خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد رضوی
خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد رضوی (تذکرہ / سوانح)
مھتمم دارالعلوم غریب نواز مدیر م ماھنامہ پاسبات الٰہ آباد
ولادت
فاضل گرامی خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد نظامی رضوی بن عارف حسن صدر الدین عرف گھاسی بابا (رحمۃ اللہ علیہ) ۱۵؍اگست ۱۹۲۲ء کو موضع سرائے غنی تحصیل بھولپور ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ یہ موضع مردم خیز علاقہ ہے۔ جہاں اب بھی مولانا مشتاق احمد نظامی کاپختہ مکان آم کا باغ اور آراضی ہے۔ لیکن اب سکونت شہر الٰہ آباد محلہ دائرہ شاہ اجمل میں ہے۔
تعلیم وتربیت
حضرت مولانا مشتاق احمد نے اولاد تعلیم قرآن کریم اور ابتدائی مروجہ تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد والد ماجد حضرت صدر الدین گھاسی بابا رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بارگاہ میں مولانا مشتاق احمد نظامی کی حاضری دلائی، اور علوم عربیہ کی تحصیل کے لیے آستانہ خواجہ غریب نواز پر مت مانی۔ یہ حاضری رجب المرجب ۔۔۔۔۱۳ھ کو ہوئی اور شوال المکرم۔۔۔۔۱۳ھ میں مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمٰن رضوی رئیس اعظم اڑیسیہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کردیا۔
مولانا مشتاق احمد نے درس نظامی کی کتابیں مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں پڑھیں، ابھی درس نظامی کی تحصیل کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ۱۹۴۴ء میں الٰہ آباد بورڈ سے عالم کا امتحان دیا جس میں فرسٹ ڈویژن پاس ہوئے۔ ۱۹۴۵ء میں منشی کا امتحان دیا اور ۱۹۴۶ء میں فاضل ادب کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔
فراغت
حضرت مولانا مشتا ق احمد نظامی درس نظامی کے ساتھ ۱۹۴۷ء میں کامل کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اسی سال سند فراغت بھی حاصل فرمائی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ مجاہد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی علیہ الرحمہ
۲۔ حضرت مولانا قاری عبدالرب ازہری جیبی دین نگر پور ضلع مراد آباد
۳۔ حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی جیبی شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ سہسرام (بہار)
۴۔ حضرت مولانا سید عبدالقدوس جیبی بھدر کی اُڑیسیہ
۵۔ حضرت مولانا محمد عمر الٰہ آبادی
۶۔ مولانا حکیم محمد احسن بہاری
تدریسی زندگی
مولانا مشتاق احمد نظامی ۱۹۴۶ء میں فراغت سے ایک سال پہلے ہی الٰہ آباد کی قدیم درسگاہ مدرسہ مصباح العلوم میں مدرس مقرر ہوئے۔ مولوی، عالم وغیرہ کی اعلیٰ کتابیں مولانا مشتاق احمد نظامی کے زیر درس ہیں۔ الٰہ آباد کی مرکزی درسگاہ جامعہ حبیبیہ میں آپ نے ایک سال کے لگ بھگ تدریسی خدمات انجام دیں۔ کتابوں کے اسباق زیادہ ہونے کے سبب مدرسہ میں طلبہ رہ جاتے تھے تو مولانا مشتاق احمد نظامی رضوی اپنے دولت کدے پر طلبہ کو درس دیتے تھے کچھ عرسہ کے لیے مدرسہ عالیہ فاروقیہ بنارس میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ چند مہینوں کے بعد مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد کے اصرار پر مولانا مشتاق احمد نظامی نے مدرسہ سبحانیہ کی مسند درس وتدریس کو زینت بخشی اور تین برس سے زیادہ تدریسی خدمات انجام دیں۔
بیعت وخلافت
مولانا مشتاق احمد نظامی سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں مجاہد ملط مولانا حبیب الرحمٰن رضوی علیہ الرحمہ سے بیعت وارادت رکھتے ہیں اور حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے آپ کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا ہے، علاوہ ازیں حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نےج میع سلاسل کی اجازت عطا فرمائی۔
تعویذات کی اجازت
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے مولانا مشتاق احمد نظامی کو جملہ اور ادو وطائف اور تعویذات وغیرہ کی اجازت عطا فرمائی۔ خانقہ بیت الانوار گیا بہار کےمورثِ اعلیٰ مولانا شاہ صوفی عین الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چل کیا تھا۔ یہ نقش جملہ امور میں بہتی ہی مجرب اور زود اثر ہے۔ اس خانقاہ بیت الانوار سے مولانا مشتاق احمد نظامی کو اس نقش کی اجازت حاصل ہے۔ جس کسی کو اس نقش کا تعویذ دیا۔ علی العموم وہ کارگر ہی ثابت ہوا۔
تبلیغی پروگرام
حضرت مولانا مشتاق احمد نظمی جہاں کہنہ مشق مدرس، کامیاب مقرر، مصنف و محقق اور بے بدل مناظر ہیں، وہیں سیاح بھی ہیں۔ وہ بستر جو ہمیشہ کھلا رہتا تھا اب و ہی بستر ہمیشہ بند ھا جارہتا ہے، اب زندگی صبح کہیں، شام کہیں گزرتی ہے۔ ۱۹۴۶ء ہی سے مولانا مشتاق احمد نظامی کی جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت ہونے لگی تھی۔ لیکن پروگراموں کی ہما ہمی میں درس و تدریس کا سلسلہ بہت کم جاری رہتا ہے۔
مولانا مشتاق احمد نظامی کے اندر متعدد خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ فن خطابت کے شہسوار اور میدان صحافت کے تاجدار، رزمگاہ مناظرہ میں بادلوں کی گھن گرج، اور بجلیوں کی تڑپ، متعدد مناظروں میں شرکت کی، اور جس سے بھی پنجہ آزمائی کی اس کی کلائی توڑدی، اور خود مظفر منصور ہوئے۔
تحریکوں میں شرکت
جب آل انڈیا تبلیغ سیرت قائم ہوئی اور مولانا مشتاق احمد نظاممی اس کے جوائنٹ سکریٹری منتخب ہوئے تو اس کے لیےجو بے مثال قربانیاں پیش کیں وہ فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ مولانا مشتاق احمد نظامی کو آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ کے آرگنائز سکریٹری اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کا جنرل سکریٹری بھی منتخب کیا گیا۔ مولانا مشتاق احمد نظامی نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی اور متعددی سے نہ صرف نبھایا بلکہ ناقابل فراموش قربانیاں بھی دیں۔
دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد مولانا مشتاق احمد نظامی کی علمی یادگار ہے۔ بہت سے ادارے جو نصف صدی کی کوشش کے باوجود نہ کر سکتے۔ سات آٹھ برس کی قلیل مدت میں اس سے کہیں زیادہ کر کے دکھادیا۔ اس وقت رضا لائبریری ادارہ تحقیقات اور دالمصنفین کا باضابطہ قیام مولانا مشتاق احمد نظامی کی کوششوں کے اصل نشانے پر ہے۔ مسلم پرسنل لاء کانفرنس منعقدہ بمبئی والٰہ آباد میں شرکت کے لیے جان توڑ کوشش کی گئی۔ ہر چند کہ جزوی طور پر مقصدیت کا اشتراک ہے۔ لیکن مولانا مشتاق احمد نظامی نے عملاً اشتراک وتعاون کو گوارہ نہ کیا۔ تاکہ عوام کہیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اور اسلاف کی شیشہ پگھلائی دیوار میں شگاگ نہ آجائے۔
تصانیف
۱۹۶۶ء میں مولانا مشتاق احمد نظامی نے ماہنامہ پاسبان الٰہ آباد کا اجرا کیا۔ کچھ دنوں کے لیے اس کا آفس بمبئی منتقل کردیا۔ عرصۂ دراز تک ماہنامہ پاسبان سنیت کی زمین پر بادل بن کر چھایا رہا۔ جب تک مولانا مشتاق احمد نظامی کا قلمی تعاون پاسبان کو حاصل رہا س کا ہر شمارہ علم وادب اور تاریخ کی دستاویز ہوتا۔ ماہنامہ پاسبان نے مجدد نمبر اور امام احمد رضا نمبر بھی شائع کیے۔ مجدد نمبر میں مولانا مشتاق احمد نظامی کا ادارا یہ اتنا مقبول ہوا کہ متعدد مصنفین نے اسے من وعن شائع کیا۔ مندرجہ ذیل تصانیف عوام وخواص سے خراج عقیدت حاصل کرچکی ہے۔
۱۔ خون کے آنسو، (جلد اول) جب حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ کو یہ کتاب بطو تحفہ پیش کی گئی تو حضرت نے بیس ۲۰ روپے بطور انعام عطا فرمائے۔
۲۔ خون کے آنسو (جلد دوم) (جس سے ایوانِ دیوبند میں زلزلہ آگیا)
۳۔ جماعت اسلامی کا شیش محل (مودودی جماعت کے رد میں ایک سلجھی ہوئی علمی معلوماتی کتاب ہے)
۴۔ ہند کے راجہ (حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و سوانح)
۵۔ مجرم کون؟ اس میں سوال کے پردے میں اصل مجرم کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔
۶۔ کربلا کا مسافر (خلافت معاویہ ویزید جیسی رسوائے زمانہ کتاب کا علمی تحقیقی اور سنجیدہ جواب)
۷۔ دیندار کے بے نقابل چہرے (صدیق دیندار چندر لبشو یشور کے خانہ ساز دھرم کی یہ کتاب برہنہ تصویر ہے)
۸۔ نسیم رحمت (تین حصے) مکاتیب اسلامیہ کا نصاب تعلیم ہے۔
۹۔ فردوس ادب (چارحصے) (یہ بھی مکاتیب اسلامیہ کا نصاب تعلیم ہے)
۱۰۔ منارۂ ہدایت (شریعت ی اجہالت ‘‘کی قابل مواخذہ عبارات کا علمی تجزیہ)
۱۱۔ تنویر الایمان فی فضائل شعبان (فضائل شعبان سے متعلق احادیث کا مجموعہ)
۱۲۔ قہر آسمانی برفتنۂ حقانی (پالن حقانی کے رد میں بہترین کتاب)
۱۳۔ وہابیوں دیوبندیوں کی پہچان (علماء دیوبند کے گندے عقائد کو مستند کتبوں کے حوالوں سے عوام کے کورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔)
۱۴۔تبلیغی جماعت کے ڈھول کا پول
۱۵۔ دیوبندی بولتے ہیں مگر سمجھتے نہیں
۱۶۔ تقلید شخصی
۱۷۔ دیوبند کی خانہ تلاشی
۱۸۔ خطبات نظامی (مولانا نظامی کے مقالات کا مجموعہ)
۱۹۔ دیوبند کا دنیا دین
۲۰۔ عقائد اہلسنت
۲۱۔ انکشافات
چند تلامذہ
حضرت مولانا مشتاق احمد نظامی سے اکتساب فیض کرنے والوں کے مشہور اسماء ۔؎
۱۔ مولانا نور الدین نظامی پرنسپل مدرسہ عالیہ رام پور
۲۔ حافظ قاری نعمت اللہ غازی پوری ثم الٰہ آبادی
۳۔ مولانا عبدالحمید مراد آبادی
۴۔ مولانا انوار احمد نظامی ناظم دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد
۵۔ عالی جناب محمد ابو ذر مانی سابق انسپکٹر مدارسِ عربیہ وفارسیہ اتر پردیش [1]
[1] ۔ مشتا ق احمد نظامی، مولانا: جماعت اسلامی، ابتدائیہ از مولانا انوار احمد نظامی الٰہ آبادی
(نوٹ) راقم السطور نے کافی خطوط اور رابطے قائم کیے مگر مزید حالات حاصل نہ ہوسکے اور ہی تلامذہ وخلفاء کی کوئی فہرست حاصل ہوسکی۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ