مولانا بدرالدین احمد گور کھپوری
مولانا بدرالدین احمد گور کھپوری (تذکرہ / سوانح)
عمدۃ المحققین مولانا بدر الدین احمد رضوی گور کپھوری
ولادت
حضرت علامہ مولانا بدر الدین احمد رضوی بن عاشق علی بن احمد حسن بن غلام نبی بن محمدنا در صدیقی ۱۲۴۸ھ ۱۹۲۹ء موضع حمید پور ضلع گور کھپور میں پیدا ہوئے جو روات سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر ہے۔
خاندانی حالات
شیخ محمد نادر مرحوم کے آباواجداد وقصبہ یوسف پور محمد آباد ضلع غازی پور (یو۔پی) کے باشندے شاہ کوٹ تحصیل بانس گاؤں ضلع گور کھپور کےنواب سید شاہ عنایت علی مرحوم کے شاہی خاندان سے گہرے روابط اور دیرینہ تعلیقات تھے۔ اسی دیرینہ تعلق کی بناء پر شیخ محمد نادر کے والد ماجد اور چچا سید عنایت علی کی ایک جنگیم ہم میں بحیثیت افسر فوج شریک ہوکر جاں بحق ہوئے۔
اس زمانے میں شیخ محمد نادر کمسن تھے۔ سید عنایت علی نے اپنے ایک جاںن ثار فوجی افسر کی سعادت مند یادگار کو اپنی تربیت وکفالت میں پروان چڑھایا۔ جب شیخ محمد نادر سن شعور کو پہنچے تو سید عنایت علی نے اپنے دیوان خا ص میں ایک ممتاز عہدہ دے کر ان کو اپنا مقرب بنالیا، اور دوگاؤں بطور جاگیر عطا فرمادیئے۔ ایک موضع روات پار جو قصبہ پور سے ایک م یل کے فاصلہ پر ترجانب ہے، روات پار کو اپنا وطن بنایا۔ جہاں آج بھی مولانا بدر الدین کے خاندانکےلوگ آباد ہیں۔ رہاکھوکھر جوت تو اس آراضی رفتہ رفتہ فروخت ہوکر دوسروں کے ہاتھوں میں منتقل ہوچکی ہے۔
تعلیم وتربیت
حضرت مولانا بدر الدین احمد کی اردو تعلیم مقامی درسگاہ قصبہ شاہ پور میں ہوئی۔ فارسی اور عربی کی تعلیم کے لیے والد گرامی جناب عاشق نےایک سنی درسگاہ مدرسہ انوار العلوم قصبہ جبن پور اعظم علی گڑھ میں داخلہ کرایا، کچھ دنوں ابتدائی فارسی پڑھنےکے بعد ۴؍ربیع الآخر ۲۹؍ مارچ ۱۳۶۳ھ؍۱۹۴۴ءکو میزان الصرف کی تعلیم شروع ہوئی۔ تقریباً ۴سال تک ادارہ ہٰذا میں مولانا محمد خلیل کچھوچھوی سے تعلیم حاصل کی۔
پھر شوال ستمبر۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۸ء میں دارالعلوم اشرفیہ مبارک پوراعظم گڑھ میں داخہ لیااور تقریباً چار سال اکتساب علم کرتےرہے۔ ۱۰؍شعبان المعظم ۵؍مئی ۱۳۷۱ھ؍۱۹۵۲ء کو دستار بندی ہوئی اور ادارہ نےسد فراغت سے نوازا۔
والدماجد کا انتقال
مولانابدرالدین احمدکےوالدگرامی عشق علی صدیقی ۲۲؍ذی الحجہ؍۱۸دسمبر ۱۳۹۶ھ ۱۹۷۲ء کورات کےآخری حصہ میں چاربجے داغِ مفارقت دے کرجاں بحق ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ
اساتذۂ کرام
۱۔ حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی بانی اشرفیہ مبارکپور
۲۔ شیخ العلماء حضرت مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی
۳۔ شیخ الخطباء حضرت مولانا عبد المصطفیٰ امجدی اعظمی
۴۔ حضرت مولانا حافظ عبد الرؤف سابق شیخ الحدیث اشرفیہ مبارک پور
۵۔ شیخ القراء قاری محمد یحییٰ سابق ناظم اعلیٰ اشرفیہ مبارکپور
۶۔ حضرت مولانا محمد خلیل کچھ چھوی
دینی خدمات کی ابتداء
حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مرادآبادی علیہ الرحمہ کے حکم کے مطابق مولانا بدر الدین احمد ایام رمضان المبارک کی سالانہ تعطیل گزارکر شوال ۱۳۷۲ھ؍ دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں تشریف لائے اور تدریسی مشق کے لیے ادارہ کے طلبہ کور ۲۵؍رجب المرجب ۱۳۷۲ھ تک عربی کی ابتدائی تعلیم دیتے رہے۔ پھر حافظ ملت مولانا عبد العزیز نے تبلیغی خدمت انجام دینے کے لیے مولانا بدر الدین احمد کو موضو کوٹواری ضلع بلیا بھیجا، وہاں ۲۸؍رجب المرجب ۱۳؍اپریل ۱۳۷۲ھ؍ ۱۹۵۳ء کو انجمن معین الاسلام پرانی بستی میں درس نظامیہ کی تدریس کے لیے مولانا بدر الدین احمد کا ققرر ہوا۔ انجمن معین الاسلام میں تقریباً ڈھائی برس تعلیم دی پھر گنوار اراکین سے عدم موافقت کے باعث استعفیٰ دے دیا۔ آپ کو انجمن معین الاسلام سے استعفیٰ دیئے ہوئے تقریباً چار مہینے گزرے تھے کہ فیض الرسول براؤں شریف ضلع بستی کے بانی شعیب الاولیاء مولانا الشاہ محمد یار علی چشتی رحمۃ اللہ علیہ نےمولانا بدر الدین احمد کا اپنے ادارہ میں تقرر فرمالیا۔
یکم ذی الحجہ؍۱۰؍جولائی ۱۳۷۵ھ؍۱۹۵۶ءسے۲۰شوال المکرم، ۵نومبر ۱۳۹۴ھ ؍۱۹۷۵ء تک دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف میں بحیثیت صدر مدرس کے تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر بعض ناموافق حالات کی بناء پر ۲۱؍شوال المکرم ۱۳۹۴ھ؍۱۹۷۵ء سے درسی خدمت سے استعفیٰ دے دیا۔
مدرسہ غوثیہ بڑھیا میں حضرت مولانا بدر الدین احمد نے شعیب الاولیاء شاہ محمد یار علی چشتی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۲۲؍محرم ۱۳۸۷ھ) کی حیات کےگیارہ سال کامبارک زمانہ پایا خودمولانا بدرالدین احمدتحریدفرماتے ہیں۔
جس سے میرے ذہن کی تربیت میں بہت کچھ مدد ملی
براؤں شریف کے ادارہ دارالعلوم فیض الرسول سے مستغفیٰ ہونے پر مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا ضلع بستی کے اراکین نےاپنے ادارہ کی خدمت کے لیے دعوت دی۔ مولانا بدر الدین احمد نےاس دعوت کو قبولیت سے سرفرازفرمایا اور ۹ذیقعدہ ۲۴؍نومبر ۱۳۹۴ھ؍۱۹۷۵ء سے تادم تحریر مدرسہ غوثیہ فیض العلوم میں اپنا منصبی فریضہ انجام دے رہےہیں۔
موضع بڑھیا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو براؤں شریف سےشمال اور مغرب کے گوشے پر سات میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
بیعت وخلافت
مولانا بدر الدین احمد کو زمانۂ قیام اشرفیہ مبارک پور میں ۷؍ربیع الآخر شریف ۱۶؍جنوری ۱۳۷۰ھ؍ ۱۹۵۱ء کوبعدنمازعشاءحضورمفتی اعظم مولانامصطفیٰ رضانوری بریلوی قدس سرہٗ کےنورانی ہاتھوں پرسلسلۂ قادریہ، نوریہ، رضویہ میں بیعت کاشرف حاصل ہوا۔
اور زمانہ قیام بستی میں شیر بیشۂ اہلسنت مولانا محمد حشمت علی خاں رضوی لکھنوی ثم پیلی بھیتی علیہ الرحمہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ، رضویہ، برکاتیہ، صادقیہ وغیرہ سلاسل مقدسہ کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
پھر زمانۂ قیام براؤں شریف میں جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے عرس پاک کے موقع پر مولانا بدر الدین احمد بریلی شریف حاضر ہوئے تو حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ نوری بریلوی قدس سرہٗ نے موصوف کو سلسلۂ قادریہ رضویہ اور دیگر سلاسل مبارکہ کا مجاز بنایا، اور خلافت نامہ بھی عطا فرمایا
تصانیف
حضرت مولانا بدر الدین احمد اپنی م کثیر مصروفیات کے باوجود تصنیفی وتالیفی خدمات بھی انجام دیتے رہتے ہیں۔ آپنے زمانۂ درس وتدریس میں جب یہ محسوس کیا کہ موجودہ نسل کے کثیر بچے عربی، فارسی ماحول کے فقدان اور کثافت ذہن کے باعث نحو، صرف اور منطق کے ابتدائی بنیادی مسائل سمجھنے سےکورے ہوتے تو طلبہ کی سہولت کی خاطر عربی کی ابتدائی درسی کتابیں تالیف فرمائیں۔
۱۔ عروس الادب
۲۔ تلخیص الاعراب
۳۔ فیض الادب اول
۴۔ فیض الادب ثانی
۵۔ جواہر المنطق
مذکورہ بالاکتابیں مدارس عربیہ میں داخل نصاب ہیں۔ ان کتابوں کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جس کا جوب نہیں۔
آپ نے ملت اسلامیہ کے نونہالوں کی تعلیم کا بھی خیال فرمایا۔ اور اردو پڑھنے والےننھے منے سنی اطفال کی تعلیم کے لیے مندرجہ ذیل کتب تصنیف فرمائیں۔
۶۔ تعمیر ادب (قاعدہ)
۷۔ تعمیر ادب (اول، دوم، سوم چہارم، پنجم)
۸۔ تعمیر ادب (قواد اول، دوم)
۹۔ نورانی گلدستہ
۱۰۔ تحقیقی جواب
۱۱۔ تذکرہ سرکار غوث وخواجہ
۱۲۔ رد تقویۃ الایمان
مولانا بدر الدین احمد کی جتنی بھی تصانیف ہیں پوری دنیائے سنیت میں قدر وعظمت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالاکتابوں کے علاوہ ایک اہم تاریخی دستاویز تحقیقی وعلمی شاہکار
‘‘سوانح اعلیٰ حضرت’’ (امام احمد رضا) ہے۔
مولانا بدر الدین احمد کی یہ تصنیف جس کو ملک ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ امریکہ، پاکستان، سعودیہ عربیہ، بسنان، شام، رکی، نیپال، مصر وغیرہ ممالک کے ریسرچ اسکالروں نے اپنے مخصوص مطالعہ میں رکھا۔ اور مولانا بدر الدین احمد کےتبحر علمی، فضل کمال، دانشوری اور فنی صلاحیت کا اعتراف کیا۔ سوانح اعلیٰ حضرت کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب تک چھ ایڈیشن چھپ چکےہیں۔
چند خصوصیات
مولانا بدر الدین احمد خوبیاں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
۱۔ عقیدہ ومسلک کے اعتبار سے بہت متصلب سنی اور سنی گر ہیں۔
۲۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ العزیزی سے غایت درجہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔
۳۔ ان کی ہدایات عام کرنے کے لیے ہمہ وقت فکر مند اور متحرک رہتے ہیں۔
۴۔ زہد وتقویٰ میں علماء وصالحین کی روشِ پر سختی سے کاربند ہیں۔
۵۔ اپنے طلبہ اور متعلقین کو بھی شریعت کا پابند اور صالحین کا نمونہ بنانےکےلیے بیتاب و مضطرب رہتے ہیں اور اس راہ انتھک کوشش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
۶۔ مولانا بدر الدین احمد کی تعلیم وتربیت بڑی بافیض ہے۔
چنانچہ حضرت مولانا بدر الدین احمد کی درسگاہ میں رہ کر بہت سے طلبہ نے اپنی علمی استعداد کے ساتھ علمی زندگی اور فکری سطح بھی استوار کی ہے۔
چند تلامذہ
۱۔ مولانا محمد رضوی بستوی،
۲۔ مولانا جمیال احمد چشتی، جیتی پور بستی
۳۔ مولانا محمد حلیم قادری بھاولپور بستی
۴۔ مولانا اشفاق احمد میا گل ضلع بستی
۵۔ مولانا محمد حنیف قادری، براؤں شریف بستی،
۶۔ مولانا خلق اللہ خلیق فیضی چرکھوا بستی