پیر سید عبدالقادر گیلانی
پیر سید عبدالقادر گیلانی (تذکرہ / سوانح)
سفیر عراق ، صاحب کشف و کرامت حضرت پیر سید عبدالقادر جیلانی بن سید عبداللہ جیلانی نے یکم جمادی الآخر ۱۳۲۳ھ/ ۳، اگست ۱۹۰۵ء کو اپنے جد اعلیٰ کے قدیم مسکن اور سر زمین عراق کے روحانیمرکز بغداد شریف میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم سید عبداللہ گیلانی نے نومولود کا نام عبدالقادر رکھا اور عرفیت کمال الدین لیکن آپ مشہور عبدالقادر کے نام سے ہی ہوئے۔ آپ سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہٗ کی سولہویں پشت کی شمع روشن کئے ہوئے تھے۔
تعلیم و تربیت:
علوم دینیہ کی تکمیل مفتی بغداد علامہ سید یوف علی عطاؔ علیہ الرحمۃ کی نگرانی میں دارالعلوم قادریہ میں پائی۔ پھر قانون کی سند لاء کالج بغداد سے حاصل کی۔ اس کے بعد لندن اسکول آف اکنامکس سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویٹ کی سند پائی۔ اسی دوران وزیر مالیات عراق میں آپ کو ملازمت کی پیشکش کی گئی جو آپ نے قبول نہیں کی۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی انگریزی کالج سے سیکھی اس کے علاوہ درج ذیل زبانیں سیکھیں: اردو، پشتو، فارسی اور ترکی وغیرہ (عین القادر ۱۹۸۸ئ)
بیعت و خلافت:
آپ کے والد ماجد حضرت پیر سید عبداللہ جیلانی سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے اس کے بعد خلافت و اجازت سے نوازے گئے۔ اس کے علاوہ چچا محترم حضرت سید احمد عاصم جیلانی اور حضرت کامل اکمل پیر سید مصطفی گیلانی سے بھی خلافتیں عطا ہوئیں۔ بغداد شریف کے دیگر علماء کرام و مشائخ عظام سے بھی فیضیاب ہوئے تھے لیکن آپ سب سے زیادہ متاثر حضرت مصطفی گیلانی سے تھے، شنجرہ طیبہ میں آپ کے شیخ حضرت مصطفی گیلانی کا نام آتا ہے۔ آپ کے شجرہ طیبہ قادریہ کو حضرت مولانا ضیاء القادری (کراچی) نے اردو نظم کا جامہ پہنایا اور حضرت مولانا سید حامد جلالی بخاری نے اپنے مجلہ سہ ماہی عرم و عرفان کراچی کے شمارہ نومبر ۱۹۶۰ء میں شائع کیا ۔
شادی و اولاد:
آپ نے دوران ملازمت قاہرہ(مصر) میںجنوری ۱۹۳۴ء کو سیدہ ناہید الگیلانی صاحبہ کے ساتھ عقد مسنونہ کیا۔ سیدہ ناہید کے اجداد الجزائر سے منتقل ہو کر مصر آئے تھے۔ وزیر اعظم مصر جناب محمد سعید پاشا اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ملکہ مصر فریدہ ، سیدہ ناہید کی خالہ زاد بہن تھیں ۔ سید عبدالقادر جیلانی کی شریک حیات رجحان و اذہان، مزاج و مذاق ہر اعتبار سے ان کی مہم خیال رفیقہ تھیں۔ اولاد میں آپ کو اکلوتی بیٹی سیدہ نجدہ گیلانی تولد ہوئی۔ جس کی شادی آپ نے اپنے خاندان میں بغداد شریف میں کروائی۔ انہیں بھی ایک بیٹی سیدہ ’’نادیہ‘‘ تولد ہوئی۔
پاکستان میں قیام:
۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشہ پر ایک نئی اسلامی مملکت ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ابھری۔ جولائی ۱۹۴۸ء کو السید عبدالقادر الگیلانی مملکت عراق کے پہلے سفیر بن کر پاکستان تشریف لائے پھر کچھ عرصہ کیلئے عراقی نمائندے کی حیثیت سے عرب لیگ میں چلے گئے۔ لیکن ۱۹۴۹ء کو دوبارہ عراقی سفیر کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے۔ پاکستان میں مملکت عراق کے سفیر کبیر بن کر تشریف لائے تھے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ سرکار غوث اعظم جیلانی علیہ الرحمۃ نے پاکستان میں سلسلہ عالیہ قادریہ کی سفارت بھی ان ہی کے سپرد فرمائی تھی اور موصوف نے یہ دونوں فرائض جس خوش اسلوبی سے انجام دیئے اس کو عراق اور پاکستان دونوں ممالک کے عوام و خواص خوب جانتے ہیں۔ مارچ ۱۹۷۲ء کو وہ سفارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو پاکستان اور پاکستانیوں کی محبت و خلوص نے ان کو عراق واپس نہیں جانے دیا۔ آپ کا اصل کام ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنا ہی تو تھا ان کی قیام گاہ صحیح معنوں میں ایک روحانی مرکز تھا۔ ہر اتوار کو آپ کی قیام گاہ ’’الگیلانی‘‘ کے ڈی اے اسکیم (۱) (کارساز) میں محفل منعقد ہوتی تھی، عقیدت مندوںح اور اہل دل کا اجتماع ہوتا ۔ اذکار سید المرسلین ﷺ ہوتا ، تذکرہ غوث اعظم ہوتا، نعت خوانی ہوتی، مناقب اولیا پڑھیں جاتیں۔
محفل گیارہویں شریف کا انعقاد:
ہر سال ربیع الآخر کے مہینہ میں گیارہویں شریف کی محفل مقدسہ بہت شاندار طریقہ پر منعقد فرماتے، جس میں کراچی کے علاوہ دور دراز سے لوگ شرکت کیلئے کھنچے چلے آتے۔ ہزاروں کا مجمع ہوتا ۔ ۱۹۷۴ء کی بات ہے کہ گیارہویں شچریف کی محفل میں کراچی و بیرون کراچی کے لوگ اس قدر کثیر تعداد میں شریک ہوئے کہ مرحوم کی قیام گاہ کے باہر سڑک تک کافی بھیڑ بھاڑ تھی۔
ہوں گی آسان ساری تیری مشکلیں
صدق دل سے غوث کی کردے نیاز
دارالعلوم قادریہ کا قیام:
مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کیلئے کسی مرکز کی ضرورت محسوص کی گئی جو کہ آپ کی رہائش گاہ سے پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ چند مخلصین مریدین کے تعاون سے ۱۹۷۴ء کو ایس ٹی ۲ بلاک ۱۳، اے گلشن اقبال حسن اسکوائر یونیورسٹی روڈ (کراچی) پر پلاٹ خریدا گیا۔ دارالعلوم قادریہ المرکز قادریہ وہ خانقاہ کی تعمیر و ترقی کیلئے ایک کمیٹی بنائی بئی۔ آج ایک شاندار عمارت، بہترین مدرسہ، خوبصورت مسجد گلشن اقبال میں ہمارے سامنے ہے جہاں انہوں نے خود بھی آسودہ خاک ہو کر اس کی عظمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ دارالعلوم میں علماء تدریس کیلئے مقرر ہیں درس نظامی کی تعلیم بھی جاری ہے علم کے پیاسے پیاس بجھارہیہیں ار پیر صاحب کیلئے صدقۂ جاریہ ہے۔
جذبہ خدمت:
آپ اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کو کسی ایسے شعبہ سے وابستہ کرنا چاہتے تھے جو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا ذریعہ بھی بن سکے۔ اسی جذبہ کے تحت عراق کی متعدد ایسی تنظیموں اور اداروں سے وابستہ رہے جہاں اسلام دوستی کا مظاہرہ ممکن تھا۔ بعد ازاں مصر میں عراقی سفارت خانے کے نائب سفیر کے فرائض انجام دینے پر مامور ہو کر قاہرہ چلے گئے۔ وہاں ایک اعلیٰ خاندان میں شادی ہوئی اس کے بعد مصر سے عراق تشریف لائے۔ ان دنوں دوسری جنگ عظیم شرو ع ہوئی تو عراق بھی انگریزوں کے پنجہ سے نہ بچ سکا، انگریزوں کی حکومت سے مقابلہ کرنے والوں اور مخالفت کا عظم رکھنے والوں میں عراق کے مشہور انقلابی رہنما سید رشید علی گیلانی کی قیادت میں سید عبدالقادر گیلانی اور ان کا خاندان پیش پیش تھا، لہٰذا انگریز حکومت نے آپ اور آپ کے خاندان کے دیگر با اثر افراد کو گرفتار کرکے افریقہ بھیج دیا، پورے چار سال بعد آپ کو اسیری سے نجات ملی، حالات کا رخ پلٹا ، زمانہ کا رنگ بدلا ، دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور اس کے ساتھ ہی انگریز حکومت کی کمر ٹوٹ گئی، یونین چیک کے سایہ سے عراق مصر اور ایران وغیرہ کو نجات ملی۔
مسند رشد و ہدایت:
آپ تمام عمر اپنے جد اعلیٰ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے نصب العین اور ان کی تعلیمات کو تازہ کرنے کی جد و جہد کرتے رہے ہر چند انہوں نے اپنا مسکن کراچی(سندھ) کو ہی بنائے رکھا لیکن ان کا دائرہ اصلاح و ہدایت پورے پاکستان کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔
خلفائ:
آپ کے بعض خلفاء کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
٭ جناب سید عمر عبداللہ آف کومورون افریقہ
٭ مولانا سید غلام جیلانی القادری مصنف و مدرس دارالعلوم قادریہ گلشن اقبال
٭ حضرت پیر عبدالحمید قادری دیول شریف ضلع راولپنڈی
٭ جناب صوفی غلام اکبر قادری درگاہ جھوک شریف ضلع ٹھٹھہ سندھ
٭ جناب غلام دستگیر صاحب ڈھاکہ بنگلہ دیش
٭ جناب عبدالعزیز خان عرفیؔ ایڈوکیٹ الیوسف چیمبر کراچی
وصال:
پیر سید عبدالقادر گیلانی کی صحت کچھ عرصہ سے خراب تھی اور یہ صحت ۱۱ فروری ۱۹۷۵ء سے زیادہ بگڑی جب کہ آپ کو ایک عظیم صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اس دن آپ کی رفیق حیات سیدہ ناہید گیلانی نے داغ مفارقت دیا۔ ۲۵ مارچ کو سعودی بادشاہ شاہ فیصل کی برسی کے سلسلے میں ایک جلسہ میں شریک ہوئے اور ۲۴ ربیع الاول ۱۳۹۶ھ مطابق مارچ ۱۹۷۲ء بروز جمعہ کو عراق سے آئے ہوئے چند لوگوں کو دوپہر کی دعوت دی ان کے ساتھ کھانا کھایا، ۳ بجے مہمان رخصت ہوئے اور آپ آرام کیلئے خواب گاہ میں تشریف لے گئے۔ عصر کے بعد اپنے سیکریٹری محدم احمد خان قادری کو بلایا اور دل میں درد کی شکایت فرمائی۔ ڈاکٹروں کو فون کرکے اطلاع دی لیکن ڈاکٹروں کے پہنچنے سے قبل ہی آپ نے ۷۱ سال کی عمر میں جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپ کے قائم کردہ المرکز القادریہ میں تدفین عمل میں آئی۔ مزار شریف پر مریدین نے عالیشان گنبد تعمیر کروایا ہے جہاں ہر سال عرس شریف اور مدرسہ کے طلباء کی دستار فضیلت کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ تمام اہتمام آپ کی قائم کردہ کمیٹی ، مریدین کے عطیات سے بخوبی انجام پاتی ہے اور آپ کا پاکستان میں کوئی سجادہ نشین نہیں ہے ۔ سارا کام کمیٹی کے سپرد ہے۔
الحاج قاری قاضی عبدالحفیظ خان قادری حفیظؔ خطیب جامع مسجد صابری رنچھوڑ لائن جناح اسٹریٹ کراچی نے آپ کی شان میں منقبت کہی جو کہ درج ذیل ہے:
اے کمال الدین گل خوش رنگ بستان رسول
فیضیاب دیدہ پر کیف فیضان رسول
صاحب گنجینہ عرفان، آپ اولاد علی
تم پر ہے سایہ علی کا اور ہو جانِ علی
شعلہ جوالہ ایمان تیرا حسن و جمال
آفتاب قادریت، تیری شان جلال
عکس دو خیر ہے تیرے گھرانے کا نظام
عبدالقادر تو جہانِ اعلیاء ہے لا کلام
اٹھ گئی ہے جس طرف تیری نگال التفات
رقص فرمانے لگی ہے مستی عالم حیات
خضر ارباب طریقت ہے تیرا نقش قدم
رہبر راہ شریعت ہے تیرا نقش قدم
غوث اعظم کے کرم سے جو تیرا کردار ہے
عشق کے خورشید میں تو مطلع انوار ہے
تیری خلوت انجمن ہے عالم اسرار کی
انجمن اک خلوت دل حلقۂ اخیار کی
گفتگو سے معرفت کے پھول برساتارہا
جلوہ یزداں سے بخت شوق چمکاتا رہا
تیرے در سے نسبت سجدہ جسے بھی مل گئی
ہر کلی اس کے چمن زار عمل سے کھل گئی
اس جہان میں یہ ’’حفیظ‘‘ گواہی بن گیا
جو بھی ان کا ہوگیا وہ ’’غلام جیلانی بن گیا
(ماخوذ : مجلہ عین القادر، مطبوعہ المرکز القادری گلشن اقبال کراچی ۱۹۹۰ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)