہنہ بن کر میدان عمل میں مصروف جہاد رہے۔ سندھ کے نام نہاد ادیبوں کی تحریروں کے اقتباسات پر مبنی ’’ قر طاس ابیض ‘‘ رسالہ شائع کیا گیا تھا۔ حکومت سندھ نے اس پر بھی پابندی لگا دی۔ ( اکابر تحریک پاکستان )
وہابیت ، دیوبندیت ، غیر مقلدیت اور مودودیت کے سخت خلاف تھے اور اس کے خلاف اپنے مریدوں کو تلقین فرماتے رہتے تھے۔
اعلیٰ حضرت سے عقیدت :
اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ۔ دونو ں کتابیں فقہ الزکوٰۃ ( دو جلدیں ) فتاویٰ رضویہ ایک جلد ارسال خدمت ہے۔ فتاویٰ رضویہ سے پتہ چلا کہ علامہ احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے بے مثال اور وحید الد ہر عالم تھے۔ میں نے فتاویٰ رضویہ منگوالی ہے ، چار جلدیں ملی ہیں پانچویں فی الحال نہیں ملی ہے ۔ کتب خانہ والوں نے لکھا ہے کہ وہ بھی جلد بھیجیں گے ۔ ( صوفیائے نقشبند)
آپ نے ایک رسالہ ’’ تصویروں کی لعنت ‘‘ تحریر فرمایا اس میں اکثر احادیث اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے رسالہ ’’احکام التصویر ‘‘ سے اخذ کی۔ آپ اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : مگر میں نے بڑی تک ودو کے بعد اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا لکھا ہوا رسالہ حاصل کیا‘‘۔
ایک مقام پر مولانا محمد زبیر نقشبندی ( حیدرآباد ) پر لطیف طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آپ نے فرمایا ہے کہ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا مقلد نہیں ہوں ۔ جنا ب عالی ! آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مقلد کیسے ہو سکتے ہیں ، جب کہ آپ ہر قسم کے علوم منقولات و معقولات میں اس سے بدر جابر ترو بالا ہیں ۔ اگر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ ا س وقت ہوتے تو یقینا آپ کے مقلد ہو جاتے ۔ ( ص ۵۵)
تصنیف و تالیف :
آپ کو تصنیف سے بھی خاصی دلچپسی تھی ، چند نام درج ذیل ہیں :
٭ سندھ سونہاری ( سندھی ) مطبوعہ گلزار خلیل سن ندارد ، غالبا ۱۹۷۰
٭ قرطاس ابیص ( سندھی ) نا م نہاد قوم پرستوں سندھی ادیبوں کے بے ادیبوں کا رد غالبا ۱۹۷۵ء
٭ حقوق الوالدین ( سندھی ) مطبوعہ گلزار خلیل ۲۰۰۱ء
٭ تصویروں کی لعنت ( سندھی ) مولانا زبیر کے موقف کے رد میں لیکن تنقید و طنز کا نشتر ہے ، اردو ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔
٭ ردوہابیت ( سندھی)
٭ خطو ط جواب الجواب
٭ گوہرن جوگنج
٭ مکتوبات خلیلی مرتبہ غلام رسول خلیلی ( ٹنڈو الہیار )
٭ عصمت انبیاء (سندھی ، اردو)
٭ سندھ سونہاری کے سات ستارے
شادی واولاد :
آپ نے دو شادیاں کی ایک گوٹھ پیر سر ہندی ملیر کراچی سے دوسری پشاور سے کی ان سے پانچ بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ عطاء اللہ عطا سر ہندی
۲۔ حافظ محمد یعقوب سرہندی
۳۔ محمد ایوب سر ہندی
۴۔ ڈاکٹر محمد موسیٰ سر ہندی m.b.b.s
۵۔ ولی اللہ سر ہندی
وصال :
آپ نے ۲۲ ، ربیع الاول شریف ۱۴۲۳ھ بمطابق ۴ ، جون ۲۰۰۲ء کو گلزار خلیل تحصیل سامارو ضلع عمر کوٹ میں ۸۶ سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ حضرت مولانا عبدالوحید سر ہندی نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ اور آخری آرامگاہ درگاہ مجددیہ ٹنڈو سائینداد ضلع حیدر آباد میں بنا۔
گلزار خلیل میں ۱۴، جولائی ۲۰۰۲ء کو چہلم شریف کی محفل منعقد ہوئی ، جس میں لاڑاور تھر سے علماء و مشائخ نے شرکت کی اور آپ کے صاحبزادے زمیندار حاجی محمد ایوب سر ہندی صاحب کو سجادہ نشین مقر ر کیا۔ دعا ہے کہ وہ اپنے والد بزرگوار کے مشن کو جاری رکھیں اور ان کی روایات کو برقرار رکھیں ۔ آمین
قاضی محمد ابراہیم خلیل
مولانا قاضی محمد ابراہیم بن قاضی خدا بخش ۱۹۰۱ئ؍ ۱۳۱۸ھ میں تحصیل شہداد کوٹ (ضلع لاڑکانہ ) کے گوٹھ کارڑا میں تولد ہوئے۔ آپ کی ولادت پر حضرت غوث الزمان ، مفتی اعظم ، علامہ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ کے شاگرد مولانا ہندی نے قطعہ تاریخ کہا:
چوں ابراہیم درگلزار دنیا
چوں گل آمد شگفتہ گل بناسا
’’بھندی‘‘ اسرار دانش خرد سال
’’زہے یک باغ ابراہیم گفتہ‘‘
۱۳۱۸ھ
آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے : قاضی محمد ابراہیم خلیل بن مولانا قاضی خدا بخش بن قاضی محمد ابراہیم بن قاضی محمد بن حضرت علامہ قاضی محمد ابراہیم میر پوری حنفی ( متوفی ۱۲۵۰ھ ایک اندازے کے مطابق ) قاضی محمد ابراہیم میر پوری ریاست قلات ( بلوچستان ) کے نامور قاضی گذرے ہیں ۔ آپ کا خاندان اصل میں عراق سے بلوچستان آیاتھا ۔ قاضی محمد ابراہیم کے جدامجد شیخ احمد شافعی تھے جو کہ عراق کے شہر زبیدہ کے مکین تھے وہیں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم و تربیت حاصل کر کے ایک مقام حاصل کیا۔ میر نصیر خان بروہی خان آف قلات کے جدا علیٰ میر عبداللہ خان ، شیخ احمد شافعی کے خاص معتقد تھے ان کے علم و فضل کے معترف تھے اس لئے وہاں سے یہاں لے کر آئے اور قلات کا قاضی مقرر کیا۔ آپ شافعی ہونے کے باوجود یہاں کی آبادی کا حنفی ہونے کی وجہ سے فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ جاری فرمایا کرتے تھے۔ علامہ عبدالحلیم کنڈوی ، قاضی میر پور کے شاگرد تھے۔ ( الرحیم مشاہیر سندھ نمبر ۱۹۶۷ئ)
تعلیم و تربیت :
قاضی ابراہیم خلیل نے ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب میں والد صاحب سے حاصل کی ۔ اس کے بعد تحصیل قمبر ( ضلع لاڑکانہ ) کے گوٹھ کو ر سلیمان میں پیر سید تراب علی شاہ راشدی کی قائم کردہ دینی درسگاہ مدرسہ دارالفیض میں مولانا عبدالکریم کورائی کے پاس درسی نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔
درس و تدریس :
آپ عالم ابن عالم ، حکیم ، شاعر، مدرس اور محرر تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بعد فراغت اپنے گوٹھ میں درس و تدریس اور طب کاکام شروع کیا اور تاحیات قائم رکھا۔ حکمت آپ کا خاندانی پیشہ تھا، قدرت نے آپ کے ہاتھ میں شفا و دیعت فرمائی تھی جس کے سبب بے شمار انسان شفایاب ہوئے۔
دینی و طبی کتب کا مطالعہ اور جمع کرنے کا ازحد شوق تھا۔ جس کے سبب نادر و نایاب و قلمی کتابوں کا ایک ذخیرہ جمع کر رکھا تھا لیکن زمانے کے خرد برد کے سبب اکثر کتب تلف و ضائع ہو گئیں ۔
سفر حرمین شریفین :
قاضی خلیل نے اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی تھی۔
تصنیف و تالیف:
اس سلسلہ میں ایک ہی کتاب کا علم ہو سکا کہ انہوں نے اپنے استاد مولانا عبدالکریم کورائی کی شخصیت پر فارسی میں ایک کتاب بنام علامہ ’’عبدالکریم کورائی ‘‘ تصنیف کی تھی جو کہ ایک بارز یور طباعت سے آراستہ ہو سکی ۔
شاعری :
قاضی خلیل شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے، تخلص ’’خلیل ‘‘ استعمال میں لائے ، اکثر شاعری فارسی میں ہے جب کہ سندھی اور اردو میں بھی شاعری ہے جو کہ ان کے لائق پوتے محمد یوسف قاضی کے پاس محفوظ ہے۔
فقیہ الاعظم تاج العارفین حضرت علا مہ خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ کے سلسلہ اساتذہ کرام کے متعلق قاضی ابراہیم خلیل نے فارسی میں نظم کہی تھی جسے مفتی غلام محمد قاسمی نے ’’سلسلۃ الاساتذہ الکاملین ‘‘ کے نام سے فتاویٰ قاسمیہ جلد اول ( مطبوعہ مشوری شریف ) میں نقل فرمایا ہے۔
حبردانا محمد قاسم
قاسم فیض باعمل عالم
درمشوری شریف درگاہ اوست
درگاہ و درسگاہ ہر دو در اوست
درہمیں سلسلہ ہمہ علماء
عارفانند کاملاں صلحا
مفتی محمد قاسم یاسینی کے وصال پر قطعہ تاریخ وصال لکھا وہ بھی ہماری اس کتاب میں اپنے مقام پر درج ہے اور حضرت حافظ امام بخش سومرو کے وصال پر سندھی میں منقبت کہی ۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی فہرست میں سے ایک نام معلوم ہوا ہے:
۱۔ میاں محمد نصیر الدین ، درگاہ شریف صدیقیہ شہداد کوٹ
وصال :
قاضی محمد ابراہیم خلیل نے ۱۳، ستمبر ۱۹۸۷ء کو ۸۷ سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے انتقال کیا۔
آبائی گوٹھ کارڑا کے قبرستان میں آخری آرامگاہ ہے۔ ( ماخوذ: شہداد کوٹ جاقلم کا راور شاعر ، ص ۲۲۴)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)