آپ دہلی کے مشہور مشائخ میں سے تھے آپ کا اصل وطن لار تھا۔ وہاں سے اپنے پیر اور روشن ضمیر کے ارشاد کے مطابق دہلی آئے اور بڑی مقبولیت حاصل کی سلطان غیاث الدین بلبن آپ کا بڑا معتقد تھا آپ کو شیخ عزیزالدین دانیال خلجی قدس سرہٗ سے خرقہ خلافت اور اجازت ملی تھی انہیں علی خضر اور انہیں شیخ ابواسحاق گار رونی سے نسبت حاصل تھی۔
جب نورالدین ملک یار غیاث الدین بلبن کے عہدے میں دہلی پہنچے آپ نے دریا کے کنارے جو شیخ ابوبکر طوسی قلندر کے مکان کے ساتھ تھا قیام فرمایا شیخ ابوبکر طوسی کو آپ کا یہ قیام کرنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ یہاں اپنے مرشد یا بادشاہ کی اجازت کے بغیر قیام کرنا اچھا نہیں یہاں سے چلے جاؤ یا تو بادشاہ سے فرمان لاؤ یا اپنے پیر و مرشد سے اجازت نامہ حاصل کرو یہاں سے اٹھو اور اپنا راستہ لو حضرت نورالدین پہلے بعالم طیر (اڑکر) دہلی سے ٹھٹھہ پہنچے سلطان غیاث الدین سے فرمان حاصل کیا اس کے بعد اپنے پیر و مرشد کے پاس گئے اور فرمان خلافت حاصل کیا اور دہلی میں قیام کا اجازت نامہ لیا۔ تھوڑے دنوں میں دونوں سندوں کے ساتھ پھر آپہنچے اور ابوبکر طوسی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کاغذات پیش کیے شیخ ابوبکر طوسی نے فرمایا کیا تم پرندے ہو کہ اتنی دور دراز مسافت سے کاغذات لے آئے ہو۔ اس دن سے نورالدین ملک یار پراں کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
آپ کی وفات ۶۹۵ھ میں ہوئی آپ کا مزار جمنا کے کنارے واقع ہے۔
شیخ نورالدین چو از عالم برفت شاہ نورالدین ابدال ست نیز ۶۹۵ھ
|
|
سالِ وصل آں شہ والا مکان مقتدائے علم تقدیرش عیاں ۶۹۵ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)