آخوند محمد صالح بھٹی
آخوند محمد صالح بھٹی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا آخوند محمد صالح بن چھٹو بھٹی ضلع دادو کے قدیم شہر سیتا ولیج عرف رحمانی نگر ( اسٹیشن ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
چھٹوبھٹی نے اپنے بیٹے کو شروع سے دینی تعلیم دلوائی ۔ پہلے اپنے گھر میں ، اس کے بعد مکتب میں، اس کے بعد سندھ کی عظیم دینی درسگاہ ہمایون شریف تعلیم کیلئے بھجوایا۔ امام العلماء سید الاتقیاء حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی ؒ کی خدمت سراپا فیض میں رہ کر محمد صالح نے علوم دین کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم پہلے والد اس کے بعد والدہ نے انتقال کیا۔ محمد صالح کو اس لئے اطلاع نہیں دین گئی تاکہ تعلیم کا سلسلہ نہ ٹوٹے ۔ لیکن اسے کسی ذریعے سے معلوم ہو گیا وہ اس عظیم و شدید صدمہ سے دو چار ہوا، یتیمی کے صدمہ نے اندر پاش پاش کر دیا۔ اپنے گوٹھ واپس آئے۔
کچھ دنوں کے بعد احساس ہوا کہ غم منانے سے جانے والے واپس نہیں آتے ، یہ دنیا فانی ہے، یہاں ہمیشہ کسی کو رہنا نہیں ہر ایک کو یہاں سے رخصت ہونا ہے ۔ اس لئے ادہوری تعلیم پر افسوس ہوا اور مزید تعلیم کے حصول کا ارادہ مصمم کر لیا۔ ایک روز تعلیم حاصل کرنے کے لئے ’’ دربیلو شریف ‘‘ ( تحصیل کنڈیارو) میں مخادیم کی درسگاہ میں داخلہ لیا۔ اور اسی درسگاہ سے بقیہ کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کن اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
درس و تدریس :
آخوند محمد صالح فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے گوٹھ سیتا واپس آئے اور مدرسہ قائم کیا اور درس و تدریس کے عظیم مشغلہ میں مصروف ہو گئے۔ وہ اپنے دور کے ماہر تعلیم اور باکمال استاد تھے۔ تدریس کے دوران کئی طلباء اس چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔
تلامذہ :
آخوند محمد صالح کے شاگردوں کے ضمن میں درج ذیل حضرات آتے ہیں :
٭ مولانا الھ رکھیہ مار فانی تحصیل قمبر ( بڑی عمر میں تعلیم حاصل کی)
٭ مولوی خان محمد سر کی
٭ مولوی علی نواز سر کی
٭ آخوند عبدالرحمن
٭ آخوند محمد داوٗد بھٹی
٭ آخوند محمد موسیٰ بھٹی وغیرہ
تصنیف و تالیف :
آخوند محمد صالح کا فارسی تحریر کی طرح عربی خط بھی بہت نفیس تھا۔ اعلیٰ پائے کے خوشنویس تھے۔ انہوں نے تصنیفی و تالیفی کام کیا لیکن اس وقت فقط قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ محفوظ ہے جسے آخوند نے اپنے قلم سے خوشخطی میں لکھا جو کہ آپ کے قلم کا عظیم شاہکار ہے۔ آپ کے خاندان کے ایک فردو مشہور شاعر بشیر سیتائی نے وہ قلمی نسخہ انسٹیٹیوٹ آف سند ھالاجی جامشورو میں جمع کرادیا جہاں وہ نسخہ داخلہ نمبر ۹۹۰۳۹ کے تحت سندھ کے عظیم قلمی ذخیرہ کتب میں محفوظ ہے ۔
آخوند محمد صالح بھٹی انتہائی سادہ طبیعت رکھتے تھے، فیاض ، مہمان نواز اور پرہیز گار تھے۔ وہ خوامخواہ کسی سے اختلافی مسائل میں الجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے، لیکن اگر کوئی ٹکرا جاتا تو انہیں مسائل سلجھانے میں پورا پورا عبور حاصل تھا۔ ان کے منطقی انداز اور علمی استدلال لوگوں پر اس طرح اثر انداز ہوتا کہ نہ صرف وہ معترض مسائل اختلافیہ میں قائل ہوئے بلکہ پوری زندگی آپ کے گن گاتے رہتے تھے۔
وصال:
آخوند محمد صالح نے ۷۳ سا ل کی عمر میں ۱۹۳۸ء ؍ ۱۳۵۷ھ کو انتقال کیا۔ اس حساب سے آپ کی ولادت کا سن ۱۸۶۵ء ظاہر ہوتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی آخوند محمد داوٗد بھٹی نے آپ کے برپا کئے ہوئے مدرسہ کو قائم رکھا۔ ( ماہنامہ السند اسلام آباد ، جنوری ۲۰۰۲ئ)
واعظ اسلام مولانا محمد سلیمان نوناری
مولانا محمد سلیمان بن الہندو خان نوناری گوٹھ تھرڑی محبت ( تحصیل میہڑ ضلع دادو سندھ ) میں ۱۲۸۹ھ؍ ۱۸۷۰ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
مولانا محمد سلیمان نے اپنے گوٹھ میں ایک بزرگ عالم دین مولانا حافظ محمد صادق گلال ( شاگرد علامہ عطاء اللہ فیروز شاہی ) اور مولانا عبدالعزیز گلال گوٹھ ملک متصل میہڑ کے پاس تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد رتو دیرو ( ضلع لاڑکانہ ) میں مولانا عبداللہ نوناری کے پاس نصابی کورس مکمل کرکے دستار فضیلت سے سر فراز ہوئے۔
درس و تدریس :
کئی برس علاقہ کے مختلف گوٹھوں ( بستیوں ) میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد مستقل وعظ کے لئے اپنے کو وقف کر لیا۔
وعظ و نصیحت :
مولانا محمد سلیمان نے بتایا کہ انہیں چار پانچ سوا حادیث مبارکہ حفظ ہیں ۔ فن خطابت فن میں یکتا تھے۔ وعظ ہمیشہ بلند آواز اور خوش بیانی سے کرتے تھے۔ عوام الناس کثرت سے ان کا وعظ سنتے اور ہدایت حاصل کرتے تھے۔ وہ خاص و عام میں مقبول و محبوب تھے۔ انہوں نے اپنے کودین کیلئے کر لیا تھا، وعظ و نصیحت کے علاوہ خاندانی جھگڑوں نفرتوں اور قبائلی نفاق کو ختم کرانے میں بھی دینی جذبہ کے تحت بھر پور کردار ادا کرتے ۔ اسی طرح وہ دین کے ساتھ سماجی کام بھی احسن طریقے سے سر انجام دیتے تھے۔
وعظ کے علاوہ وہ بلند پایہ کے نعت خواں بھی تھے۔
جی ایم سید لکھتے ہیں :۔ عارف کامل حضرت مخدوم بلال ؒ کی درگاہ شریف پر سالانہ عرس مبارک میں مولانا سلیمان کا خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا۔ تقریر کی خاصیت یہ تھی کہ دل گدازبن کر آنکھوں سے آنسو کی جھری لگ جاتی تھی۔ ( جنب گذار یم جن سین جلد اول )
بیعت :
مولانا محمد سلیمان ، حضرت خواجہ محمد عمر جان چشمہ شریف ( کوئٹہ ) سے سلسلہ نقشبندیہ میں دست بیعت تھے۔ ( مشاہیر دادو)
یاد گار تصدیق:
تاج العارفین ، فقیہ اعظم حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ الاقدس کے رسالہ رضاء ( قلمی ) پر مولانا نے یوں تصدیق رقم کی ہے :
’’ماحررہ العلامۃ المحقق فھو احق بالقبول ولا ینکر ھا الا المشاجرۃ المجھول ، فقیر محمد سلیمان عفی عنہ الرحمن ‘‘
شادی و اولاد :
مولانا محمد سلیمان نے دو شادیاں کی جن کے بطن سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ میاں عبدالرحیم
۲۔ میاں عبدالرحمن تولد ہوئے۔ ( جنب گزاریم )
وصال :
مولانا محمد سلیمان کی وصال سے قبل صحت ٹھیک ٹھاک تھی اور آپ کو اپنی وفات کا علم تھا اور قبرستان میں اپنی قبر کی نشاندہی بھی کر چکے تھے۔ ( مہران سوانح نمبر)
مولانا محمد سلیمان نے ۱۵، شعبان العظم ( شب براٗت ۹ ۱۳۶۷ھ مطابق ۲۳ جون ۱۹۴۸ء کو ۸ ۷ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ ( جنب گذریم )
مولوی دین محمد ادیب نے قطعہ تاریخ وفات کہا:
مائیم جہاں جہان پریشاں
از رحلت حضرت سلیمان
ای ذات توبود فیض گستر
فیاض ہی عیال یزدان
در فکر ’’ادیب‘‘ مادہ آمد
از بھر سنت بخلد رفت آں
۱۳۶۷ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)