شیخ الاسلام علامہ نور محمد شہداد کوٹی
شیخ الاسلام علامہ نور محمد شہداد کوٹی (تذکرہ / سوانح)
شیخ الاسلام علامہ نور محمد شہداد کوٹی علیہ الرحمۃ
مولانا علامہ نور محمد شہداد کوٹی بن مولانا میاں غلام محمد فاروقی ۱۲۰۶ھ کو گوٹھ کنڈا تحصیل بھاگ ناری ضلع کچھی ( بلوچستان ) میں تولد ہوئے۔
آپ کے آباء واجد اد تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں عرب سے عراق پھر ریاست بہاولپور میں سمرسٹہ سے ہوتے ہوئے بلوچستان آئے ۔
تعلیم و تربیت:
تعلیم کاآغاز گھر سے کیا۔ اپنے والد ماجد کی درسگاہ میں والد ماجد سے اور مدرسہ کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالحلیم کنڈوی ؒ ( مد فون روہڑی ) سے تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
قاضی القضاۃ :
وہیں اپنی درسگاہ میں درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی سے وابستہ رہے آپ کی علمی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی ، اس سے متاثر ہو کر والی قلات خدائیداد خان بروہی جو کہ آپ کے شاگرد بھی تھے آپ کو قلات کا قاضی القضاۃ ( اسلامی علالت کے چیف جسٹس) کا منصب جلیل عطا کیا۔ آپ نے اس منصب پررہ کر ثابت قدمی کے ساتھ ہاریوں ، کسانوں ، مزدروں ، محنت کشوں اور خواتین کو انصاف دلایا اور شرعی احکامات کو ریاست میں عملی جامہ پہنایا۔
ترک وطن :
ایک بار خان قلات نے آپ کو ایک ناجائز مسئلہ پر دستخط کر نے کو کہا۔ آپ نے انکار کر دیا۔ لیکن خان کے تیورد یکھ کر اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر ۱۲۷۲ھ کو سندھ کی طرف نقل مکانی کی ۔ میرو خان ( ضلع لاڑکانہ ) کے ولی کامل حضرت میاں حامد حضور ی تونیہ ؒ آپ کے دوست تھے، جنہوں نے میرو خان میں استقبال کیا اور اپنے مرید زمینداروں کو بلا کر فرمایا: ’’حضور ﷺ کا نائب مہمان بن کر آیا ہے ، کون خدمات حاصل کرنا چاہتاہے۔ ‘‘
ہر ایک نے اپنی اپنی خدمات پیش کی لیکن رئیس الحاج پیر بخش خان کھاوڑ ( شہداد کوٹ) نے کہا: جوار کی روٹی اور لسی کا پیالہ پہلے حضرت صاحب اور ان کے طلباء تناول فرمائیں اس کے بعد ہم ۔‘‘
حضرت نے پیر بخش خان کے نان شیراز اور دلی خدمات کو قبول فرمایا۔ اس طرح حضرت میاں حامد حضوری کی کوشش سے حضرت نے شہداد کوٹ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ الحاج پیر بخش ۱۴۰ بیل گاڑیوں میں ۶۳ خاندانوں کو شہداد کوٹ لے آئے۔ حضرت کے ہمراہ اہل خانہ ، رشتہ دار ، مرید ، احباب ، مدرسہ کے طلباء اور ہندو دوکاندار بھی ترک وطن کر کے آئے تھے ، جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا اور ان شیخ صاحبان کی اولاد شہداد کوٹ میں آج تک پھل پھول رہی ہے۔
حضرت نے علمی روحانی مرکز قائم فرما کر اس شہر کو اطراف عالم میں چار چاند لگا دیئے ۔
بیعت وخلافت:
عارف کامل حضرت میاں محمد حسن قادری ( ۱۲۷۴ھ) سجادہ نشین درگاہ کٹبارشریف ( بلوچستان ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت اور صاحب مجا ز خلیفہ تھے۔ کٹبار شریف ، بیل پٹ ضلع کچھی صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔
درس و تدریس:
حضرت شیخ الاسلام شہداد کوٹی کا استاد ی سلسلہ اس طرح ہے۔ آپ اپنے رشتہ دار اور وقت کے بہت بڑے عالم و عارف علامہ عبدالحلیم کنڈوی قدس سرہ ( مدفون روہڑی ) سے گوٹھ کنڈہ میں تحصیل علم کی جو کہ یوسف ثانی گیسوئے دراز حضرت علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری حسینی ہالانی قدس سرہ الاقدس کے شاگرد ارشد تھے۔ ( علا مہ ہالانی ، گوٹھ خیر محمد آریجا میں امام العارفین حضرت سید محمد راشد شاہ المعروف حضرت پیر سائیں روضے دھنی درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ کے ہم درس تھے ) اور یہ سلسلہ اساتذہ کرام ، امام المعقول والمنقول، آفتاب پنجاب ، حضرت علامہ عبدالحلیم سیالکوٹی تک پہنچتا ہے۔ ملا حظہ کیجئے فقیر راشدی کی کتاب ’’قاسم ولایت‘‘مطبوعہ مشوری شریف۔
حضرت نے گوٹھ کنڈو میں والد ماجد اور استاد محترم علامہ عبدالحلیم کی نگرانی میں درس و تدریس کا کام کیا، دور دراز سے علم کے پیاسے پیاس بجھانے آئے ، آپ نے پہاڑی علاقہ میں علم کی روشنی عام کی۔ اسی طرح سندھ میں شہداد کوٹ کے مقام پر رئیس پیر بخش خان کھاوڑ اول کی عطیہ کردہ زمین پر مسجد شریف ، مدرسہ اور گھر تعمیر کروائے ۔ یہاں بھی مدرسہ نے یونیورسٹی؍ جامعہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی دور درازے کے مسافرطلباء زیر تعلیم تھے۔ طلباء کی رہائش اور خوراک کے تمام اخراجات رئیس صاحب ادا کرتے تھے۔ انہوں نے آباد زمین مدرسہ کے اخراجات کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔
حضرت شیخ الاسلام سے سندھ و بلوچستان میں علماء کی کثیر جماعت نے علم کی تحصیل کی۔ لیکن بلوچستان والی درس گاہ میں استفادہ کرنے والے طلباء کی فہرست محفوظ نہیں ۔ آپ کی درسگاہ میں ہمیشہ تقریبا ۳۰۰ سو مسافر بیرونی طلباء زیر تعلیم رہے اور چھ مدرس مقرر تھے۔ ہندو پاک ایران اور افغانستان سے طلباء نے آکر شہداد کوٹ میں آپ سے فیض یاب ہوئے۔
اس خاندان علمی کے سندھ پر بڑے احسانات ہیں اکثر علماء کرام ا س خاندان ذی وقار کے خوشہ چین ہیں ۔
یاد رہے علامہ نور محدث شہداد کوٹی ، شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی (۱۲۲۹ھ) کے ہم عصر تھے۔
اولاد :
حضرت شیخ الاسلام شہداد کوٹی کو تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تولد ہوئیں ، ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
۱۔ استاد العلماء علامہ گل محمد شہداد کوٹی ( متوفی سن ۱۳۰۶ھ)
۲۔ استاد العلماء علامہ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی
۳۔ مولانا میاں غلام عمر شہداد کوٹی ( جوانی میں انتقال کیا )
۴۔ آپ کی صاحبزادی میاں عبدالحلیم کنڈوی کے عقد میں آئیں ( جو کہ کنڈہ میں مقیم تھے ) جس سے آپ کو نواسہ میاں نصیر الدین اول تولد ہوئے جو کہ حضرت غلام صدیق کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔
تلامذہ:
آپ نے ۲۴ سال قدومت میمنت لزوم سے شہداد کوٹ کو سرفراز و شاداب فرمایا اور اس مختصر عرصہ میں بھی کثیر جماعت علماء نے استفادہ کیا۔ ان میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ ولی کامل استاد العلماء علامہ عبدالرحمن سکھر ، سندھ
٭ استاد العلماء علامہ گل محمد فاروقی شہداد کوٹی
٭ استاد العلماء غوث الزمان علامہ غلام صدیق شہداد کوٹی
٭ استاد العلماء علامہ مفتی محمد حسن قریشی جامع مسجد مائی خیری فقیر جو پڑ حیدر آباد
٭ استاد العلماء مولانا مفتی محمد حسن کھوسہ بلوچ جو ہی ضلع دادو
٭ استاد العلماء مولانا مفتی محمد ہاشم یاسینی گڑھی یاسین
٭ استاد العلماء مولانا عبدالقادر اندھڑ پھنواری تحصیل پنو عاقل ضلع سکھر
٭ استاد العلماء مولانا نور محمد بھٹی قاضی میر پور بھاگ ناڑی ڈویزن قلات
٭ حضرت مولانا سید عباس علی شاہ لواری شریف ضلع بدین
٭ حضرت مولانا حاجی احمد ابڑو گوٹھ ملا ابڑا تحصیل لاڑکانہ
٭ حضرت مولانا محمد علی اوڈھو تحصیل گڑھی خیر و جمالی
٭ حضرت مولانا خیر محمد انڈھڑ پنو عاقل ضلع سکھر
٭ حضرت مولانا سید عبدالحق شاہ جانی بند تحصیل وارہ ضلع لاڑکانہ
٭ حضرت مولانا عبدالستار رستمی تحصیل شکار پور
٭ مولانا عبداللہ بیر والے
٭ مولانا حاجی احمد بوہڑ تحصیل قمبر وغیرہ
تصنیف و تالیف :
روایت ہے کہ آپ نے فتاویٰ نویسی کے علاوہ مستقل کتابیں بھی تحریر فرمائی اور اس کے علاوہ درسی کتب پر حواشی کا اہم و مفید کام بھی کیا جس کی تفصیل یوں ہے:
٭ فتاویٰ نور محمد یہ
٭ حاشیہ توضیح تلویح
٭ حاشیہ جامع تعلیلات
٭ حاشیہ ہدایہ شریف
٭ حاشیدہ ایسا غوجی
٭ حاشیہ زرادی
٭ حاشیہ قطبی
٭ حاشیہ بدیع المیزان
٭ حاشیہ عبدالغفور
٭ حاشیہ جامی
٭ حاشیہ شرح ماۃ عامل
٭ حاشیہ مسلم
٭ حاشیہ بیضاوی وغیرہ
وصال :
شیخ الاسلام علامہ مفتی نو ر محمد شہداد کوٹی نے نوے سال ( ۹۰) کی عمر مبارک میں ۱۲، ذوالحجہ ۱۲۹۶ھ؍ ۱۸۷۹ء کو انتقال کیا ۔ آپ کا مزار مقدس شہداد کوٹ ضلع لاڑکانہ میں درگاہ صدیقیہ میں مرجع خلائق ہے۔ ( تجلیات صدیقیہ ، الرحیم مشاہیر نمبر ۱۹۶۷ء وغیرہ )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)