منشی حاجی محمد لعل خاں ویلوری مدارسی
منشی حاجی محمد لعل خاں ویلوری مدارسی (تذکرہ / سوانح)
منشی حاجی محمد لعل خاں ویلوری مدارسی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: حاجی محمدلعل خان۔والد کااسمِ گرامی: قاسم خان تھا۔(علیہما الرحمہ)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 1283ھ،کو" ویلور "(مدارس،انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:اردو،انگریزی تعلیم پانے کے بعد 1301ھ، 1884ء میں اٹھارہ برس کی عمر میں فوج میں محرری کے عہدے پرمتعین ہوکر "برما"کی جنگ میں شریک ہوئے ۔دوران جنگ آپ کے دل میں اسلامیات اور سیرت کی کتب کے مطالقہ کا شوق پیدا ہوا تو اس سلسلہ میں شمس العلماء مولانا غلام رسول مدارسی رحمۃ اللہ علیہ سے چند کتب منگوائیں۔مولانا موصوف نے آپ کے تسکین اور ذوق کےلیے 1887ء میں اکسیر ہدایت،حکایات الصالحین، کنزالدقائق وغیرہ کتب روانہ فرمائیں۔اکسیر ہدایت کے مطالعہ کے دوران رزقِ حلال کا بیان پڑھ کر دل ملازمت سے اچاٹ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ سے عہد کیا جونہی پلٹن واپس ہندوستان پہنچے گی تو ملازمت کو خیر باد کہہ دوں گا مگر والدہ صاحبہ کے علاوہ دیگر اہل خانہ رضا مند نہ ہوئے۔جب 1890ء میں پلٹن مدارس سے سکندر آباد گئی تو آپ اپنے مرشد حضرت مولانا محی الدین ویلوری قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئےاورعرض کیاکہ"یہ روزگارجومیں کرتاہوں کیساہے"؟انہوں نےارشادفرمایا۔"حرام"۔عرض کیا۔کیامیں اسے چھوڑدوں؟فرمایا!ہاں"۔آپ اُس وقت کچھ مقروض تھے۔اور صرف پچیس روپیہ تنخواہ ملتی تھی۔آپ نے کوشش کر کے چھ ماہ میں قرض ادا کردیا اور ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
سیرت وخصائص: حامیِ دینِ مصطفیٰ،محسنِ اہلسنت،خلیفۂ اعلیٰ حضرت جناب حاجی محمد علل خان مدراسی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کے اندر دین کا سچا جذبہ موجود تھا یہی وجہ کہ آپ نے ترکِ ملازمت کرکے ساری زندگی اپنے آپ کو دینِ اسلام کی ترویج کے لئے وقف کردیا تھا۔ترکِ ملازمت کے بعد آپ 1309ء ھ / 1891ء میں سفر حج پر روانہ ہوئے،دورانِ حج آپ بہت سے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوکر مستفید و مستفیض ہوتے رہے خصوصاً حضرت معصوم شاہ بجنوری دہلوی اور حضرت گوہر علی شاہ ٹونکی سے فیض حاصل کیا۔ 1319ء میں "ندوۃ العماء" کا سالانہ جلسہ کلکۃ میں منعقد ہونا قرار پایا اور ندویوں نے عوام کو اپنا ہمنوابنانے کی سعی بلیغ کی تو آپ نے حضرت مولانا قاضی عبد الوحید عظیم آبادی اور حضرت مولانا عبد السلام جبلپوری سے علماء ندوہ کے بارے معلومات حاصل کر کے عوام کو اُن کے بُطلان سے آگاہ کیا۔اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کلکۃ تشریف لائے۔تو آپ کے ارشادات عالیہ سے ان کی"صلح کلی"کی پالیسی طشت ازبام ہوگئی۔
1321ھ کوعلماء ندوہ کا جلسہ مدارس میں منعقد ہوا، حاجی صاحب بغرض تبلیغ کلکۃ سے یہاں چلے آئے اور حضرت مولانا عبد المجید ویلوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر بذریعہ تبلیغی لڑیچرندوہ میں بھر پور کام کیا۔جس سے اہل سنت کو کامیابی نصیب ہوئی اور ندوی اپنے مذموم عزائم ناکام ہوئے۔
اس عظیم الشان کامیابی پر اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ نے آپ کو مبارکبار دارسال فرمائی۔ اعلیٰ حضرت کا گرامی نامہ نقل کیا جاتا ہے:
بملاحظہ جامی سنت ماحیِ بدعت جناب منشی محمد لعل خاں صاحب۔"السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!الحمد للہ کہ اللہ عزوجل نے مدارس میں ندوہ مخذولہ پر آپ کو فتح بخشی ۔الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے علماء حق کی طرف راجع کیا۔اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہاں میں بے شمار نعمتیں اور اجر کثیر عطا فرمائے، اور آپ جیسے عالی ہمت ،خادم سنت، ہادم بدعت ،اہلسنت میں بکثرت پیدا فرمائے۔آمین آمین آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیہم اجمعین آمین۔میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آپ اور مولانا قاضی عبد الوحید صاحب اور مولانا مولوی وصی احمد صاحب محدث سورتی کی شان کا ایک ایک سُنی بھی ہر شہر میں ہوجائے تو انشاء اللہ تعالیٰ اہل سنت کا طول بول جائے۔(فقیر احمد رضا قادری غفر لہ ، رجب ۱۳۲۱ھ"۔)
حضرت منشی محمد لعل خاں کا زکریا اسٹریٹ کلکۃ میں تجارت کا وسیع کاروبار تھا۔ آپ ایک عرب تاجر یوسف صاحب کے شریک کار تھے۔کلکۃ سے عرب ممالک میں چاول وغیرہ آمد کرتے۔چونکہ مسلک حقہ اہل سنت و جماعت کی تبلیغ و ترویج آپ کی زندگی کا مقصد وحید تھا اس لے کثیر تعداد میں اصلاحی لٹریچر چھپوا کر مفت تقسیم کرتے، سب سے پہلے ایک پوسٹر ‘‘ردِ فرقہ باطلہ’’ کے نام سے ہندوستان کے گوشہ میں پھیلایا۔حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ کئی برس تک آپ کے ہاں مقیم رہے اور تصنیف و تالیف کے کام میں معاون رہے ۔اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے لڑیچر کی اشاعت میں حاجی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں۔صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی "تفسیر خزائن العرفان فی تفسیر القرآن" کی اشاعت میں بھی معاونت فرمائی ان گراں قدر خدمات کی بدولت اعلٰی حضرت نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
امام اہل سنت اپنے ممتاز تلامذہ اور خلفاء کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں:؎
جو ہر منشی لعل پہ ہیرا
کھا مرنے کو منگاتے یہ ہیں
آپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں چند ایک کے نام یہ ہیں:۔(۱)خزانۂ کرامت(مطبوعہ پٹنہ ۱۳۲۴ھ)(۲)فتاوی بر عقائد وہابیہ دیوبندیہ (مطبوعہ کلکۃ ۱۳۲۴ھ) (۳)تاریخ وہابیہ (۴)یک گز،وسہ فاختہ بیمناک
تاریخِ وصال: آپ نے 21/جولائی 1921ء،مطابق 1339ھ،کووفات پائی۔
حضرت مولانا غلام احمد اخگر امر تسری مرحوم (خلیفۂ مجاز حضرت محدث علی پوری)نے یہ تاریخ وصال کہی؎
واحستر تا و احسرتا افتاد ہے یہ ناگہاں |
ہر ایک کا دل مغموم ہے زاد حزین پیروجواں |
ماخذومراجع: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت۔