حضرت مولانا فقیر محمد قاسم کالرو
حضرت مولانا فقیر محمد قاسم کالرو (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا فقیر محمد قاسم کالرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا فقیر محمد قاسم بن فقیر محمد سلطان کا لرو گوٹھ صاحبن جو کوٹ تحصیل و ضلع عمر کوٹ میں ۱۲۹۹ھ کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم آبائی گوٹھ میں مسجد کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد مٹیاری ( ضلع حیدرآباد) میں حضرت علامہ قاضی لعل محمد متعلوی کے پاس تعلیم حاصل کی اور چند اسباق قاضی صاحب کے استاد محترم ( یعنی اپنے دادا استاد) علامہ حسن اللہ صدیقی سے تبرکا پڑھے ۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ آبائی گوٹھ کے مکتب میں مولانا عبدالرزاق کو معلم مقرر کیا گیا ہے ا س لئے اپنے وطن واپس آکر بقیہ نصابی کتب مولانا عبدالرزاق کے پاس پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت :
مٹیاری میں طالب علمی کے دور میں خانقاہ مجددیہ مٹیاری کے اس وقت کے سجادہ نشین حضرت عبدالحلیم جان سر ہندی عرف حاجی آغا رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے۔
درس وتدریس:
بعدفراغت سر ہندی حضرات کے اسرار کے پیش نظر ان کی دعوت پر گوٹھ ’’صاحبن جو کوٹ ‘‘ کے مدرسہ میں مدرس مقرر ہوئے، جہاں دس سال درس دیا اور اس عرصے میں بہت سے طلباء مستفید ہوئے ان میں افغانی اور اجھستانی طلباء بھی تھے۔ گموری گوٹھ کے مشہور بزرگ حاجی حبیب اللہ پلی کی پر خلوص دعوت پر ان کے گوٹھ میں مسلسل تیرہ سال تک درس دیا۔ ۲۳برس کے دور میں آپ نے کبھی بھی کسی طالب علم کو مارنا تو دور کی بات ہے ڈانٹابھی نہیں ۔
عادات و خصائل :
آپ زندگی بھر مجرد رہے۔ ۲۳ سال جلوت کے بعد خلوت میں چلے گئے ، گوشہ نشینی اختیار فرمائی ، بلکہ صوفیائے کرام کے ایک طبقہ ’’ملامتی ‘‘کے گروہ میں سے ہو گئے۔ لوگوں سے چھپ کر عبادت کرنے لگے اس لئے جنگل میں رہنے لگے اور لوگوں کے سامنے اپنے کو برا بھلا کہتے تاکہ لوگ انہیں صالح متقی نہ سمجھیں بلکہ برا سمجھ کر دور ہو جائیں تا کہ وہ دل جمعی کے ساتھ خلوت میں دن رات مالک حقیقی کی بندگی کر سکیں ۔ دن رات جنگل میں چھپ کر گذارتے تھے، جس طرح لوگ اپنے گناہ کو چھپاتے ہیں اسی طرح آپ اپنی نیکیوں کو چھپاتے تھے۔ کبھی کبھی دن میں شہر میں آتے تو لوگوں کو خوف خدایا دلاتے ، عذاب قبر اور آتش جہنم سے ڈراتے ہوئے خود بھی روتے اور لوگوں کو بھی رلاتے ، ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ، آپ کو دیکھ کر لوگ بھی توبہ کرتے، خوف خدا آپ کی نس نس میں رچ گیا تھا۔ آپ کی تبلیغ اور کوشش سے ہزاروں لوگ صراط مستقیم پر آئے اور صالح متقی انسان بن گئے۔
آپ کردار کے غازی ، سادگی سچائی کی تصویر ، بے نفسی کا پیکر، صوفی باصفا، فقیر کامل اور مستجاب الدعوات تھے۔ لوگ جب آپ کو ڈھونڈ کر پاتے تو آپ خوب اپنی برائی بیان کرتے تو لوگ پھر بھی آپ سے دور نہیں ہٹتے تو انہیں محبت و درد بھرے انداز میں نصیحت فرماتے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، حضور پاک ﷺ سے محبت کریں اور ان کے طریقے پاک پر عمل کریں ، نماز پنجگانہ کی پابندی ، رمضان المبارک کے روزے رکھیں ، صاحب توفیق ہیں تو حج ادا کریں ، صاحب نصاب ہیں تو زکوٰ ۃ دیں، سب سے محبت سے پیش آئیں ، کسی پر ظلم نہ کریں ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر رحم کریں ، غریبوں و مہمانوں کو کھانا کھلائیں ، پیاسوں کو پانی پلائیں ، مساجد آباد کریں ، ذکر کے حلقہ قائم کریں ، غفلت سے بچیں موت کو ہر وقت یاد رکھیں ، تقویٰ اختیار کریں ۔
نصیحت فرما کر پھر جنگل کی طرف بھا گ جاتے ۔ زندگی رب کریم پر کا ملل بھروسہ و یقین پر بسر کی ، متوکل ایسے کہ جو کچھ نذرانہ ملتا وہ اسی وقت راہ خدا میں خرچ کر دیتے اور کل کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔ پورا ہفتہ جنگل میں گذار کر جمعہ کے روز شہر آتے نماز جمعہ ادا فرما کر پھر جنگل کا رخ اختیار فرماتے ۔ سفر و حضر میں دلائل الخیرات ، مثنوی معنوی مولانا روم ، کیمیائے سعادت امام غزالی ، دیوان غوث الاعظم جیلانی اور مکتوبات امام ربانی وغیرہ کتب تصوف کی گٹھڑی آپ کے پاس رہتی ۔
تصنیف و تالیف :
آپ کو لکھنے کا انتہائی شوق تھا، روزانہ ڈائری لکھنا آپ کے معمول میں شامل تھا۔ لوگوں و طلباء کو حسب ضرورت و حسب فرمائش نصیحت وعظ کی باتیں نماز روزہ حج و زکوٰۃ کے مسائل پر مشتمل مضامین تحریر کرکے دیتے تھے۔ تھر کے غریب وپس ماندہ علاقہ میں دینی کتب خریدنے کی وسعت کہاں تھی؟آپ نے اس طرح دینی کتب لکھ کر غریب پروری کی ، آپ کی اس خاموش تبلیغ سے بھی کافی لوگ دینی تعلیم سے بہر ہ مند ہوئے۔ ایسا قلمی مواد آپ کے مریدین معتقدین و شاگردوں کے پاس محفوظ ہے۔ آپ دینی کتابوں کو بلا معاوضہ جلد بندی کر کے دیتے تھے۔
۱۔ گوہر ن جو گنج( ناصحانہ شاعری ) مرتبہ مولانا پیر محمد ابراہیم خلیل سر ہندی
۲۔ لگاگھمن لوک میں ( ناصحانہ آزاد سندھی شاعری ) مرتبہ عبدالمالک پلی ضلع عمر کوٹ
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کے سلسلہ میں بعض نام معلوم ہو سکے ہیں :
۱۔ مولانا شفیع محمد پلی
۲۔ حافظ جان محمد پلی
۳۔ لطف اللہ پلی ( ادیب و صحافی )
وصال:
مولانا فقیر محمد قاسم کا لرو نے ۳، ربیع الاول ۱۳۷۴ھ بمطابق ۱۳۱، اکتوبر ۱۹۵۴ء بروز اتوار گوٹھ محمد رحیم کالرو میں رشتہ داروں کے پاس تشریف لے آئے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی تلقین فرمائی ، نیکی کی دعوت اور برائی سے منع فرمایا اس کے بعد بیٹھک میں آکر لیٹ گئے کلمہ طیبہ زبان پر جاری ہوا اور روح جسم نورانی سے پرواز کر گئی ۔ دوسرے روز نماز جنازہ ہوئی جس کے بعد تدفین عمل میں آئی۔ آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے، گنبد بنا ہوا ہے محمد رحیم کالرو اسٹیشن ( تحصیل سامارو ضلع عمر کوٹ ) سے ایک میل کی مسافت پر بچاء بند کے ساتھ آپ کا آستانہ مشہور ہے، سالانہ عرس مبارک نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے جس میں وعظ و نصیحت و نعت خوانی اور لنگر شریف کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ کے وصال پر حضرت پیر ابراہیم جان سر ہندی ؒ نے سندھی میں قطعہ تاریخ وصال کہا۔
( ماخوذ: لکاگھمن لوک میں ( سندھی ) مطبوعہ عمر کوٹ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)