امام العارفین سید محمد راشد پیر سائیں روزہ دھنی
امام العارفین سید محمد راشد پیر سائیں روزہ دھنی (تذکرہ / سوانح)
امام العارفین سید محمد راشد پیر سائیں روزہ دھنی علیہ الرحمۃ
نام نامی اسم گرامی:
سید محمد راشدبن سید محمد بقا شاہ شہید بن سید محمد امام شاہ حمہم اللہ
تاریخ ولادت :
۶رمضان المبارک ۱۱۷۱ھ بمقام گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑ و عرف پرانی درگاہ
القابات:
محی السنۃ ، ماحی البدیۃ ، امام العارفین ، غوث العالمین ، آفتاب قادریہ ، نائب رسول اللہ ، شیخ الشیوخ ، تیرہویں صدی کے مجدد برحق ، سادات راشدیہ کے مورث اعلیٰ وغیرہ
حضرت پیر سائیں روضے دہنی قدس اللہ سرہ الاقدس رمضان المبارک میں تولد ہوئے ۔ مادرزادو لی تھے ۔ آپ بھی حضور غوث اعظم سید نا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس اللہ با سرارہ العزیز کی طرح ماہ صیام میں دن کے وقت شیر مادرنہ پیتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کا لقب روزہ دہنی ( روزے والے ) مشہور ہوا۔ ( مخزن فیضان ص ۳۹۵)
کنیت :
آپ کی بعض تحریروں میں نام کے ساتھ کنیت ’’ابویاسین ‘‘رقم ہے۔ ( مشاہیر نمبر ص ۲۵)
حسب و نسب :
آپ صحیح النسب حسینی سید ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب پینتیس ( ۳۵) واسطو ں سے امیر المومنین ، خلیفۃ المسلمین ، خلیفہ رابع ، داماد رسول مقبول ، فاتح خیبر ، شیر خدا، امام المشارق و المغارب حضرت سیدنا علی المرتضی شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ لکیاری سادات کا خاندان اپنے شرف ومجد اور نجابت کے اعتبار سے تمام سندھ میں ممتاز سمجھا جاتا ہے ۔ لکیاری سادات کی شرافت و نجابت اور فضائل کا تذکرہ سندھ کے مورخین اور تذکرہ نگار نہایت اہتمام سے کرتے ہیں ۔ گیارہوں صدی ہجری کا ایک سندھی مورک میرک یوسف جس نے ۱۰۴۴ھ میں سندھ کے شاہجہانی دور کے حالات پر شاہجہاں کے لئے ’’مظہر شاہجہانی ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی، اپنی اس بیش بہا تالیف سے لکیاری کے سادات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
سادات لکیاری بسیار صحیح النسب اند
آگے چل کر اس نے ان کی ’’شرافت خاندانی ‘‘کو سرا ہتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایسے صحیح النسب ہیں اور اپنے نسب پر اس قدر نازاں ہیں کہ وہ اپنی لڑکیوں کا رشتہ دوسرے سادات میں نہیں کرتے ۔
(مظہر شاہجہانی ص ۲۸۴؍ اخبار مہران حیدر آباد شاہ صدر نمبر ۱۹۵۸ئ؍تذکرہ صوفیاء سندھ ص ۱۰۹)
سندھ کے نامور مورخ علامہ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی (متوفی ۱۲۰۳ھ ) رقمطراز ہیں : ازبسیار صحیح النسب سادات است
(تحفۃ الکرام فارسی ، جلد ۳ ، ص ۳۶۳)
تعلیم و تربیت :
آپ کے والد مکرم شیخ المشائخ حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید قدس سرہ العزیز نے تمام مصروفیات کے باوجود اپنی اولاد کو پورا ٹائم دیا، ان کی تعلیم و تربیت نہایت احتیاط سے فرمائی اور اپنی نگرانی میں ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا حافظ محمد اکرم گھمر وسے حاصل کی ( آگے جاکر موصوف کی بیٹی سے آپکی شادی ہوئی ) مولانا موصوف بڑے عالم و فاضل تھے ۔ ان کے علاوہ حضرت حافظ زین الدین مہیسر ؒ سے تعلیم حاصل کی جو کہ آپ کے والد مکرم حضرت پیر سید محمد بقا شاہ ؒ کے فیض یافتہ مرید اور صاحب کمال شخصیت کے مالک تھے ۔ قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد بقا پور ضلع لاڑکانہ میں حضرت مخدوم محمد طیب پھنور ؒ کے ہاں تعلیم حاصل کی۔
ملفوظات میں منقول ہے حضرت نے بچپن میں مخدوم طیب پھنور کے ہاں بقا پور میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ حضرت مخدوم شہاب الدین منگر یو، مخدوم طیب کے بڑے خلفاء سے تھے، مخدوم صاحب کے ہاں بقا پور میں زیارت کے لئے حاضر ہوتے تھے اور تیسرے چوتھے ہفتے اپنے مرشد معظم کی اجازت سے حضرت پیر سائیں اور آپ کے برادر اکبر حضرت سید عبدالرسول شاہ کو دعوت دے کر لاڑکانہ اپنے پاس لے کر آتے تھے۔ ( ملفوظات شریف حصہ ۶)
تیسرے چوتھے ہفتے طالب علم سید کی خاص دعوت کا اہتمام کرنے کی کیا وجہ تھی ؟اس سوال کا جواب خود مخدوم منگریوں عنایت فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلیات اس سید کی پیشانی میں چمک رہی ہیں اور قیامت تک روشن رہیں گی اور آپ کی اولاد ایک دوسرے سے اشرف و اکمل ہوں گی ۔
(ملفوظات شریف )
آپ مادر زادولی تھے، کاملین کو بچپن ہی سے آپ کی پیشانی میں ولایت کا نور نظر آیاتھا انہیں معلوم چل گیا تھا کہ تیرہویں صدی کا مجدد ، غوث اور محی الدین یہی بچہ ہو گا۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ حضرت کا بچپن میں لاڑکانہ میں کس جگہ قیام ہوتا تھا؟اس سلسلہ میں فقیر کی معلومات یہ ہے کہ جامع مسجد شاہی بازار ، لاڑکانہ کی قدیم مسجد ہے، سر ہیہ قوم کے خان صاحب نے تعمیر کروائی تھی ۔ اس مسجد میں مخدوم شہاب الدین منگر یو امام و مدرس تھے، غالبا اسی مسجد میں حضرت نے قیام فرمایا تھا اور یہ وہی مخدوم ہیں جن کی مزار گوٹھ خیر محمد آریجہ میں مرجع خلائق ہے ۔ مخدو م شہاب الدین سے پیشتر علامہ شیخ ابن یا مین ؒ اسی مسجد میں مدرس و امام تھے ، ان کی نامور علمی درسگاہ تھی ، یہیں سے حضرت علامہ محمد محدث آریجوی ؒ ( حضرت پیر سائیں کے استاد ) نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔
افسوس کہ اس مسجد شریف پر وہابیت کا قبضہ ہو گیا ہے، قیام پاکستان کے بعد مولوی شفیق پٹھان چشتی سنی بن کر اسی مسجد کا اما م بن گیا، حقیقت میں وہ وہابی تھا، اس کے بعد سے اسی فرقہ کے قبضہ میں ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل اس مسجد کے ساتھ میدان میں سرائے تھی ضلع لاڑکانہ کے علماء و مشائخ اور دیگر معززین جب شہر میں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے اور اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے تھے۔ سرہیہ قوم کے اہل دل مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے اور ان کے سواری کے جانوروں کو بھی گھاس پوس دیتے تھے۔
اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے حضرت کو اور آپ کے برادر اصغر حضرت سید مرتضی علی شاہ کو جید عالم اور کامل اکمل ولی حضرت علامہ حاجی فقیر اللہ علوی ؒ کی درسگاہ واقع شکار پور ( سندھ ) میں داخل کیا گیا ۔ حاجی صاحب کی درسگاہ سندھ کی نامور درسگاہ تھی۔ حاجی صاحب سندھ کے نامور فقیہ محدث و عاشق رسول حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی قدس سرہ کے نہ صرف شاگرد رشید تھے بلکہ خلیفہ مجاز بھی تھے، اس کے علاوہ مخدوم صاحب کے استاد حدیث حضرت شیخ عبدالقادر مکی حنفی سے بھی سند حدیث حاصل کی ۔ ( مشاہیر نمبر ) ایک بار حضرت سید محمد بقا شاہ شہید اپنے فرزندار جمند کو دیکھنے ، تعلیم کا ھال اھوال لینے کے لئے شکار پور تشریف لے گئے اپنے خیال کے برعکس دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں ، استاد صاحب نہایت احترام سے پیش آرہے ہیں اور نفیس و عمدہ طعام پیش کیا جارہا ہے۔ آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’جہاں طلباء کو اس طرح عمدہ کھانا ملتا رہے گا وہاں حصول تعلیم بمشکل ہے۔ ‘‘آپ نے اسی وقت اپنے دونوں صاحبزادگان کو اس مدرسہ سے رخصت دلا کر حضرت مخدوم یار محمد قدس سرہ کی درسگاہ واقع کوٹری کبیر (ضلع نوشہرو فیروز ) میں داخل درس کرایا۔ جہاں پر طلباء کے لئے فقرو قناعت کا سامان رہتا تھا۔ بعض اوقات فاقوں کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد منتہی کتب اور دورہ حدیث شریف کے لئے گوٹھ خیر محمد آریجہ ضلع لاڑکانہ میں استاد الکل حضرت علامہ محمد محدث آریجوی قدس سرہ کے مدرسہ میں داخل ہوئے ۔ ( اس مدرسہ میں حضرت شیخ العلماء علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری یوسف ثانی گیسودراز ؒ ہالانی تحصیل کنڈیارو ، آپ کے ہم درس تھے) ۔ اور مقررہ نصاب کی تکمیل کے بعد فیض و فضیلت کی دستار حاصل کی اور رخصت یاب ہو کر درگاہ مقدس پر جلوہ افروز ہوئے۔ ( ملفوظات شریف حصہ اول دیباچہ ص ۹)
آپ کے استاد علامہ آریجوی کا سلسلہ اساتذہ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی تک اور اسی راستہ سے سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اور پھر آگے حضور سید المرسلین ﷺ تک پہنچا ہے۔ (دیکھئے قاسم ولایت ص ۱۰)
بیعت و خلافت :
حضرت پیر سائیں اور آپ کے برادر اصغر حضرت سید علی مرتضی شاہ دونوں بزرگ کوٹری کبیر کے مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ آپ کے والد ماجد نے شیخ الشیوخ حضرت مخدوم محمد اسماعیل قدس سرہ کے صحبت یافتہ مرید حضرت مخدوم میاں عبدالرحمن ؒ کے مشورے پر دوران تعلیم مدرسہ کوٹری کبیر جا کر دونوں صاحبزادوں کو بیعت کیا اور ذکر واذکار کی تلقین فرمائی ۔
حضرت فرماتے ہیں : (اسی مدرسہ میں دوران طالب علمی ) ، ذکر جہر نے مجھ پر اس قدر اثر کیا کہ ازسر تاپا موبہ مو، ذاکر بن گئے ۔ ( ملفوظات شریف حصہ ۳ص ۲۲)
حضرت پیر سید محمد راشد سلسلہ عالیہ قادریہ اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں اپنے والد ماجد شیخ الاسلام والمسلمین ، سید العارفین ، واصل باللہ ، امام الاتقیاء حضرت پیر محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹ دہنی قدس سرہ الاقدس ( درگاہ شریف طیب مقام تحصیل کنگری ) سے بیعت اور خلیفہ مجازتھے۔
حضرت پیر سائیں پٹ دہنی بادشاہ (۱۱۹۸ھ) سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں قطب الدوران شیخ المشائخ ، سید الکاملین ، حضرت حافظ مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو قدس سرہ الاقدس درگاہ پریان لو ء شریف ضلع خیر پور میرس کے خلیفہ مجاز تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں مظہر غوث اعظم ، قطب الارشاد ، سید الاولیاء ، حضرت سید عبدالقادر شاہ جیلانی کیمیائے نظر آخرین (خامس ) درگاہ شریف پیر کوٹ ( ضلع جھنگ صدر پنجاب ) سے دست بیعت اور اجلہ خلفاء میں سے تھے۔
سجادہ نشینی :
سید محمد راشد شاہ قدس سرہ اپنے والد ماجد مرشد مربی سید محمد بقا شاہ کی شہادت کے بعد ۱۰محرم الحرام ۱۱۹۸ھ کو سجادہ نشین بنے ۔ اس وقت آپ کی عمر اٹھائیس (۲۸)برس تھی۔
(مخزن فیضان ص ۳۹۸)
خلفاء کرام و دیگرنامور مریدین :
جس قدر آپ کے متوسلین اور مریدین کا حلقہ وسیع تھا اسی قدر آپ کے خلفاء کرام کی تعداد بھی کثیر تھی ۔ آپ کا ہر خلیفہ اپنے مقام پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکا۔ آپ کے خلفاء سے بھی مخلوق خدا بڑی تعداد میں فیضیاب ہوئی ۔
ایک روایت کے مطابق آپ کے خلفاء کرام کی تعداد گیارہ سو ( ۱۱۰۰) تھی ۔ ( ید بیضا ء ص ۴۴)
فقیر نے آپ کے متعلق کتب ( ملفوظات شریف کبیر و مکتوبات شریف وغیرہ ) سے کنگھال کر بعض خلفاء و اہل علم مریدین کے اسماء گرامی کی ایک لسٹ ترتیب دی ہے جو کہ درج ذیل ہے :
۱۔ حضر ت خلیفہ سید حسن شاہ جیلانی بانی درگاہ سوئی شریف ( ضلع گھوٹکی ) اور آپ کے خلیفہ مجاز حضرت حافظ محمد صدیق قادری بانی درگاہ بھر چونڈی شریف تھے ۔
۲۔ حضرت خلیفہ سید جان محمد شاہ بخاری بانی درگاہ چھرائی شریف ( اڈیرو لعل ضلع حیدرآباد) بڑے صاحب کمال بزرگ تھے۔ آپ کے مریدوں کی کثرت علاقہ کیچ مکران میں ہے۔
۳۔ ۔ حضرت عارف باللہ الودود خلیفہ محمود رحمۃ اللہ المعبود بانی درگاہ شریف محمود یہ(کڑیو گھنور تحصیل گولارچی ضلع بدین ) آپ کے مرید ین کی بڑی تعداد علاقہ کچھ ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی میں تھی ۔ آپ ملفوظات شریف کے جامع ہیں ۔
۴۔ حضرت خلیفہ نبی بخش لغاری ( مٹھی ، ٹنڈو باگو ضلع بدین ) آپ قادر الکلام صوفی شاعر تھے اور ’’خلیفہ نبی بخش جو ر سالو’’ااپ کی نظم مین تصنیف ہے ( مرتبہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ) ۔ آپ کے مریدین کی کثیر تعدادعلاقہ کچھ ، کاٹھیاواڑ اور دھوراجی میں آباد تھی۔ ( مخزن فیضان )
۵۔ خلیفہ محمد حسین مہیسر جامع ’’صحبت نامہ ‘‘مدفون گوٹھ دگانو مہیسر تحصیل میر و خان ضلع لاڑکانہ وغیرہ وغیرہ تفصیل کے لئے رجوع کیجئے ’’آفتاب ولایت ‘‘احقر راشدی غفرلہ
تصنیف وتالیف :
محتر م ڈاکٹر سید خضر نو شاہی صاحب ( ریسرچ اسکالر ہمدرد یونیورسٹی کراچی ) حضرت کی تصانیف کے متعلق رقمطراز ہیں :
’’آپ نے نہ صرف وعظ تذکیر سے ظاہری علوم اور چشم فیض سے قلبی و روحانی اور باطنی عرفان کی دینی و علمی خدمات انجام دیں بلکہ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی اس فریضہ کو بہ طریق احسن نبھایا۔ آپ کی تصانیف اور تالیفات علم و عرفان کا بیش قیمت خزینہ ہیں جن سے صاحبان علم و دانش آج تک مستفیض ہو رہے ہیں ۔ یہ تصانیف علمی خزینے ہونے کے علاوہ اس دور کی تاریخ تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار کی بھی آئینہ دار ہیں ۔ جن سے آج کا طالب علم متذکرہ موضوعات کے لئے اخذو استفادہ کر سکتا ہے۔ آپ کی تصانیف اب تک جو ہمارے علم میں آسکی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ مکتوبات شریف ( فارسی ) : ارادت مندوں کی اصلاح و تعلیم کیلئے یہ طریقہ بہت مفید رہا ہے ۔ مکاتب کے ذریعے مکتوب الیہ کو اہم امور کی تعلیم مختصر الفاظ میں دے دی جاتی ہے جو کہ تحریری شکل میں سند کا درجہ بھی رکھتی ہے اور ارادت مندوں کی طرف سے آنے والے سوالات کا جواب بھی ۔۔۔۔۔چنانچہ اس طریق تعلیم سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ جہاں مختلف مسائل اور ان کا حل محفوظ ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے نام اور مقام بھی محفوظ ہو گئے جو ان مکاتب میں مکتوب الیہ تھے۔ لہذا علمی و عرفانی اہمیت کے علاوہ ان مکاتب کی ایک حیثیت ادبی اور تاریخی بھی ہے ‘‘۔ مکتوبات شریف پر سندھی میں پروفیسر ڈاکٹر نذر حسین سکندری نے تحقیقی کام کر کے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ڈاکٹر یٹ کی دگری حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔
۲۔ ملفوظات شریف (فارسی ) : آپ کی مجالس وعظ و تذکیر ، سفر و حضر اور روز مرہ زندگی میں تبلیغ و تدریس اور تعلیم و تعلم ہی پیش نظر رہا۔ چنانچہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ نصیحت آمیزاور سبق آموز ہے۔ آپ کی زبان درخشاں سے نکلے ہوئے الفاظ مبارکہ حقائق و معارف کے گوہر آب دار ہیں ۔ جنہیں آپ کے دو خلفاء نے انتہائی احتیاط اور عقیدت و احترام سے جمع کردیا تھا۔ چنانچہ خلیفہ محمود نظامانی اور خلیفہ محمد حسین مہیسر نے اپنے اپنے طور پر یہ باسعادت کام سر انجام دیا ، اس طرح ملفوظات شریف کا یہ گراں مایہ گنجینہ محفوظ ہو گیا۔ ‘‘اس ملفوظات شریف کا نام ہے ’’مجمع الفیوضات ‘‘فارسی میں دو جلدوں پر مشتمل ، سندھ کے مختلف کتب خانوں میں قلمی صورت میں محفوظ ہے۔ حضرت خواجہ علامہ مفتی محمد قاسم المثوری قدس سرہ نے پہلی بار اس ملفوظات کے نسخہ جات کو تلاش تحقیق تصحیح و تقابلی جائزہ کے بعد مستند نسخہ کے جلد اول کا سلیس سندھی ادبی زبان میں ترجمہ کیا اور ۱۹۶۲ء میںحصوں کی صورت میں شائع فرما کر اس نعمت عظمیٰ کی اشاعت میں اولیت کا اعزاز حاصل کیا اور اس ترجمہ کا نام ’’نفحات الکرامات ‘‘تجویز فرمایا۔ ’’مجمع الفیوضات ‘‘مکمل اور صحبت نامہ کا ترجمہ آپ کے پروگرام میں تھا ۔ لیکن مصروفیات کے ہجوم خصوصا سو شلزم کے خلاف ملک گیر اور تاریخی تحریک چلانے کے سبب یہ کام ادھورے رہ گئے۔
ملفوظات شریف کی دوسری جلد کا ترجمہ محب اہل بیت مفتی در محمد سکندری مرحوم نے کیا ۔ وہ بھی حصوں کی صورت میں شائع ہوا اور حال ہی میں ’’خانقاہ راشدیہ قادریہ ‘‘پیر جو گوٹھ سے تمام حصوں کو یکجا کر کے دو جلدوں میں اعلیٰ طباعت و کتابت سے مزین شائع کیا ہے ۔ یہ جدید ایڈیشن کمپیوٹر پر کمپوز ہوا ہے۔
ڈاکٹر خضر نو شاہی صاحب لکھتے ہیں : ’’یہ ملفوظات شریف عرفان و تصوف اور علم و ادب کے طالب علم کی راہ نمائی کیلئے اہم حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان کے مطالعے سے روز مرہ زندگی کے معمولات سے لے کر دین و دنیا، ظاہری و باطنی اور معاشرتی و سماجی پہلو ئے زیست کے ہر مسئلے کا حل مل سکتا ہے ۔ یہ ملفوظات ، صاحب ملفوظات کے حسن اخلاق ، علمی تبحر اور باطنی کمالات کے بھی آئینہ دار ہیں اور ان کے فکر و عمل کی بھی عکاسی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ اس دور کی علمی و ادبی او ر دینی تاریخ کو بھی اجاگر کرتے ہیں ‘‘۔
۳۔ مخزن فیضان ( اردو ) : صاحب طرز ادیب ، نامور مصنف مولانا حکیم ابو الحسان محمد رمضان علی قادری صاحب ( خطیب سنجھورو ضلع سانگھڑ سندھ ) نے چھ حصوں ( جدید ۲جلدیں ) کی تلخیص تیار کی ، جس کو اردو کا جامہ پہنا کر بہت بڑا اعزاز حاصل کیا جو کہ ’’مخزن فیضان ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ (طبع اول ۱۹۸۷ئ)
۴۔ صحبت نامہ ( فارسی) : یہ بھی حضرت قبلہ عالم کی ملفوظات شریف ہے، اس کو ’’ملفوظات صغیر ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ موٗلف آپ ہی کے فاضل خلیفہ حضرت میاں محمد حسین مہیسر ؒ ( ضلع لاڑکانہ ) تھے ۔ یہ مختصر رسالہ ہے، خلیفہ صاحب نے ۸۳(نقل ) حکایات (ملفوظ ) محفوظ کئے ہیں ۔ سرمایہ اہل سنت محترم مفتی عبدالرحیم صاحب سکندری (شاہ پور چاکر ) نے سندھی ترجمہ کیا اور ابتدا میں حضرت قبلہ عالم کی سوانح حیات دینی ملی خدمات جلیلہ اور مسلک مبارک کو بڑی کوشش و کاوش سے تحریرفرمایا ہے جو کہ ۱۲۹ صفحات پر مشتمل ہے۔
۵۔ جامع الجوا مع (فارسی لغت ) : ڈاکٹر نو شاہی صاحب رقمطراز ہیں :
’’ حضرت پیر سید محمد راشد شاہ ، مورث اعلیٰ ’’خاندان راشد‘‘ نے دینی و روحانی اور تبلیغی خدمات کے سلسلے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کا احصار کرنا بے حد مشکل اور ممکن ہے۔ ان کی رفعت علمی کا کچھ اندازہ ان کی اس نادر روز گار لغات سے لگایاجا سکتا ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد ترین لغت ہے، یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملی سکی ۔
جامع الجوا مع ایک جامع ترین فارسی لغت ہے ۔ اس میں کمال یہ ہے کہ ساتھ ساتھ بعض الفاظ کے مفاہیم کو سندھی زبان کے حوالے سے بھی واضح کیا گیا ہے۔ کسی اور فارسی لغت میں یہ اہتمام نہیں ملتا۔ یہ نسخہ تین جلدوں میں محفوظ ہے۔ مصنف نے کتاب کو خاص ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ چنانچہ تمام الفاظ کو حروف تہجی کے تحت لکھا گیا ہے۔ اس میں پہلے دوسرے اور تیسرے حرف کی رعایت سے اس کی تقسیم یوں کی گئی ہے۔ حرف اول ’’کتاب ‘‘ حرف ثانی کیلئے ’’باب ‘‘ اور حرف ثالث کے لئے ’’فصل ‘‘ کا عنوان قائم کیا گیا ہے۔
ہمارے دور میں فارسی سے فارسی کی جامع ترین لغت ’’لغت نامہ دہخد ‘‘ ہے۔ ہم نے اس سے اس لغت’’جامع الجوامع ‘‘ کا موازنہ کر کے دیکھا تو الف ممدودہ کے الفاظ میںپہلے ہی صفحے پر ہمارے نسخے میں کئی زائد الفاظ موجود ہیں ۔ مصنف نے الفاظ کے عربی ، فارسی ہونے کی نشاندہی ع۔ف سے کی ہے اور اپنے بتائے ہوئے مفاہیم اور معافی کی تائید اور تصدیق قدیم اساتذہ کے کلام ، اشعار اور مصرعوں سے کی ہے ، جس سے ان کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ لغت نویسی کے جدیدترین اصولوں کو اس دور میں انہوں نے ملحوظ رکھا ہے جو ایک اہم کارنامہ ہے ہر نئے حرف تہجی کے اعداد بہ حساب ابجد بھی بتائے ہیں ۔ نیز الفاظ کے تلفظ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ گویا کہ جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ سید حسام الدین راشدی مرحوم کے سندھی مقالات پر مبنی کتاب ’’گالھیون گوھ ون جون ‘‘ مطبوعہ ۱۹۸۱ء کے صفحہ ۶۰۲ پر اس کتاب کا نام ’’جمع الجوامع ‘‘بتایا گیا ہے۔ جب کہ اصل نسخے کی جلد اول کے ترقیمے میں کاتب نے اس کانام ’’الجامع الجوامع ‘‘ لکھا ہے اور ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ( سہ ماہی انشاء حیدر آباد سندھ ستمبر ۱۹۹۸ء )
ملفوظات شریف میں درج ہے کہ جب آپ جامع الجوامع کتاب پر کام کرتے تھے تو ساری ساری را ت تحقیق فرماتے اور (روشنی کیلئے ) دس موم بتیاں جلائی جاتی تھیں ۔ (ملفوظات حصہ ۶)
۶۔ شرح اسماء الحسنی (فارسی ): اس میں آپ نے باری تعالیٰ کے اسماء الحسنی کے ساتھ تعلق تخلق و تعبد بتایا ہے۔ سلوک کے موضوع پر ایک نادر الوجود کتاب ہے۔ حضرت قاضی فتح محمد نظامانی ؒ نے اس رسالہ کا سندھی ترجمہ ’’تفسیر مفتاح رشد اللہ ‘‘ میں شامل اشاعت فرمایا تھا اس کے بعد اس پر کام نہیں ہوا حالانکہ قیام پاکستان کو ۵۶ سال گذر چکے ہیں ۔ لہذا اس کا جدید ترجمہ اردو ، سندھی میں آنا چاہئے ۔
۷۔ محبوبیۃ المحمودیۃ (فارسی ) : اس میں طریقت کے بیس ( ۲۰) مقامات ودر جات بیان کئے گئے ہیں ۔ حضرت قبلہ عالم امام العارفین کے افادات ہیں اور حضرت خلیفہ محمود نظامانی بلوچ قدس سرہ نے تحریر کئے ہیں اور قاضی فتح الرسول نظامانی نے سندھی ترجمہ کیا اور محمود یہ اکیڈمی درگاہ محمود یہ کڑ یو گھنور نے ۱۹۹۴ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔
۸۔ کلام مرشد : آپکی شاعر میں نعت اور عارفانہ کلام ہے جو کہ تمام سندھی زبان میں ہے۔ مولانا عبداللطیف قادری ( پرانہ سکھر ) نے ترتیب دے کر چھپوایا ہے۔ سندھی شاعری میں تخلص ’’سید ‘‘، ’’مرشد ‘‘ ، ’’راشد ‘‘ اور فارسی میں ’’حسینی ‘‘تخلص استعمال فرمایا۔
جامعہ راشدیہ:
حضرت امام العارفین ، آفتاب ولایت ، محی الدین ، محی السنۃ ، قاطع البدعۃ ، حضرت سید محمد راشد پیر سائیں روزہ دھنی نور اللہ مرقدہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد پرانی درگاہ شریف پر کھبڑکے درخت کے نیچے درس و تدریس کا مشغلہ جاری فرمایا تھا ۔ اس طرح ’’جامعہ راشدیہ ‘‘ کی بنیاد پڑی اور نئی درگاہ ( یعنی موجودہ درگاہ شریف ) حضرت پیر سید علی گوہر شاہ اصغر راشدی نے تعمیر کروائی، درگاہ پر جامع مسجد وسیع و عریض صحن ، خوبصورت باغ ، عالیشان مہمان خانہ ، اور عظیم مدرسہ آپ ہی کی یاد گار ہیں ۔ اور آگے جاکر اسی مدرسہ کا نام ’’جامعہ راشدیہ ‘‘ معروف ہوا۔ اس سے ہمارے موقوف کی تائید ہوتی ہے کہ آپ کی مسجد شریف کی افتتاحی تقریب کے وقت آپ کے استاد محترم مخدوم یار محمد صدیقی نے بزبان فارسی تاریخی قطعہ کہا تھا اس میں بھی ایک مصرعہ میں مدرسہ کی جانب ارشاد ہے:
’’مسجد و مدرسہ ذکر اشغال ‘‘
معلوم ہوا کہ مدرسہ راشدیہ کے بانی و مبانی حضرت پیر سائیں روزے والے خود ہیں یہ انہیںکا فیضان ہے جو کہ مدرسہ کی صورت میں آج بھی جاری و ساری ہے اور تشنگاہ علم کو خوب سیراب کررہا ہے۔
جامعہ راشدیہ کی مسند تدریس پر وقت کے نامور اور جید علماء اہل سنت جلوہ افروز ہوئے اور اپنے اپنے دور میں مسلک حقہ اہل سنت کی خوب تبلیغ و اشاعت فرمائی اور آج اس درسگاہ کی تقریبا ستر (۷۰) شاخیں سندھ کے دیہات میں اپنے وسائل کے مطابق کام کر رہی ہیں ۔
میروں کے دور حکمرانی میں قاطع شیعیت ، مفتی اعظم خیر پور میرس ، فخر اہل سنت حضرت علامہ محمد سعد اللہ انصاری نے جامعہ راشدیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ قیام پاکستان کے بعد قاطع نجدیت، مفتی اعظم پاکستان ، سرمایہ اہلسنت ، حضرت علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی نے جامعہ میں درس و تدریس کے ساتھ فتاویٰ نویسی کاکام کیا اور شیخ الحدیث ، پیکر تقدس ، استاد العلماء ، حضرت علامہ مفتی محمد تقدس علی خان قادری بریلوی نے جامعہ میں آخری عمر تک درس حدیث دیا۔ اس طرح افتخار اہل سنت ، سراپا فقیر ، استاد العلماء حضرت مولانا محمد صالح قادری مہر نے آخری دم تک درگاہ شریف کی مسجد شریف کی امامت ، خطابت ،جامعہ میں تدریس اور انتظامی امور باحسن طریقے سے ادا فرماتے رہے۔ جامعہ راشدیہ نے اپنے دور میں درس تدریس کے ذریعہ علماء اہل سنت کی ایک متحرک ٹیم تیار کی۔ حضرت امام العارفین کا فیضان جامعہ راشدیہ کی صورت میںبھی انشاء اللہ تعالیٰ تا قیام جاری رہے گا۔
وصال مبارک :
امام العارفین ، غوث العالمین ، تیرہویں صدی کے مجدد برحق حضرت پیر سائیں روزہ دھنی قدس سرہ اقدس نے یکم شعبان المعظم ۱۲۳۴ھ بروز جمعۃ المبارک ۶۳ سال کی عمر میں واصل باللہ ہوئے ۔ (ملفوظات شریف ج ۶ص ۹۳)
آپ کا جسد پاک نورانی پرانی درگاہ شریف (گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑو ) میں دفن کیا گیا تھا لیکن بعد میں سیلاب کے خطرہ کے پیش نظر آپ کے پوتے حضرت پیر سید علی گوہر شاہ اصغر راشدیؒ نے ۶، جمادی الاول ۱۲۵۰ھ بمطابق اکتوبر ۱۸۳۴ء کو یعنی ۱۶ سال کے بعد آپ کا تابوت منتقل کر کے نئی ( موجودہ ) درگاہ شریف راشدیہ پیران پگارہ ( پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس سندھ ) میں دفن کیا گیا ۔ (مخزن فیضان )
مزار مقدس پر ۱۹۶۹ء میں دوسری بار پیر پگارہ ہفتم کی زیر نگرانی ایک نئی عمارت تعمیر ہوئی ، عالیشان دلکش ، قرآنی آیات سے مزین گنبد تعمیر ہوا۔ گنبد شریف اور مناروں پر خالص سونے کی چادر بچھائی گئی ہے۔ تا حال مزید تزئین و آرائش کا کام جاری ہے۔ ( قاسم ولایت ص ۱۸۰)
حضرت خلیفہ محمود نظامانی قدس سرہ نے قطعہ تاریخ کہا او ر ’’نور ھادی مھدی آخر زمن ‘‘ سے سن وصال نکالا ۔ ( ملفوظات شریف جلد ۶) فرماتے ہیں :
سال وصلش پر سیدم زجان
ساعتی درفکر ماند بعد ازان
گفت در تاریخ آن شافع بمن
نور ھادی، مھدی آخر زمن
( ۱۲۳۴ھ)
مولانا حکیم سید محمد شجاع لکیاری ( لکھی والے ضلع سکھر ) نے تاریخ وصال اس طرح کہی ہے ۔ جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کو زہردیا گیا جس کے سبب شہادت ہوئی ۔
واہ محمد راشد راہ نما شیخ و شباب
شد شھید ازسم واصل گشت باحق درشتاب
سال تاریخ و مہ و روز وصال وقت گو
اول شعبان مرد طلوع آفتاب
( ۱۲۳۴ھ)
مشاہیر سندھ ص ۲۴)
آپ کے وصال مبارک کے بعد درج ذیل سجاد گان مقرر ہوئے۔ ان میں ہر ایک کو ’’پیر صاحب پگارہ ‘‘ کہا جاتاہے ۔
۱۔ حضر ت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی پیر صاحب تجر دھنی ، پگارہ اول
۲۔ حضرت پیر سید علی گوہر شاہ اصغر راشدی پیر صاحب بنگلہ دھنی ، پگارہ دوئم
۳۔ حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ مسکین راشدی پیر صاحب تخت دھنی پگارہ سوئم بانی حر تحریک
۴۔ حضرت پیر سید علی گوہر شاہ ثانی راشدی پیر صاحب محفہ دھنی ، پگارہ چہارم
۵۔ حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی پیر صاحب کوٹ دھنی ، پگارہ پنجم
۶۔ حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ شہید راشدی پیر صاحب پگ دھنی ، پگارہ ششم ، امام انقلاب
یہ وہ ہی امام انقلاب پیر سید صبغت اللہ شاہ شہید ہیں ، جنہوں نے انگریز سپر نٹنڈنٹ جیل سے کہا تھا:
’’شہادت تو ہمارے سر کاتاج ہے اس میں پریشان ہونے کی کونسی بات ہے‘‘۔
( اردو ڈائجسٹ لاہور ، فروری ۱۹۸۰ئ، ص ۱۵۵)
حضرت پیر حزب اللہ شاہ راشدی ( صاحب دیوان مسکین فارسی ) کی مساعی جمیلہ سے جیسلمیر کی ہندو برادری ’’سلاوٹ ‘‘ کے تمام افراد کلمہ شریف پڑھ کر مسلمان ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں آپ کے دست بیعت ہوئے۔ اس برادری کے بہت سے کنبے آج کل کراچی اور حیدرآباد میںرہائش پذیر ہیں ۔ (مخزن فیضان ) حیدر آباد سندھ میں اس خاندان کی جامع مسجد ’’سلاوٹ ‘‘ بھی ہے جس پر وہابیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
۷۔ موجودہ پیر صاحب پگارہ ہفتم سید شاہ مردان شاہ عرف سکندر علی شاہ راشدی (صدر فکشنل مسلم لیگ پاکستان و معروف سیاستدان ) اسی دربار شریف کے سجادہ نشین ہفتم اور جامعہ راشدیہ کے چانسلر ہیں اور جامعہ راشدیہ کے فاضل علماء آپ ہی کی نسبت ’’سکندری ‘‘کہلواتے ہیں ۔
اس آستانہ ، مرکزرشد و ہدایت ، منبع فیوض و برکات پر موجود ہ پیر صاحب کی سر پرستی میں ’’شرعی عدالت ‘‘بھی قائم ہے ، جہاں قاضی حضرات شرعی فیصلہ صادر فرماتے ہیں ۔ پیر صاحب کی طرف سے ’’حرجماعت ‘‘ کو خصوصا تاکید ہے کہ وہ اپنے ذاتی خاندانی تنازعات ، جھگڑوں میں کورٹ کچہری و تھانہ وغیرہ کے چکروں میں نہیں پڑیں ، بلکہ وہ اپنے پیر خانہ پر علماء کی جانب رجوع فرما کر اپنا مسئلہ حل کرائیں اس طرح ہزاروں روپے ضائع ہونے سے بچتے ہیں اور وقت بھی ۔
عرس مبارک :
دربار مقدس ’’ راشدیہ ‘‘ ( پیر جوگوٹھ ضلع خیر پور میرس ) پر ہر سال ۲۷، رجب المرجب کی شب کو جشن معراج النبی ﷺ اور عرس مبارک امام العارفین نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے جو کہ بد عات خرافات وغیر شرعی افعال سے بالکل پاک خالص روحانی ماحول ہوتا ہے ۔ جس میں لاکھوں فرزندان اسلام شریک ہوتے ہیں ۔
۲۷، رجب المرجب کو بعد نماز فجر ’’جامعہ راشدیہ ‘‘ کے فارغ التحصیل طلباء کی دستار فضیلت ہوتی ہے۔ عطا کردہ سند الفراغ پر اساتذہ و اکابر علماء کے علاوہ چانسلر پیر صاحب پگارہ کی بھی دستخط ہوتی ہے۔
اس عظیم الشان روحانی و جدانی اور عرفانی محفل میں ملک بھر کے جید علماء نامور خطباء اور مشائخ اہل سنت شرکت فرماتے ہیں ۔ رات بھر حمد و نعت ، ذکر و اذکار ، وعظ و نصیحت اورصلوۃ و سلام کی گونج ہوتی ہے، جس میں روح کی خوب ترقی اور نفس کی اصلاح کا زبردست سامان ہوتا ہے، جو سالکان طریقت ایک بار شرکت کرتے ہیں ، وہ سال بھر اس محفل پاک میں شرکت کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ (تفصیل کے لئے ملا حظہ کیجئے راقم کا مقالہ ’’آفتاب ولایت‘‘)
(انوارِ علماءِ اہلسنت )