میاں محمد زمان دُولارحیمی رحمتہ اللہ علیہ
میاں محمد زمان دُولارحیمی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
امامِ زَمَن شاہ محمد زمان |
کہ شد رامِ ایشاں زمین و زماں |
برحمانیاں ہمچو بدرِ منیر |
بتختِ ولائیت شہِ بے نظیر |
آپ سالک مسالِک طریقت۔ناہج مناہج حقیقت ۔خلاصہ خاندانِ قادریہ نوشاہیہ سلالہ دودمان رحمانیہ صاحب وجدو سماع تھے۔آپ میاں ابراہیم المعروف عبدالرحیم بن جانی کے دوسرے بیٹے تھے۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت حسین خاتون بنت حضرت پاک صاحب تھا۔
نام و لقب
آپ کا نام محمدزمان۔لقب دُولا اوررحمان ثانی تھا۔۱۱۱۸ھ میں تول ہوئے۔
تربیّت وتعلیم
آپ سات سال کے تھے کہ والد بزرگوار کا انتقال ہوگیا۔بعدازاں اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی ۔تعلیم ظاہری لاہور نیویں مسجد میں پائی۔ فنِ کتابت خطِ نسخ بھی سیکھا۔
بیعت طریقت
آپ کوبڑے ہونے پرراہِ حق کاشوق ہواتوبڑے بھائی حکیم صاحب نے فرمایا کہ تمہارافیض حضرت سید شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان خلف الصدق سید حافظ محمد برخوردار بحرالعشق نوشاہی ساہنپالوی رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پربیعت کروایا۔
مشائخِ صحبت
آپ چند سال اپنے مرشد ِعالی قدر کی خدمت میں رہے اور خرقہ خلاوت و ارشاد حاصل کیا۔اپنے تمام اقران سے عالی مرتبہ ہوئے۔اپنے ناناصاحب کے خلیفوں میں سے شیخ جیون شاہ چاہلانوالہ رحمتہ اللہ علیہ اور قاضی عبدالرحمٰن لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت سے بھی فیض پایا۔بعض اوراد اپنے والدنے بچپن میں آپ کو بتائے تھے۔وہ بھی آپ کا معمول تھے۔
شجرہ بیعت کی تحقیق
آپ کے فقرائے سلسلہ میں شجرہ بیعت کے متعلق کافی اختلاف پایاجاتاہے۔اکثر درویش آپ کی بیعت حضرت سید شاہ عصمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے تسلیم کرتے ہیں اورشجروں میں اُن کانام پڑھتے ہیں۔بعض درویش آپ کی بیعت اپنے والد میاں عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ سے مانتے ہیں اور شجرہ میں ان کانام پڑھتے ہیں۔اکثر مجلسوں میں دیکھاگیاہے۔کہ اس مسئلہ پر بحث ہوتی رہتی ہے۔اس کے متعلق بعض دلائل جومیری نظر سے گذرے ہیں ۔وہ درج کئے جاتےہیں۔
۱۔حضرت سید حافظ محمد حیات ربانی بن سید حافظ جمال اللہ فقیہ ِ اعظم برخورداری رحمتہ اللہ علیہ نے کتا ب تذکرہ نوشاہیہ میں میاں محمد زمان کو حضرت سید شاہ عصمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفوں میں لکھاہے۔
۲۔حضرت سیّد عمربخش بن سید محمد بخش برخورداری رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب مناقبات نوشاہیہ میں میاں محمد زمان کو حضرت سید شاہ عصمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے بائیس صوبوں میں لکھاہے۔
۳۔مولوی حکیم کرم الٰہی بن مولوی غلام نبی فاروقی بیگووالہ نے کتاب گلزار فقرامیں میاں محمد زمان کو حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ کے مریدوں کی فہرست میں درج کیاہے۔
۴۔مولوی نوراحمد چشتی نے کتاب تحقیقات چشتی میں مقبرہ شاہ کنٹھ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں باباہیماں شاہ فقیر کا شجرہ لکھاہے۔اس میں میاں محمد زمان کوحضرت سیّد شاہ عصمت اللہ کا مرید لکھاہے۔
۵۔رائے کنہیا لال لاہوری نے تاریخ لاہور میں تکیہ شاہ کنٹھ لاہوری کے حالات میں باباالٰہی شاہ
کاشجرہ لکھاہے۔اس میں میاں محمد زمان کو حضرت سید شاہ عصمت اللہ کامُرید لکھاہے۔
۶۔۱۳۴۱ھ کے عرس بھڑی شریف کے روز تمام صاحبزادگان اولاد حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ واولادِ حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور تمام فقرائے سلسلہ نو شاہیہ کااجتماع تھا۔کہ یہ مسئلہ درپیش ہوا۔آخر کافی تلاش اور تحقیق کے بعد ثابت ہواکہ واقعی میاں محمد زمان کی بیعت حضرت سید شاہ عصمت اللہ سے تھی۔چنانچہ وہ فیصلہ شیخ حیات حسین المعروف سائیں حیاتیانوالہ ابن شیخ چنن شاہ سلیمانی رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے فارسی عبارت میں تحریر کیااور سب حضرات نوشاہیہ و رحمانیہ و سلیمانیہ اور فقرائے سلسلہ کے اُس پر دستخط ہوئے اور سب نے تسلیم کرلیا۔وہ فیصلہ بلفظہٖ درج ذیل ہے۔
"دریں ولاکہ امروز۱۰ماہ جیٹھ ۱۹۷۹ بکرمی و۲۳ مئی ۱۹۲۳ء و ۷ ماہ شوال ۱۳۴۱ہجری مقدس ست۔سبحاضری محمد شاہ گدی نشین رنمل وصاحبزادہ محمد عالم و صاحبزادہ فضل حسین و صاحبزادہ بوٹے شاہ ساہنپالیہ وصاحبزادہ محمد حسین خلف الرشید مرحوم حضرت بنے شاہ ودیگرصاحبزادگان صاحبزادہ امام الدین وصاحبزادہ محمد اکبردرمجمع عام درویشاں ایں غلط فہمی کہ درویشاں ایں غلط فہمی کہ درویشاں رادَر شجرہ مبارکہ حضرت محمد زمان نبیرہ حضرت پاک رحمان صاحب فیض یافتہ درگاہِ حضرت عصمت اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نبیر ہ حضرت نوشاہِ ہادی گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ افتادہ بودویک گروہِ درویشاں راسہوبوکہ حضرت محمد زماں رحمتہ اللہ علیہ راباحضرت عبدالرحیم پذرخود بیعت بود۔امروزبعد شنیدن شجرہ از درویشاں ثابت شد کہ واقعی حضرت محمد زمان فیض یافتہ از درگاہِ حضرت عصمت اللہ بودہ واولادِ حضرت عصمت اللہ پیر طریقت وہادی حقیقت ست۔لہذا ہمسگاں درویشاں را تابعداری بہ ایں اولاد حضرت عصمت اللہ رحمتہ ۱للہ علیہ لازم و ضروری ست۔لہذا برائے آگاہی جملہ درویشاں صحت شجرہ شدہ اعلان گردیدہ وہمسگاں منظور کردہ ودستخط جملہ مجموعہ صاحبزادگان۱؎"۔
۱۔العبد فقیر حیاتیانوالہ بقلم خود۔
۲۔العبدبقلم خود محمد شاہ ازرنمل۔
۳۔بقلم خودکرم الٰہی از ساہنپال۔
۴۔بقلم خود بوٹا شاہ از ساہن پال۔
۵۔بقلم خود محمد حسین ازموضع رنمل ۔
۶۔امام الدین۱؎ ازبھڑی شریف اولاد حضرت محمدزمان۔
۷۔اکبرعلی ازبھڑی شریف۳؎ اولادحضرت محمد زمان۔
۸۔بقلم خوداللہ دتہ ازبھڑی شریف اولاد حضرت محمد زمان۔
۹۔بقلم خود میاں کرم الٰہی ازبھڑی شریف اولاد حضرت حکیم صاحب۔
۱۰۔بقلم خود جلا ل دین سکنہ کوٹ کیسو۔
۱۱۔سیّد بہادرشاہ ولد سیّد سردارشاہ بقلم خود گدی نشین داتافاضل شاہ۔
۱۲۔چنن دین از لاہور"۔
۱۔یہ اصل فیصلہ صاحبزادہ الطاف حسین بن سید فضل حسین ڈھلوالہ کے گھرمیں بمقام نوشہ پورموجود ہے۱۲۔۲؎حاجی امام الدین بن میاں کرم الدین سے مراد ہے۱۲۔۳؎میاں اکبر علی بن میاں نبی بخش ۱۲۔۴؎میاں اللہ دتہ بن میاں محمد دین ۱۲ سیّد شرافت
پیشگوئی
منقول ہے کہ آپ کے متعلق حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی ولادت سے پہلے ہی یہ الفاظ فرمائےتھے۔
"محمد زمان جد بہے مصلّے دن دن نورسوایا"۔
چنانچہ آپ اُن سے تین سال بعد پیداہوئے اور آپ کے زمانہ ارشاد میں روزبروز خاندانِ رحمانیہ کا
عروج ہوتاگیا۔
چلہ نشینی
ابتدائے زمانہ میں آپ نے اپنے ناناحضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ مبارک میں متواترتین چلے کئے۔آپ کوحکم ہوا۔تمہاری اولاد سے قیامت تک کوئی نہ کوئی درویش ہوتاچلاجائے گا۔
نیزآپ کے والد بزرگوار نے آپ کودعادی تھی کہ فقیر ی تیری اور تیری اولاد کی ہے۔
حلیہ ولباس
آپ کی دائیں آنکھ میں بقدر خال سفید تنگ تھی۔آپ سرپرجوگیہ رنگ پٹکہ رکھتے ۔روزانہ درگاہِ رحمانیہ میں اپنےہاتھوں سے جھاڑو دیاکرتے تھے۔
کرامات
مستی وجذب
آپ جس پرنگاہ ِتوجہ ڈالتے۔وہ مست وبیخود ہوجاتا۔تمام برادرانِ رحمانیہ نے آپ کی ولایت کو تسلیم کیااور اکثر اُن میں سے آپ کے حلقہ بیعت میں داخل ہوئے۔
خزینہ غیب
آپ کے زمانہ میں ۱۱۹۷ھ مطابق ۱۸۴۰ بکرمی میں پنجاب میں بڑاقحط پڑا۔ مخلوقِ خدا بھوک سے تنگ آگئی۔ان دنوں آپ کا معمول تھاکہ روزانہ سرگی کے وقت درگاہِ رحمانیہ میں جاتے۔مغرب کی طرف مصلّے پربیٹھتے۔ذکر فکرمراقبہ میں مشغول رہتے۔دس بجے دن تک جو سائل آتے۔ان کو مصلّے کے نیچے سے پیسے نکال کردیاکرتے۔آپ کی یہ کرامت جب عام مشہور ہو گئی۔تو موض چک بہلول کے ایک زمیندار قوم دھوتھڑ نے بطور امتحان آکر مصلّے کے نیچے سے دیکھا تو کوئی چیز نہ پائی۔اُسی وقت ایک سوالی آگیا۔آپ نے اُسی مصلّے کے نیچے سے پیسے نکال دیئے یہ کرامت دیکھ کر وہ معتقد ہوگیا۔
دعائے برکت
نورمحمد ارائیں ساکن بدوکے سیکھوآں نے ایک مرتبہ خدت میں عرض کیا۔ کہ میری زمین بالکل تھوڑی ہے۔اگررقبہ زیادہ ہوتاتواس کی پیداوار درگاہ شریف کی نذرکیاکرتا۔ آپ نے پوچھاکتنی زمین ہے؟اس نے کہابارہ کنال آپ نے فرمایا۔کوئی غم نہ کرو۔بارہ مانی غلّہ فصل بفصل اس میں سے ہواکرےگا۔چنانچہ اُس کی زندگی تک اسی طرح ہوتارہا۔
دعائے اولاد
نورمحمد مذکور کے گھراولاد نہیں تھی۔ایک روز اُس نے حضور میں عرض گذاری آپ نے دعادی کہ تیرے گھر چار لڑکے پیداہوں گے۔ایک جوانی میں بے اولاد مرے گا اور تین صاحب اولاد ہوں گے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔اب تک تینوں کی اولادبدو کے سیکھوں میں آباد ہے۔
چننیاں کی ویرانی اور آبادی
منقول ہے کہ سلیمو طوائف سے آپ سماع سن لیاکرتے تھے۔
ایک بار بمعہ درویشاں آپ چڑی نام گھوڑی پر سوارہوکر موضع چننیاں متصل ایمن آباد میں پہنچے۔ وہاں شیخ صالح محمد خلیفہ ٔ حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات پرکراہت ظاہرکی اور سلیمو کے بارہ میں آپ کو ملامت کی۔آپ کوطیش آگیااوراُن پرایسی نگاہ کی کہ اُن کا فیض سلب کرلیااور فرمایاتمہاراگاؤں چننیاں ویران ہوجائےگا۔چنانچہ اُن کے تمام مرید اُن کو چھوڑ گئے۔کوئی پرسان حال نہ رہا۔صرف ایک مریدعلاول نام بَھنڈ ساکن وڈالہ سندھواں باقی رہ گیا۔وہ اپنے پیرکی حمایت کے واسطے بھڑی شریف آگیااورروزانہ آپ کی خدمت میں چَوکی کرنااختیارکیا۔بارہ سال متواتر اسی طرح کرتارہا۔آخر ایک روزآپ کو کافی ذوق حاصل ہوا اور موج میں آکر فرمایا۔علاول! مانگ کیا مانگتاہے۔عرض کیایاقبلہ ۔میرے پیر کی چننیاں آبادکرو۔آپ نے فرمایاتم اپنی اولاد کے واسطے سات پشتوں تک ولایت منظور کرالو۔لیکن یہ سوال نہ کرو۔اس نے کہا یا حضرت!ہم غلام ہی رہیں تو بہترہےاورہم کو غلامی پسند ہے۔آپ میرے پیرکی چننیاں ضرورآبادکریں۔الغرض آپ خوش ہوئے اور فرمایاکہ جا آج کے بعد چننیاں نیم بھڑی ہوں گی۔چنانچہ شیخ صالح محمد دوبارہ فیض سے معمور ہوئے اور چننیاں مرکز فیض ہوئیں۔
قوم چٹھہ کے متعلق زوال حکومت کی دعا
منقول ہے کہ قوم چٹھہ جو منچر میں صاحبِ حکومت وریاست تھےاورتمام علاقہ میں ان کی سلطنت تھی۔ایک بارانہوں نے بھڑی شریف پر ڈاکہ مارا اور لوگوں کے سب مال مویشی بھگاکرلے گئے۔لوگوں نے آپ کی خدمت میں التجاکی۔آپ نے فرمایا "دُھوئیں کے بادل چڑھے اور اُڑگئے"۔چنانچہ چند ہی روز گذرے کہ سکّھوں نے جنگ کر کے چٹھوں سے حکومت لے لی اور چوہدری غلام محمد چٹھہ رئیس منچرماراگیا۔
فائدہ۔
کتاب روضتہ الزکیہ میں ہے کہ چوہدری غلام محمد چٹھہ کی شہادت ۱۲۰۳ھ میں ہوئی۔
عملیات
آپ کے ہاتھ کالکھاہوا نادِ علی بخط نسخ اس طرح پرہے۔
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم نَادِ عَلِیّاً مَظھَرِ العَجَائِبِ تَجِدہُ عَوناً لَّکَ فِی النَّوَائِبِ اِلَی اللّٰہِ حَاجَتِی وَعَلَیہِ مُؤَوَّلِی کُلُّ ھَمٍّ وَغَمٍّ سَیَنجَلِی بِعَظمَتِکَ یَااَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ بِنَبُوَّتِکَ یَامُحَمَّدُ یَامُحَمَّدُ بِوَلَایَتِکَ یَاعَلِیُّ یَاعَلِیُّ یَاعَلِیُّ
لَافَتٰی اِلَّاعَلِی لَاسَیفَ اِلَّا ذُوالفِقَار |
شاہ مَرداں شیریزداں قوت پروردگار |
ھربلائے رد باشدایں بخواں ھفتاد باد
قُلنَایَانَارُ کُونِی بَردًاوَّ سَلَاماً عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَاَرَادُوا بِہٖ کَیداً فَجَعَلنٰہُم الاَخسَرِینَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ یَااَللّٰہُ یَارَحمٰنُ۱؎۔
مہاجال
ایک پنجابی منترآپ کی طرف منسوب ہے۔جس کو مہاجال کہتے ہیں ۔وہ جن و آسیب اور دیگربہت امراض پرکام آتاہےمیرے پاس موجودہے۔چونکہ وہ سفلی عملیات سے ہے اس لیے میں نے درج نہیں کیا۔
۱؎آپ کے ہاتھ کاقلمی نادِ علی صاحبزادہ غلام حسین بن میاں اللہ دتہ زمانی کے گھرمیں بمقام بھڑ ی شریف موجودہے ۱۲ سیدشرافت
اولاد
آپ کی اولاد کوبنام زمانی موسوم کیاجاتاہے۔آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔میاں کرم شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔میاں نورشاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۳۔میاں محبوب شاہ لاولد رحمتہ اللہ علیہ ۔
؎ میاں کرم شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے ایک فرزند میاں قادر بخش رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
؎ میاں قادر بخش رحمتہ اللہ علیہ کو وظیفہ پڑھنے کا شوق تھا۔ا ن کے پڑھنے کے واسطے قرآن
مجید کی کچھ سورتیں اوردرود مستغاث میاں عبداللہ نام کاتب نے لکھے۔اس کا دستخط یہ
ہے۔
"لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہراقمہ،فقیرحقیر پُرتقصیراضعف اللہ میاں عبداللہ برائے
پاس خاطرقادربخش نوشتہ شد"
؎ ان کا ایک مرید لالے شاہ موچی ساکن رتہ دھوتھڑاں تھا۔ان کے چار بیٹے تھے۔میاں
عمر شاہ۔میاں پیربخش۔میاں امیرشاہ۔میاں وزیرشاہ۔
؎ میاں عمر شاہ متوفی ۱۳۱۱ھ کے چار بیٹے تھے۔میاں شاہ محمد ۔میاں روشن دین لاولد۔
میاں محمد الدین ۔میاں الٰہی بخش۔
؎ میاں شاہ محمد کے ایک ہی فرزندمیاں رکن الدین تھے۔
؎ میاں رکن الدین کے ایک ہی فرزند میاں شیرمحمد تھے۔
؎ میاں شیر محمد کے دو بیٹے ہیں۔صاحبزادہ عمرالدین ۔صاحبزادہ محمد شفیع ۔دونوں اس وقت
موجود ہیں۔
؎ صاحبزادہ عمرالدین کے دوبیٹے محمدنسیم و محمد بشیرآجکل زندہ موجود ہیں۔
؎ صاحبزادہ محمد شفیع کا ایک بیٹا محمد انورنام ہے۔
؎ میاں محمد الدین بن عمرشاہ کے ایک ہی فرزند میاں غلام محمدتھے۔
؎ میاں غلام محمد کے ایک ہی فرزند صاحبزادہ محمد رمضان ہیں۔
؎ صاحبزادہ محمد رمضان کے چاربیٹے ہیں۔محمد یوسف و محمد ظہور و عبدالغفورومحمد بشیر چاروں
آجکل ۱۳۷۹ھ میں موجودہیں۔اپنے آبائی طریقہ کے خلاف مذہب وہابیہ دیوبندیہ
اختیار کرلیاہے۔
؎ میاں الٰہی بخش بن عمرشاہ کے حالات ساتویں فصل میں آئیں گے۔
؎ میاں پیر بخش بن قادر بخش سلسلہ پیری مریدی رکھتے تھے۔ان کا ایک مرید سائیں پیر
بخش نام تھا۔ان کے تین بیٹے تھے۔میاں قاسم شاہ لاولد۔میاں نبی بخش ۔ان دونوں
کے حالات ساتویں فصل میں آئیں گے۔میاں خدابخش۔
؎ میاں خدابخش کے ایک ہی فرزندمیاں محمد علی ضعیف العمرآجکل موجودہیں۔صاحب
فہم وفراست ہیں۔ان کی گفتگونہایت شیریں اور فصیح ہوتی ہے۔اپنے خاندان کی بہتری
کے لیے اکثر کوشاں رہتے ہیں۔ان کے ذریعہ سے کئی پورانی دستاویزیں مجھ کو ملی ہیں۔جو
میں نےحضرات رحمانیہ کے حالات میں جابجادرج کی ہیں ۔ابتدائے احوال میں یہ ملک
خدابخش ٹِوانہ کے ملازم رہے ہیں۔افسوس کہ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ایک بیٹی
کانام نوربیگم نام ہے۔جومفلوج ہےاورتارکہ مجردہ عابدہ ہے۔
؎ میاں علی محمدکے ایک ہی فرزندمیاں امام علی ہیں۔
؎ میاں امام علی اہلِ علم ہیں۔گفتگوئے درویشی کامذاق خاصہ ہے۔توحید وجودی کامشرب
رکھتے ہیں۔دیوان قادری کامطالعہ عموماً رکھتے ہیں۔میرے ساتھ بھی محبت اور عقیدت
رکھتے ہیں۔اس وقت ۱۳۷۹ھ میں زندہ موجود ہیں۔لاہور میں سِلائی کاکام کرتے ہیں۔
ان کے پانچ بیٹے ہوئے۔صاحبزادہ کریم بخش سلمہ اللہ۔عارف حسین اور رحیم بخش
دونوں بچپن میں فوت ہوچکے ہیں اورحبیب اللہ و حفیظ احمد ابھی خوردسال ہیں۔
؎ صاحبزادہ کریم بخش لاہورمیں سلائی کاکام کرتا ہے۔اس کا ایک لڑکا سیف اللہ نام موجود
ہے۔
؎ میاں جان محمد بن امیر شاہ کے دوبیٹے تھے۔میاں حیات محمد۔میاں غلام محمد لاولد۔
؎ میاں حیات محمد کے پانچ بیٹے ہوئے۔صاحبزادہ محمد حسین ۔صاحبزادہ محمد ابراہیم لاولد۔
صاحبزادہ محمد نذیر لاولد۔صاحبزادہ علی محمد ۔صاحبزادہ محمد اسمٰعیل۔
؎ صاحبزادہ محمد حسین لاہور میں سِلائی کاکام کرتاہے۔اس کے دوبیٹے محمد یوسف و محمد
حنیف نام ہیں ۔تینوں باپ بیٹے موجودہیں۔
؎ صاحبزادہ علی محمدکاذکر نوویں فصل میں آئےگا۔
؎ صاحبزادہ محمد اسمٰعیل بن حیات محمد۔اچھے اخلاق والاہے۔مؤلف کامُرید ہے ۔اس کا
ایک لڑکا عزیز محمد یعقوب نام ہے۔دونوں باپ بیٹے موجودہیں۔
؎ میاں حسن محمد بن امیرشاہ کے ایک ہی فرزندمیاں علی محمد تھے۔جولاولد فوت ہوئے ہیں
؎ میاں وزیرشاہ بن میاں قادر بخش کے تین بیٹے تھے۔میاں علم الدین لاولد۔
میاں نظام الدین۔میاں کرم الدین۔
؎ میاں نظام الدین کے تین بیٹے تھے۔میاں سردارعلی ۔میاں تاج الدین ۔میاں محمد
حسین تینوں لاولدفوت ہوئے۔
؎ میاں کرم الدین بن وزیرشاہ کے دوبیٹے تھے۔حاجی امام الدین ۔میاں بدرالدین
حاجی امام دین کا ذکرآٹھویں فصل میں آئے گا۔
؎ میاں بدرالدین کے ایک فرزند میاں مولابخش موجود ہیں۔
؎ میاں مولابخش کے دوبیٹے ہیں۔صاحبزادہ محمدنواز ۔صاحبزادہ محمداسمٰعیل ۔دونوں
موجودہیں۔
؎ صاحبزادہ محمد نواز کا ایک بچّہ محمد اسلم نام موجودہے۔
؎ میاں نورشاہ بن میاں محمد زمان کاذکرچوتھے فصل میں آئے گا۔
یارانِ طریقت
آپ سے بہت لوگ فیض یاب ہوئے۔خواص یاروں کے نام یہ ہیں۔
۱۔میاں غلام رسول بن حکیم عبدالمجید برادرزادہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۲۔میاں فیض بخش بن حکیم صاحب برادرزادہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۳۔میاں فتح شاہ بن حکیم صاحب برادرزادہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۴۔میاں کرم شاہ بن میاں محمد زمان فرزنداکبر بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۵۔میاں نورشاہ فرزنددوم بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۶۔میاں محبوب شاہ فرزندسوم بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۷۔میاں مرادبخش بن میاں جیواشاہ برادرزادہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۸۔میاں اکابرشاہ بن غلام رسول حکیمی بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۹۔میاں خدا یار بن فیض بخش حکیمی بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۰۔میاں قادر بخش بن کرم شا ہ نبیرہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۱۔میاں کرم بخش بن نورشاہ نبیرہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۲۔میاں امام شاہ بن نورشاہ نبیرہ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۳۔میاں فتح محمد بن مراد بخش رحیمی بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۴۔میاں مردان قوال بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ
۱۵۔خواجہ اختیارشاہ چَننیاں ضلع گوجرانوالہ
۱۶۔باباگامے شاہ ڈِھلانوالی ضلع گوجرانوالہ
۱۷۔باباعالم شاہ لوہار موسیٰ دغلاں ضلع گوجرانوالہ
۱۸۔میاں نورمحمد ارائیں بدوکے سیکھواں ضلع گوجرانوالہ
۱۹۔شاہ ظاہر ولی گھڑتل سیالکوٹ
۲۰۔حضور خُسرا۔مجاوردرگاہ
۲۱۔سلیمو طوائف
تبرکات
آپ کی پاپوش اورشیشہ حلبی۔آج کل ۱۳۷۹ھ میں صاحبزادہ محمد رمضان بن میاں غلام محمد زمانی کے گھرمیں بمقام بھڑی شریف موجودہے۔میں نے بھی زیارت کی ہے۔
تاریخ وفات
میاں محمد زمان۱؎کی وفات بعمرستانوے سال قمری بروزپنجشنبہ ۱۴جمادی الآخر۱۲۱۵ھ مطابق ۲۳اکتوبر۱۸۰۰ء موافق ۷ کتک ۱۸۵۷بکرمی میں ہوئی۔
آپ کی قبربھڑی شریف میں اپنے ناناحضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ اقدس سے مغربی جانب ہوئی۔آپ کے درویش حضور ی خُسرانےاُس پر پالکی بنوائی جو آج بھی موجود ہے۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔از آیت شریف والراسخون فی العلم ۱۲۱۵
۲۔مصرعہ "گوہرکانِ مروت معدنِ حلم وحیا"۔
۱؎حضرت میاں محمد زمان دُولارحمتہ اللہ علیہ کا کچھ ذکر شریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے تیسرے حِصّہ معارف الابرار نام میں لکھاجائےگا۱۲سیدشرافت۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)