مجاہد اہلسنت حضرت علامہ مولانا نصر اللہ برڑو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا نصر اللہ برڑو، گوٹھ محمد صلاح برڑو (تحصیل شکار پور) میں ایک غریب کسان کے گھر ۱۹۴۶ء کو تولد ہوئے۔ دادا جان علی مراد برڑو نے ’’نصر اللہ‘‘ نام تجویز کیا۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گوٹھ کے مکتب سے کیا۔ اس کیب عد مولانا فضل احمد نقشبندی آپ کو عظیم دینی درسگاہ مدرسہ دار الفیض سونہ جتوئی شریف (تحصیل لاڑکانہ) میں داخل کروادیا۔ جہاں آپ نے عالم باعمل، سوفی باصفا حضرت مفتی محمد قاسم جتوئی مدظلہ العالی اور حضرت مولانا محمد عیسیٰ سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم غوثیہ رضویہ سکھر میں داخلہ حاصل کیا جہاں پر شیخ الحدیث مفتی محمد حسین قادری علیہ الرحمۃ مناظر اہل سنت مولانا حبیب احمد نقشبندی (حال کوئٹہ) مولانا محمد ابراہیم سیالوی، مولانا منیر الزمان اور مولان امحمد یعقوب سے اکتساب فیض کیا۔ ۱۹۷۰ء میں دارالعلوم غوثیہ میں جلسہ ہوا جس میں آپ کی دستار فضیلت ہوئی۔
۱۹۶۲ء کو پیر طریقت حضرت سید زین العابدین شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ درگاہ نورائی شریف (تحصیل ٹنڈو محمد خان) کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت اپنے گوٹھ واپس آئے اور امامت خطابت و تعلیم دین میں مصروف ہوگئے۔ ۱۹۷۱ء میں آپ کے دیرینہ دوست مولانا پروفیسر عبدالغفور سومرو مرحوم کی دعوت پر ان کی مسجد غوث اعظم شاہی باغ روڈ شکار پور میں امام و خطیب مقرر ہوئے۔ چند ماہ کے بعد آپ کے والد کی طبیعت علیل ہوگئی جس کے سبب انہیں سول ہسپتال لاڑکانہ داخل کرایا گیا وہاں والد کی خدمت میں پانچ ماہ صر ف ہوئے۔ گوٹھ واپس پہنچے تو مسجد چھوٹ چکی تھی لیکن جلد ہی مولانا مفتی عبدالفتاح صڈیقی مرحوم کی دعوت پر شکار پور تشریف لائے اور شکار پور کی مرکزی جامع مسجد لکھی در میں امام و خطیب مقرر ہوئے۔ مسجد محکمہ اوقاف میں ہونے کی وجہ سے مخالفین نے آپ کی سخت مخالفت کی ار اپنے امام کو کھڑا کرنے کا بھر پور زور لگایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح و نصرت عطا فرمائی اور آپ تاحیات اس کے امام و خطیب رہے۔
مدرسہ کا قیام:
آپ نے بعض احباب کے ساتھ مل کر شکار پور شہر میں درگاہ شریف حضرت حاجی سید عبداللطیف شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ کے زیر سایہ پلاٹ پر ۱۹۸۰ء میں ’’دارالعلوم غوثیہ لطیفیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ حضرت مولانا حافظ قاری گل محمدقاسمی (لاڑکانہ) اور آپ نے مدرسہ میں درس و تدریس کا آغاز کیا ۔ شکار پور کو وہابیت کا مرکز سمجھاجاتا تھا اور وہاں اہل سنت و جماعت کو کام کرنے میں بڑی رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ لیکن اس مرد مجاہد نے صبر و ہمت سے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور استقامت و جہد مسلسل سے دین کا کام جاری رکھا۔ نہ مخالفین سے دبے نہ ان کے سامنے ہھتیار ڈالے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عظیم کامیابی سے ہمکنار کیا۔ آج دارالعلوم کی وسیع و عریض عمارت شکار پور شہر کے وسط میں بڑی شان سے کھڑی ہے جو کہ آپ کے خلوص اور انتھک محنت و لگن کا نتیجہ ہے۔
عادات و خصائل:
مولانا ہمارے دوست تھے، ان کو قریب سے دیکھا ، ساتھ تنظیمی کام کئے لاڑکانہ شکار پور کو ئی دور نہیں قریب کے شہر ہیں۔ محبت ہو تو دوری نظر نہیں آتی۔مولان اعلم دوست، وعدے کے سچے، زبان کے پکے، وقت کی قدر و قیمت جانتے تھے اس لئے وقت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے، کام کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے، مستقل مزاج پر جوش لیکن باہوش ، سادگی پسند، اخلاق و محبت کے پیکر تھے۔ شکار پور میں کئی مساجد و مدارس کو قائم فرمایا۔ شکار پور میںجماعت اہلسنت پاکستان اور جمعیت علمائے پاکستان کا تنظیمی کام کیا، انجمن طلباء اسلام پاکستان کی شاخ قائم کی۔ مدرسہ کے سالانہ جلسہ میںسکھر شکار پور لاڑکانہ کے تمام نامور علماء اہل سنت و مشائخ اہلسنت کو مدعو فرماتے تھے، سب کے ساتھ رہتے اور سب کے ساتھ مل کر تنظیمی و مسلکی کام سرانجام دیتے تھے۔
سفر حرمین شریفین:
۱۹۹۷ء میں آپ نے حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔
تلامذہ:
آپ کے نامور تلامذہ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ مولانا عبدالوہاب بروہی کٹا شاخ تحصیل ٹھل
٭ مولانا لے مٹھو پنہور گڑھی یاسین
٭ مولانا عبدالرحمن پنہور گڑھی یاسین
٭ مولانا عطاء اللہ ابڑو ڈیرہ مراد جمالی (بلوچستان)
شادی و اولاد:
آپ نے دو شادیاں کی ان کے بطن سے تیرہ(۱۳) بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ چار بیٹے عالم دین، آپ کے شاگرد، آپ کے قائم کردہ مدرسہ کے فاضل اور آپ کے مشن کو جاری کئے ہوئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر یقینا مولانا کی روح خوش ہوتی ہوگی۔ پانچ بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ ابو الطاہر مولانا شفیق احمد قادری ، سابق صدر انجمن طلباء اسلام، پاکستان
۲۔ مولانا قاری محمد صدیق قادری
۳۔ مولانا ابو الفضل لطف اللہ قادری
۴۔ مولانا حبیب احمد قادری
۵۔ حافظ محمد احمد قادری
وصال:
مولانا نصر اللہ قادری کو سحری کے وقت پیٹ میں معمولی درد کی شکایت ہوئی اس کے بعد بلند آواز سے الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کی صدائیں بلند کی اور اس دوران جسم سے روح پرواز کر گئی۔ ۳۰ ذوالحجہ ۱۴۲۱ھ بمطابق ۶ اپریل ۲۰۰۰ء بروز جمعرات ۵۴ سال کی عمر میں انتقال کیا ارو اسی روز بعد نماز عصر صاحبزادے مولانا شفیق احمد کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپ کے قائم کردہ مدرسہ مجیدیہ تعلیم القرآن میں آخری آرام گاہ بنی۔
(مولانا شفیق احمد شکار پوری نے حافظ عبدالستار ابڑو کی وساطت سے مواد بھجوایا اسی سے مضمون ترتیب دیا گیا ہے)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )