پروفیسر فیاض احمد خان ’’کاوش ‘
پروفیسر فیاض احمد خان ’’کاوش ‘ (تذکرہ / سوانح)
‘
صاحب طرز ادیب ، دوست قدیم فیاض احمد خان بن فیض محمد خان پٹھان ۱۹۳۷ء کو شہراٹا وہ ( یو پی ۔ بھارت ) میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ۱۹۵۲ء میں ’’اسلامیہ ہائی اسکول اٹاوہ ‘‘ سے میٹرک کیا۔ قرآن ناظرہ مدرسہ تعلیم القرآن اٹاوہ سے ختم کیا۔ اہل علم و ادب کی صحبت کے سبب آپ کا علمی ادبی ذوق خوب پروان چڑھا۔ ۱۹۵۲ء میں ہندوستان سے پاکستان تشریف لائے اور میر پور خاص ( سندھ ) کو مستقل مسلکن بنایا۔ شاہ عبداللطیف گورنمنٹ ڈگری کالج میر پور خاص سے بی اے اور سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے ( اردو ) امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ’’حب درویشاں ‘‘اور’’ صحبت صالحین‘‘کا عمل جاری رکھا ۔ جس سے زندگی میں نکھار پیدا ہوا۔
بیعت :
سلطان التارکین حضرت حافظ سید وارث علی شاہ ’’وارث ‘‘کاظمی ؒ ( متوفی ۱۹۰۴دربار وارثیہ دیوہ شریف ضلع بارہ بنکی ، یوپی ، بھارت ) کے سلسلہ عالیہ چشتیہ وارثیہ میں بیعت ہوئے۔
اور انہی کی شان و عظمت میں کتاب ’’آفتاب ولایت ‘‘تحریر فرمائی۔ انتساب میں لکھتے ہیں :
اس حسین خواب کے انم جس میں سر کار وارث پاک نے مجھے دیوہ شریف بلوایا۔ اپنا آستانہ دکھایا۔ روبرو بٹھایا۔ اپنا بنایا۔ اور چلتے وقت اپنے دست خاص سے تبرک عطا فرمایا۔ ( آفتاب ولایت ) اس سے معلوم ہوا کہ آپ وارث پاک کے سلسلہ اویسیہ کی طرز پر مرید تھے ۔
درس و تدریس :
دوران تعلیم آپ نے ملازمت شروع کر دی ، پہلے کلکٹریٹ تھر پار کر میں بحیثیت سر شتید اد مقرر ہوئے لیکن دل مائل نہ ہو سکا بالآخر آپ کے دل کی دعا نے اجابت پائی اوردل پسند تدریسی شعبہ سے وابستہ ہوئے یعنی گورنمنٹ ہائی اسکول میر پور خاص میں استاد مقرر ہوئے ۔ اس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج شکار پور میں بحیثیت لیکچرارمقرر ہوئے۔ چند سال بعد آپ کا تبادلہ میر پور خاص ہوا جہاں شاہ عبداللطیف گورنمنٹ ڈگری کالج میں ریٹائر منٹ ۱۹۹۶ء تک نونہال وطن کی تعلیم و تربیت جیسے اہم و بنیادی کام میں مصروف رہے۔
شاعری :
شاعری کا پاکیزہ ذوق بھی رکھتے تھے۔ محمد اکرم قریشی صاحب آپ کی شاعری سے متعلق لکھتے ہیں : ’’کاوش نے اپنے احساسات جذبات اور قلبی واردات کے اظہار کے لئے نثر کا سہارا بھی لیا اور نظم کا بھی۔ آپ بیدار ذہن ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حساس دل شاعر بھی تھے۔ شعر ی میدان میں آپ نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ مگر زیادہ رجحان نعت شریف کی طرف رہا۔ آپ کا نعتیہ مجموعہ کلام ’’نورونکہت ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے جس میں حمد ، نعت ، سلام اور منقبت سبھی شامل ہیں ۔ کاوش لکھتے ہیں :
کھلے پھول سارا چمن مسکرایا
یہ کون آج آیا سویرے سویرے
کہ مرغان گلشن میں ہر سو ہے چرچا
یہ صل علیٰ کا سویرے سویرے
آپ کا لہجہ منفرد اور طرز سخن شگفتہ ہے ۔ اشعار میں سلاست ، بے ساختگی ، سوزو تاثیر ، شگفتگی و شیفتگی معنی آفرینی و بلند خیالی سے بھر پور ہیں ‘‘ ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ کا نعتیہ کلام محبت رسول سے لبریز ہے۔
خطا کر رہا عطا چاہتا ہوں
ترے فضل کی انتہا چاہتا ہوں
آپ کی مشہور نعت ’’توں چلا ہے کس سے ملنے ‘‘ کو حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر سراہا اور ملک پاکستان کا سب سے بڑا نعتیہ ایوارڈ ’’صدارتی ایوارڈ برائے نعت ( اردو ) ‘‘عطا کیا۔ یہ ایوارڈ آپ کو اسلام آباد میں سالانہ قومی سیرت کانفرنس کی تقریب کے موقع پر جنرل ضیاء الحق نے پیش کیا۔
حضور پر نور سید عالم ﷺ کے ’’سراپا شریف ‘‘کو وجدانی انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ سنیئے اور مسرور ہوئیے :
آنکھیں حضور کی ہیں کہ رحمت کے میکدے
ہر ہر نظر ہے نشہٗ ایماں لئے ہوئے
چہرہ حضور کا ہے کہ قرآن کھلا ہوا
ہر ہر ادا ہے رفعت ایماں لئے ہوئے
ہونٹوں پہ مسکراتا ہوا پہلی شب کا چاند
تابانی و ضیائے فراواں لئے ہوئے
عادات و خصائل :
کاوش کی نوجوانی کا اکثر حصہ محافل شعر و سخن و نظامت میں گذار ۔ لیکن پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب سے شاہ عبداللطیف کالج میر پور خاص میں شرف تلمیذ کے بعد آپ بتدریج مذہب کی جانب راغب ہوئے، ڈاکٹر صاحب کی صحبت نے رنگ چڑھایا، آپ میں تبلیغ دین کے لئے ولولہ پیدا ہوا، کئی دینی کتابیں تحریر کرنے کی تحریک پیدا ہوئی ۔
کاوش فطر تا سادہ طبیعت کے مالک ، درویش منش، بے نفس ، خاک نشین ، اسلام اور سنیت کے دردو احساس سے سر شار ، خدمت دین کے ساتھ خدمت خلق سے بھی سرشار تھے۔ پیکر اخلاق و محبت ، مہمان نواز ، غریب پرور انسان تھے ۔ وہ رات میں گھر گھر محفل میلاد کا انعقاد کرکے نوجوانوں کی اعتقادی و نظریاتی تربیت فرماتے تھے تو دن میں کالج میں نوجوانوں کو اپنے اعلیٰ کردار ، حسن اخلاق کے بل بوتے پر متاثر کیا ان کی تعلیم کے ساتھ تربیتی ضرورت کو بھی بحسن طریقے سے پورا کرتے ۔ وہ سراپا تحریک رہے ایک جان ہو کر ہزاروں پر بھاری رہے یہ ان کا کام ہے جو آج بھی میر پور خاص شہر کے لوگ انہیں بھولے نہیں بلکہ یاد کرتے ہوئے آنکھیں تر اور گلا بھاری ہو جاتا ہے۔
میر پور خاص میں دارالعلوم اہل سنت رضویہ آدم ٹاوٗ ن کے قیام کے سلسلہ میں حصول پلاٹ کے لئے آپ کی جدوجہد اور جانفشانی یاد رکھی جائیں گی۔
وہ شاگردوں کو اولاد جیسا سمجھتے تھے اگر وہ گھر پر آجائیں تو بیٹھک میں بٹھاتے خاطر تواضع کرتے علمی رہنمائی فرماتے لیکن ٹیوشن فیس لینے کے قائل نہیں تھے ۔ آپ نے زندگی مصروف گذاری اور ایک مقصد کے حصول میں لگادی ۔
۲۰، فروری ۱۹۹۹ء کو محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مدظلہ میر پور خاص تشریف لائے ان کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں سندھی زبان میں تبلیغ و اشاعت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ بالآخر ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا نام ’’شرکت اسلامیہ ‘‘تجویز کیا گیا۔ شرکت اسلامیہ پروفیسر فیاض کاوش کی رہنمائی میں ترقی کی راہ پر لگا اور ڈاکٹر صاحب کے بعض رسائل کا سندھی ترجمہ شرکت اسلامیہ میر پور خاص کے پلیٹ فارم سے بڑی آب و تاب سے شائع ہوئے ۔
انداز محبت :
پروفیسر فیا ض کاوش نامور بلند پایہ کے ادیب اور صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر تھے اسلام و سنیت کے جذبہ سے سر شار اور تبلیغ دین میں سرمست رہتے ۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ہمیں متاثر کیا۔ ہمارا آپس میں رابطہ تھا، محبت تھی، الفت تھی ، ایک دوسرے کے خطوط کا انتظار رہتا تھا، کتابوں کا تبادلہ رہا لیکن تمام محبت کے باوجود بظاہر ملاقات نہ ہو سکی جب بھی پروگرام بنا کوئی نہ کوئی مسٗلہ کھڑا رہتا اس کے علاوہ تحریری و اشاعتی مصروفیات ساتھ میں تھیں انہی دنوں حیدر آباد میں ’’ادارہ پیغام رضا ‘‘قائم کیا تھا جس کے تحت سندھی لٹریچر شائع ہوا اور مفت تقسیم ہوا ۔ لیکن وہ ہر بار ہمیں مدعو کرتے رہے اور ہم معذرت پیش کرتے رہے ۔ ’’سندھ کے دو مسلک ‘‘ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اس پر دو حرف بھی تحریر فرمائے جو کہ مقالے کے ساتھ شائع ہوئے ۔ وہ ہم سے عمر میں بڑے تھے پرانے لکھاری تھے جب کہ ان دنوں ہم نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ اس کے باوجود بہت چاہتے تھے اور اسی چاہت کے نظارے ان کے مکتوبات مین نقش ہیں لیکن ان کے تمام خطوط محفوظ نہیں ، جو محفوظ ہیں ان کے چند اقتباس پیش خدمت ہے۔ ایک طرف انداز تحریر ملا حظہ فرمائیں کہ ہر لفظ معطر معطر معلوم ہو گا اور دوسری طرف عدم ملاقات کے باوجود ہم ایک دوسرے کے بہت قریب تھے یہ رشتہ فقط مسلک کا رشتہ تھا، جس نے دوریاں ختم کر دی تھیں ۔
ایک خط جو انہوں نے ۲۴، اکتوبر ۱۹۹۴ء کو تحریر فرمایا تھا یہ ابتدائی مکتوب محسوس ہوتا ہے رقمطراز ہیں :
’’سر زمین سندھ میں امام احمد رضا کی مقبولیت ‘‘ والا مضمون جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، خاصہ کی چیز ہوگا۔ اس کو معارف رضا کراچی میں ضرور شائع کرائیے اس کے پڑھنے کے لئے دل بے چین ہے اور آنکھیں منتظر ۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
آپ کی اردو بھی بہت پختہ ہے، تحریر بہت نفیس اور انداز بیان موثر ہے۔ ہاں ! یہ تو بتائیے کہ اب تک آپ کہاں چھپے رہے؟
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی !
چشم بدور ۔ آپ میں کس قدر صلاحیتیں موجود ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ آپ ہم اہل سنت کے لئے سرمایہ افتخار ہیں ۔ ہاں ! یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ انجمن پیغام رضا حیدرآباد کے شائع کردہ لٹریچر کو عام کرنے کے لئے پمفلٹ اور اشتہارات کے ذریعے تشہیری کی نیز ملک کے وقیع اور وسیع اخبارات و رسائل ( مقامی سندھی اخبارات ) میں بھی تشہیر عام کی۔ کیوں کہ یہ دور ہی ایڈور ٹائز منٹ کا ہے چنانچہ آپ تقاضا ئے وقت کے عین مطابق رسائل و جرائد میں تبصرہ و اعلان نشر کراتے رہتے ہیں ۔ یہ بہت اچھا کرتے ہیں ۔ ہوشمندی کا یہی تقاضہ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ مختلف لائبریریوں کالجوں اور یونیوسٹیوں کو نیز ملک کے ججوں منسٹروں اور دانشوروں کو انجمن کالٹریچر بہم پہنچاتے ہیں ۔ اس سے خواص کے ذہن بنیں گے جس سے وہ عوام پر اثرد انداز ہوں گے اور آپ نے تو عوام و خواص دونوں طبقوں ہی کو نوازا ہے۔ جزاک اللہ ‘‘۔
وہ جب کسی کی تعریف کرتے تو دل کھول کر کرتے تھے ، چھوٹوں کی ہمت افزائی میں کمال رکھتے تھے وہ کسی بخل کا شکار نہیں تھے قلب و نظر میں وسعت رکھتے تھے۔ ۱۷، جنوری ۱۹۹۵ء کے خط میں لکھتے ہیں :
’’آپ کے خوبصورت خط میں لکھے ہوئے حسین گرامی نامے نظر نواز ہوئے ۔ شب برات کی شب بیداری کی سعادتیں حاصل کر کے دن چڑھے بیدار ہوا تو سب سے پہلے آپ کے گرامی نامے پر نظر پڑی ۔ سبحان اللہ !
خوشنویسی کا شاہکار ہے آپ کی تحریر دلپذ یر ، الفاظ ہیں کہ ہیرے موتی جڑے ہیں ۔ انداز بیان ہے کہ انوار کا آبشار ہے جس میں سراپا نہا گیا۔ خط پڑھ کر ایک نئی تازگی ، توانائی اور نئی زندگی ملی ۔ جزاک اللہ !یاد آوری کا شکریہ ! ‘‘یہ تمام تحریری خوبیاں پروفیسر فیاض صاحب میں بہ اتم موجود تھیں ، فقیر طفل مکتب کا یہ مقام کہاں ، یہ تو حسن نظر تھا۔ جس طرح اچھے کو ہر طرف اچھائی نظر آتی ہے اسی طرح وہ بلند پایہ ادیب تھے اس لئے ان کو ہر ایک میں وہ ہی خوبی نظر آتی تھی ۔ پروفیسرصاحب گرمی کی چھٹیوں میں قافلے کے ساتھ مٹھی( تھر ) کے لئے ہر سال تشریف لے جاتے تھے، وہ اسی خط میں آگے جاکر لکھتے ہیں :
’’آپ کے ارسال کردہ نورانی کتب بر وقت موصول ہوئیں ہمارے ساتھ تھر کے دورے پر گئیں اور وہاں حضرت مسعود ملت ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب ہی کے دست مبارک سے تقسیم ہوئیں ۔ باقی کچھ مولوی عطا محمد درس ( پیش امام جامع مسجد مٹھی ) کو اندورن تھر تقسیم کرنے کے لئے دے دی گئیں ۔ آپ نے میرے ارسال کردہ پتوں پر بھی کتب ارسال کیں جزاک اللہ ۔ متعلقہ حضرات سے کتب کی ترسیل کی بھی تصدیق ہو گئی ہے ۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ ہمارے متمول حضرات کتب کے تحفے تو شوق سے وصول کر لیتے ہیں لیکن اپنی طرف سے مالی معاونت کرنے میں وہ ذوق و شوق نہیں دکھاتے ۔ خالی خولی زبانی جمع خرچ بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر روپیہ خرچ کرنے میں بڑی کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سندھی زبان میں جو آپ تبلیغی لٹریچر شائع کر رہے ہیں وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ ڈھونڈنے سے اس کی مثال نہیں ملتی، جو آپ جیسا وسیع انداز میں کام کر رہا ہو۔ آج کے دور میں اشاعرت مسلک کے لئے لٹریچر سب سے بڑا آرگن ہے۔ لٹریچر ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہے جو باطل قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دے گا۔
اور پھر آج کے دور میں ہر گھر میں پڑھے لکھے لڑکے لڑکیاں موجود ہیں، وہ اپنے مسلک کی حقانیت کے بارے میں دلائل مانگتے ہیں۔ الحمد للہ! کہ ہمارے اسلاف بزرگان اہل سنت اپنے مسلک کے حق میں دلائل و براہین کے انبار چھوڑ گئے ہیں، اگر ہم انہیں سمیٹ کر مختصر مختصر سادہ زبان میں اپنے عوام اہلسنت تک پہنچادیں تو بڑا کام ہو۔ اور وہ کام آپ کے ذریعہ ہورہا ہے۔ سبحان اللہ، جزاک اللہ۔
۵ نومبر ۱۹۹۵ء کے مکتوب میں رقمطراز ہیں:
’’آپ کے ارسال کردہ ملفوف گرامی اور گراں مایا کتب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ حسب الارشاد آپ کے ارسال کردہ فارم علمائے کرام تک پہنچوا رہا ہوں۔ گذشتہ ہفتوں سے طبیعت ناساز رہی، شاگرد عزیز قدر اللہ بیگ عارف نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ جزاک اللہ‘‘
اس سے اندازہ فرمائیں کہ ۱۹۹۵ء سے سندھ کے مرحوم علمائے اہل سنت کے حالات زندگی پر فقیر کام کر رہا ہے، شروع شروع میں سندھ بھر میں فارم تقسیم کئے لیکن کوئی اثر نہ وہا، ان کے شاگردو و متعلقین سوتے پڑے رہے اپنی ذمہ داری سے غافل ، ٹس سے مس نہ ہوئے اس کے بعد ہم نے بڑی جانفشانی و عرق ریزی سے فہرست علماء سندھ تیار کی اور پھر خود دورے کئے اور ہر علاقے میں اپنے متعلقین کے ذمہ یہ کام لگایا اور وہ بھی جوتیاں رگڑتے رہے تب جا کر یہ حسین و عظیم و ضخیم تاریخی کتاب انوار علماء اہل سنت (سندھ) تیار ہوئی۔ آج پروفیسر صاحب ہماری بزم میں ہوتے نہ معلوم کتے خوش ہوتے اور فقیر کی سعی بلیغ پر مبارکباد کے ڈھیر سارے خطوط تحریر فرماتے۔
آج ہر لمحہ ان کی یاد تڑپاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی عظیم نعمتوں سے بہرہ مند فرمائے اور ہمارے لئے دعا گو بنائے۔ آمین
اسی مکتوب کے آگے جاکر رقمطراز ہیں:
’’سندھ کے دومسلک‘‘ کی پزیرائی تو ہونا ہی تھی کیونکہ آپ نے خلوص اور در مندی کے ساتھ وقت کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور وق کے بڑے بڑے امروٹی جیسے ’’ابولہول‘‘ کے بت کو تیشۂ حق سے پاش پاش کیا ہے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔ سبحان اللہ ۔ جزاک اللہ!
۲۵ ستمبر ۱۹۹۵ء میں رقمطراز ہیں:
’’سندھ کے دو مسلک ’’کتاب سندھی زبان میں بھی چھپنا چاہئے بلکہ پہلا ایڈیشن سندھی زبان ہی میں چھپنا چاہئے تھا کہ اس کی یہاں والوں کو زیادہ ضرورت ہے تاکہ اپنا بھولا ہوا سبق یاد کر سکیں۔ اور یہ اردو زبان میں بھی چھپی تو یہ بھی ضروری تھا کہ یہ تو ایک تاریخی دستاویز ہے، جس کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہئے۔ سبحان اللہ! ‘‘ جس مدرسہ کی تعمیر میں خون لہو بہایا جب وہ تیار ہوگیا تو انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور مدرسہ کی زبوں حالی کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
’’دارالعلوم اہل سنت رضویہ کی وسیع ع عریض خالی خولی عمارت بھائیں بھائیں کر رہی ہے مزید کمرے تعمیر پہ تعمیر ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن پڑھانے والا کوئی نہیں۔ اب تک دھاڑی بنانے والے مولوی ملتے رہے جو مار مار کر بچوں کی تعداد کم کرتے رہے۔ جب منتظمین صاحبان سے کچھ نہ ہوسکا تو مدرسہ جمعیت علمائے پاکستان کی ورلڈ اسلامک مشن کے حوالہ کر دیا ہے جن کے عہدیدار کبھی بھول کر بھی اس طرف نہیں آتے۔ ایک مولوی سہ پہر کو تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹی کیلئے آتا ہے ۔ جلد سے جلد بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اسی آبادی میں گھر گھر ٹیوشن پڑھاتا ہے۔
جب انتظامیہ سے شکوہ کیا جاتا ہے توجواب دیا جاتا ہے کہ لے آیئے کوئی اچھا سا مولوی اس کو تنخواہ دے دی جائے گی…‘‘
اس پیراگراف میں ہم اپنی غلطی، کوتاہی اور غفلت کا جائزہ لے سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ذمہ داری نبھانے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
ایک مقام پر میری غفلت (یا بے سروسامانی کہیں) پر ٹوکتے ہوئے بھی قلمکاری کے رنگ کھلاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ پیر صاحب قبلہ کو کیا یہ نہیں معلوم کہ خطوط انسان کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور پھر آپ جیسی بلند و بالا شخصیت کے خطوط تو ایسے گئے گزرے نہیں کہ انہیں پڑھ کر طاق نسیان کی نذر کر دیا جائے بلکہ میں تو اکابرین کے خطوط کا ریکارڈ رکھتا ہوں جوبعد میں کتابی صورت میں شائع ہونے کی صورت میں کام آتے ہیں…‘‘
دیکھئے وہ ہر بات خاص طریقے اور سلیقے سے کہنے کے عادی تھے، کہیں بھی قلم جذبات کی د میں نہیں آتا خشک موضوع پر بھی وہ بد مزہ نہیں ہوتے بلکہ ایسے مقام پر بھی پھول بکھیرنا ان کا کام تھا۔ وہ صحیح طور پر قلم کے دھنی تھے، اردو زبان و ادب پر پوری دسترس رکھتے تھے۔
تصنیف و تالیف:
محترم پروفیسر فیاض احمد کاوش صاحب طرز ادیب اور منفرد لہجہ کے شاعر تھے روان برجستہ اور شگفتہ انداز بیان آپ کی انفرادیت تھی۔ وہ جب لکھنے بیٹھتے تھے تو مسلسل اور بے تکان لکھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں آوردگی کی بجائے آمدہی ہی آمد نظر آتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جو کچھ بھی لکھتے حضور پاک ﷺ اور اولیاء اللہ کی محبت میں ڈوب کر لکھتے ۔ اسی رواں و سحر انگیز قلم سے انہوں نے چھوٹے بڑے رسائل تقریباً ۲۶ تحریر فرمائے ان میں اکثر مطبوعہ ہیں۔
اس کے علاوہ پاک وہ ہند کے مؤقر علمی و ادبی جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔
٭ بنی امی ﷺ کی فصاحت و بلاغت
طبع اول بزم عاشقان مصطفی لاہور ۱۹۹۹ء ، طبع دوئم مکتبہ امام غزالی کراچی ۲۰۰۳ء
٭ اسلامی عقائد (حصہ اول و دوئم )
جماعت اہل سنت میر پور خاص ۱۹۸۱ء
٭ پیران پیر
طبع اول برکاتی پبلشرز کراچی ۱۹۸۷ء ، اس کتاب کے پاک و ہند سے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔
٭ گلستان درود و سلام
دارالعلوم اہل سنت رضویہ میر پور خاص ۱۹۹۲ء
٭ تعلیم الایما ن( حصہ اول و دوئم )
جماعت اہل سنت حیدر آباد ۱۹۹۱ء
٭ گیارہویں شریف کی حقیقت
سنی لٹریری سوسائٹی لاہور ۱۹۹۴ء
٭ نور و نکہت ( دیوان کاوش )
اسلامی کتب خانہ سیالکوٹ
٭ آفتاب ولایت
حافظ وارث علی شاہ ( وارثی سلسلہ کے پیشوا ) کی مکمل سوانح
حیات مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ۱۹۹۰ء
٭ خواجہ معین الدین چشتی
شرکت اسلامیہ میر پور خاص ۱۹۹۹ء
٭ امام اعظم ابو حنیفہ کا قبول منصب قضاء سے انکار ۔ مضمون نور اسلام شرقپور شریف کا امام اعظم نمبر ۱۹۷۵ء میں شامل ہے۔
٭ امام اعظم ابوحنیفہ اسباب شہادت ۔ یہ مضمون ’’انوار امام اعظم ابو حنیفہ ‘‘ مطبوعہ مکتبہ امام غزالی کراچی ۲۰۰۳ء میں شامل ہے۔
٭ مختصر سوانح مولانا احمد رضاخان ،
رضا انٹر نیشنل اکیڈمی صادق آباد ۱۹۹۰ء
٭ تبلیغی جماعت کا اعلان وہابیت ، طبع اول
ادارہ تصنیفات امام احمد رضا کھارادر کراچی ۱۹۸۲ء
٭ شیطان کی آنت ( نجدیت کا ردبلیغ ) ، طبع اول دارالکتب حنفیہ کھارادر کراچی ۱۹۸۴ء
٭ ننگ دیں ، ننگ وطن ، تحریک بالا کوٹ کی نقاب کشائی طبع اول برکاتی پبلشرز کراچی ۱۹۸۷ء
٭ احمد ی مسلمان نہیں ہیں ( سندھی ) یہ پمفلٹ ختم نبوت کے موضوع پر ہے میر پور خاص سے شائع ہوا۔
٭ دارالعلوم دیوبند کی کہانی علماء دیوبند کی زبانی ( غیر مطبوعہ )
٭ دیدہ و دانستہ (غیر مطبوعہ )
٭ اسماعیلی معبود اسماعیلی خوجہ شیعہ کے باطل نظریات کے خلاف مطبوعہ ، الجمعیۃ القادریہ کراچی
شادی و اولاد :
آپ نے میر پور خاص میں شادی کی ۔ ان سے دو بیٹے (۱) اعجاز احمد خان ( ۲) رفیق احمد خان اور سات بیٹیاں تولد ہوئیں ۔
تلامذہ:
کالج کے زمانہ میں بے شمار شاگردوں نے آپ سے استفادہ کیا ہو گا۔ بعض قریبی شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں ۔
٭ قدرت اللہ بیگ مرتبہ نذر کاوش مطبوعہ شرکت اسلامیہ میر پور خاص
٭ حافظ عبدالرزاق مہران سکندری سانگھڑ
٭ مرزا اعظم بیگ سابق صدر ایوان صنعت و تجارت میر پور خاص
٭ پروفیسر عبدالرحمن گورنمنٹ ابن رشد گرلز کالج میر پور خاص
٭ تاج محمد چشتی ایڈیٹر سہ ماہی پیغام چشت میر پور خاص
٭ محمد باسط اللہ بیگ میر پور خاص
٭ سہیل انور جنرل سیکریٹری بیکانیر و یلفیئر ایسوسی ایشن میر پور خاص
وصال :
پروفیسر فیاض احمد خان کاوش دو ماہ علیل رہنے کے بعد ۲، رجب المرجب ۱۴۲۰ھ بمطابق ۱۲، اکتوبر ۱۹۹۹ء بروز منگل دوپہر کو ۴۵: ۱۱ منٹ پر ۶۲سال کی عمر میں انتقال کیا۔
ان کی وصیت کے مطابق پیکر اخلاص محترم محمد شریف بھائی نے انہیں غسل دیا۔ عبدالرحمن قادری نے ارشاد کے مطابق نعت شریف پڑھی ۔ نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب نے دارالعلوم اہل سنت رضویہ میر پور خاص کے صحن میں نماز جنازہ پڑھائی۔ جلوس میت کے ساتھ مسلسل نعت خوانی ہوتی رہی۔ وصیت کے مطابق حضرت خواجہ سید عبدالمجید شاہ چشتی المعروف پیر بابا سخی ؒ ( واقع سید فارم میر پور خاص ) کے احاطہ مزار میں مدفون ہوئے۔
حضرت حکیم پیر سید اکرام حسین شاہ سیکری ( حیدرآباد) نے مادہ تاریخ وفات کہا:
’’سال انتقال شمع دانش، کاوش مرحوم‘‘ ۱۹۹۹ء
[نجی خطوط اور فہرست تصانیف کے علاوہ مواد ’’نذرکاوش ‘‘مطبوعہ شرکت اسلامیہ میر پور خاص ۱۹۹۹ء سے ماخوذ ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت )