مولانا پیر عبدالقدوس درانی قادری
مولانا پیر عبدالقدوس درانی قادری (تذکرہ / سوانح)
مولانا پیر محمد عبدالقدوس درانی بن حضرت مولانا پیر احمد قادری مذہبا حنفی اور مشربا قادری تھے ۔ آپ کے آباوٗ اجد دقند ھار (افغانستان ) کے رہنے والے تھے ۔ علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں آپ کا خاندان ممتاز تھا۔ آپ کاشجرہ نسب مندرجہ ذیل ہے:
’’محمد عبدالقدوس بن مولانا احمدبن مولانا غلام محمد بن ملا محمد امیر حاکم قندھار بن علامہ محمد یوسف حاکم قندھار بن ملا محمد طاوٗ س حاکم قندھارو ہرات بن علامہ عبدالعزیز حاکم قندھار و ہرات ‘‘۔
آپ کے جدامجد مولانا غلام محمد قندھار کے قاضی القضاۃ تھے ۔ آپ کے والد گرامی قدر حضرت مولانا پیر احمد قادری اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ قندھار نقل مکانی کر کے چمن (بلوچستان ) آئے مگر یہاں دل نہ لگنے کے باعث آپ پشاور (سرحد ) چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ محترم فرید الدین جاوید راوی ہیں کہ مولانا احمد قادری نے ’’شنکا‘‘نزد حضرو (سرحد ) میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ مولانا احمد ، حضرت شیخ طریقت عبدالوہاب جی مبارک قادری سجادہ نشین درگاہ مانکی شریف (تحصیل نو شہرہ ضلع پشاور ، سرحد ) سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں دست بیعت ہوئے ۔ اس کے بعد راہ سلوک منازل طے کر ا کے آپ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔ پیر صاحب مانکی شریف کے حکم ہی سے آپ نے حیدرس آباد دکن کو دعوت و تبلیغ اور شدو ہدایت کا مرکز بنایا جہاں ساری زندگی آپ نے بسر کی اور وہیں آپ کی شادی اور اولاد ہوئی ۔ علماء و مشائخ میں آپ کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ ایک صاحب تقویٰ شخصیت کے مالک تھے ۔ ہمیشہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے رہتے تھے جو صرف نماز کے وقت ہی ہٹائی جاتی ۔ لوگ آپ کو ’’نقاش پوش بزرگ ‘‘کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ آپ کی اولاد نرینہ میں سب سے بڑے مولانا عبدالقدوس قادری تھے ۔ جب آپ کی عمر سولہ (۱۶) برس کی ہوئی تو آپ کے والد مولانا احمد کا انتقال ہو گیا۔
بیعت وخلافت :
آپ اپنے والد ماجد سے سلسلہ عالیہ قادریہ جنیدیہ غفوریہ میں دست بیعت ہوئے ۔ والد محترم نے اپنی زندگی ہی میں آپ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور آپ کے پیچھے نماز ادا کی اور فرمایا ’’میں خوش ہوں کہ میرا سلسلہ مجھ پر ختم نہیں ہوگا ۔ ‘‘ خانقاہ مانکی شریف کے سجادہ نشین حضرت شیخ امین الحسنات ثالث قادری ؒ نے آپ کو خلافت س ے سر فراز فرمایا تھا۔
امامت و خطابت :
آپ امامت و خطابت کے فرائض سولہ برس کی عمر سے لے کر تاحیات پورے جذبہ سے سر انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ حیدرآباد دکن سے پاکستان تشریف لائے اور میر پور خاص (سندھ ) میں سکونت اختیار کی یہاں پہلے نورانی مسجد میر کا پلاٹ میں تقریبا سترہ (۱۷) برس امام و خطیب رہے، ازاں بعد کچھ عرصے کے لئے آپ ٹا ٹا کاٹن مل کی مسجد میں بھی خدمت دینی سر انجام دی ۔ ۱۹۶۹ء کو حیدر آباد تشریف لائے اور مرکزی جامع مسجد لطیف آباد نمبر ۸ میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ جہاں تاحیات اسی خدمت دین پر مامورر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارہ سال آپ حیدر آباد میں رہے۔
عادات و خصائل :
محترم پروفیسر شاہ انجم صاحب رقمطراز ہیں :
آپ ایک خوش قامت اور نہایت و جیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ گندی رنگ ، لال گھنی داڑھی مبارک جو آپ کے چوڑے سینے کے بالائی حصے کو ڈھاپنے رہتی ، چہرے کی زینت میں اضافے کا باعث تھی ۔ عینک میں سے جھانکتی روشن آنکھیں جو نور یقین سے معمور دکھائی دیتیں اور کھلی پیشانی آپ کی بلند ہستی کی غماز تھی ۔ آپ ہمیشہ عمامہ شریف، کرتا ، شلوار اور عبازیب تن کرتے ۔
بچوں سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ مسجد شریف سے متصل مدرسہ قادریہ کی بھر پور سر پرستی فرماتے ۔ آپ گوشہ نشین رہتے ، فقر و قناعت کی دولت سے مالا مال ، ہمیشہ دنیا سے بے نیاز نظر آئے ۔
ہیں ہم فقیر راہ کہ بیٹھے ہیں بے نیاز
یاں ورنہ کون طالب جاہ و حشم نہیں
(جلیل قدوائی)
جشن عبدمیلادالنبی ﷺ کے موقعہ پر مرکزی جلوس کی افتتاحی تقریب سعید میں اسٹیج کو رونق بخشتے تھے۔ ایسے موقع پر آپ کی سادہ مگر پر و فارسج دھج دیکھنے کے لائق تھی ۔ آپ واقعی ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ایسی منکسر المزاج ، حلیم الطبع ، وجیہہ اور پرکشش دینی شخصیت حیدرآباد میں شاید ہی کوئی اور ہو۔
آپ کے خادم خاص عطاء الرحمن عرف کلو بھائی بیان کرتے ہیں کہ آپ ہمیں نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ’’اپنا عقیدہ مضبوط رکھو اور دوسرے کے عقیدت کو مت چھیڑ و جیسا کہ بزرگوں کا طریقہ ہے۔ ‘‘
اولاد و داماد :
آپ نے دو شادیاں کی۔ پہلی بیوی بی بی فاطمہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔ دوسری بیوی بی بی زینب سے آپ کی صرف چار بیٹیاں ہیں ۔
۱۔ گلنار بی بی
۲۔ رقیہ بی بی
۳۔ عذرا بی بی
۴۔ نجمہ بی بی
۱۔ عبدالقدیر مرحوم
۲۔ عبدالروٗف
۳۔ عبدالقیوم (کراچی )
آپ کے دامادوں کے نام یہ ہیں :
۱۔ عبدالحلیم خان مرحوم (ٹھٹھہ)
۲۔ حافظ محمد رفیق (الیکٹرک ٹھیکیدار پیر کالونی سائٹ ایریا، حیدر آباد)
۳۔ سکندر اقبال (تجارت پیشہ بہادر آباد کراچی )
۴۔ فرید الدین جاوید فاروقی (معروف ٹرانسپورٹر ۔ الجاوید ٹریول /b۸۶ یونٹ نمبر ۲ لطیف آبادحیدر آباد ) عطاء الرحمن عرف کلو بھائی ، جناب عبدالروٗف درانی ، حاجی گلشن الہی، وغیرہ کا آپ کے نامور مریدین و معتقد ین میں شمار ہوتا ہے۔
وصال:
مولانا پیر محمد عبدالقدوس قادری نے چھ ماہ علالت کے بعد ۲۷، محرم الحرام ۱۴۰۴ھ بمطابق ۳، نومبر ۱۹۸۳ء کو جمعرات کی شب پونے دو بجے قرآن مجید کی تلاوت سماعت کرتے ہوئے انتقال کیا۔ قبر کی جگہ کا انتخاب آپ نے اپنی زندگی ہی میں فرمایا تھا، چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق مجوزہ مقام واقع گنجو ٹکر پہاڑی نزد مقبرہ امانی شاہ بابا آپ کو سپرد خااک کیا گیا ۔ ہر سال ۲۷، محرم الحرام کو آپ کا عرس نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے۔
[محترم شاہ انجم بخاری صاحب (حیدرآباد) نے مولانا مرحوم کے اہل خانہ متوسلین سے ملاقات کی اور زبانی معلومات کو قلمبند کر کے فقیر کو بھجوادی ۔ فقیر تمام معاونین مخلصین کا مشکور دممنون ہے۔ ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)