پروفیسر حامد حسن قادری
پروفیسر حامد حسن قادری (تذکرہ / سوانح)
مولانا الحاج پروفیسر حامدحسن بن مولانا احمد حسن ۲۹ جمادی الآخرہ ۱۳۰۴ھ/۱۰ مارچ ۱۸۸۷ء کو بچھرائوں ضلع مراد آباد (یو۔پی بھارت) میں تولد ہوئے۔ سلسلہ نسب عارف کامل حضرت بابا فرید الدین مسعود چشتی گنج قدس سرہ الاقدس (آستانہ عالیہ پاکپتن شریف ضلع ساہیوال) سے جا ملتا ہے اس بنا پر آپ فاروقی اور فریدی بھی کہلاتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد اسٹیٹ ہائی اسکول رامپور سے ۱۹۰۹ء میں میٹر پاس کیا پھر مدرسہ عالیہ رامپور میں داخل ہو کر فارسی اور عربی کی تحصیل کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہو رسے منشی فاضل اور اردو فاضل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ایف ۔ اے کیا۔
درس و تدریس:
غالباً ۱۹۲۳ء میں ندوۃ العلماء لکھنو کا سالانہ جلسہ حلیم ہائی اسکول کانپو رمیں منعقد ہوا جس کی صدارت حکیم محمد اجمل خان دہلوی فرمارہے ت ھے۔ ان دنوں آپ حلیم مسلم ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ آپ نے ’’عربی لسانیات‘‘ پر ایک بلند پایہ علمی مقالہ پڑھا جس سے حاضرین عش عش کر اٹھے۔ نواب صد ر یار جنگ حبیب الرحمن شروانی نے جوش طرب میں پیشانی چوم لی، حکیم اجمل خان نے کرسی صدارت سے اٹھ کر بے اختیار گلے لگا لیا اور پر جوش الفاظ میں داد دی اور سید سلمان ندوی نے کہا : جزاک اللہ! آپ نے ہمارا کام انجام دیا ہے۔ دیگر مشاہیر نے بھی آگے بڑھ کر داد تحسین کے ٹوکرے برسائے۔
کانپور، اٹاوہ اور بڑودہ میں شاندار تعلمی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۲۷ء کو سینٹ جانسن کالج آگرہ میں پروفیسر ہوگئے۔ ۱۹۴۵ء کو اپنے برادر اکبر مولانا پروفیسر عابد حسن فریدی (۱۸۷۹ئ۔۱۹۴۵ء ) وصال پر صدر شعبہ اردو، فارسی بن گئے۔ ۱۹۵۱ء کو ریٹائر ہوئے۔
بیعت و خلافت:
دسمبر ۱۹۲۷ء کو علی پور شریف (ضلع نارووال پنجاب) حاضر ہو کر امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور ۷ جولائی ۱۹۴۵ء کو حضرت امیر ملت آگرہ تشریف لائے توآپ کو خلافت سے نوازا۔ آپ ’’قادری‘‘ اسلئے کہلاتے تھے کہ بیعت ہونے سے قبل آپ کے بھائیوں اور چچازاد بھائیوں نے ایک دن گھر میں بیٹھ کر فیصلہ کای کہ اپنے اپنے نام کے ساتھ لقب لگانا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ قادری آپ کے بڑے بھائی پروفیسر عابد حسن نے فریدی اور آپ کے چچازا د بھائی پروفیسر محمد طاہر نے فاروقی لقب اختیار کیا جو نام کا حصہ اور وجہ شہرت بن گیا (میاں محمد صادق صاحب قصوری نے فقیر کے نام ایک خط میں یہ وجہ بتائی ہے)
شاعری:
مولانا حمد حسن قادری عالم فاضؒ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ حضرت امیر مینائی کے شاگرد رشید منشی امتیاز علی رازؔ رامپوری سے شرف تلمذ تھا۔ غزل کے علاوہ نظم و نثر اور نعت و منقبت میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اردو سنسکرت اورانگریزی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ کی نعتیہ شاعری میں سے ایک نعت تبرکاً درج کرتا ہوں
صاحب لولاک آیہ رحمت
ظل الٰہی سایہ رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم
کہتی ہے ان سے رحمت داور
اِنَّا اَعْطینٰک الکوثر
صلی اللہ علیہ وسلم
حکم ان کا فرمان خدا کا
انِن ھو اِلَّا وحیُ یُوحیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم
بدردجی بھی شمس الہدی بھی
عاشق بھی محبوب خدا بھی
صلی اللہ علیہ وسلم
شمع سبل بھی ، ہادی کل بھی
فخر بشر بھی ختم رسل بھی
صلی اللہ علیہ وسلم
رحمت والے راحت والے
شوکت والے، سطوت والے
صلی اللہ علیہ وسلم
امی ، علم سکھانے والے
راہ عقل دکھانے والے
صلی اللہ علیہ وسلم
یاد الٰہی کرنے والے
فقر میں شاہی کرنے والے
صلی اللہ علیہ وسلم
ہم جیتے ہیں ان کے سہارے
ہم ان کے ہیں وہ ہیں ہمارے
صلی اللہ علیہ وسلم
آپ کے صوفیانہ کلام میں سے رباعیات کا نمونہ پیش خدمت ہے :
بشر اگر مطلوب خداہو ہو جائے فنا جو ما سوا ہو
زاہد ہو مگر طلب میں گرداں ذاکر بھی مثال آسیا ہو
غفلت کا جو پردہ چاک ہو جاتا ہے عالم نظروں میں خاک ہو جا تاہے
ہوتا ہے جب آلودہٗ عصیاں نادم اشکوں میں نہا کے پاک ہو جاتا ہے
ممتاز شاعر صبا اکبر آبادی ثم کراچی مرحو م لکھتے ہیں :
مولانا قادری کا تاریخ گوئی کا کمال بھی ضرب المثل بن چکا ہے ۔ منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں ایسی برجستہ تاریخ کا مادہ نکالتے تھے اور اس پر ایسے مصرعے لگاتے تھے کہ موضوع کی پوری اہمیت واضح ہو جاتی تھی ۔ اس سلسلے میں اس کی کہی ہو ئی تاریخوں کا ایک کیثرذخیرہ ان کے صاحبزادگان کے پاس موجود ہے ۔ صاکٹر خواجہ احمد فاروقی صدر شعبہ اردودہلی یونیورسٹی دہلی ر قمطراز ہی :
اب تک انہوں نے دو ہزار سے زیادہ تاریخی مادے نکالے ہیں اور اس میں سے ایک ہزار سے زیادہ نظم کردیئے ہیں ۔ پھر کوئی تاریخ ایسی نہیں جس میں کوئی لطیفہ اور کوئی چٹکلہ نہ ہو ۔ شگفتگی و بر جستگی بلا استثناء ہر تاریخ میں ملے گی ۔ اندر سے چائے لا رہے ہیں ، ریل میں سوار ہو رہے ہیں، وضو کر رہے ہیں اور تاریخ کہہ رہے ہیں ۔ یہ روانی اور آمد تاریخ کے معاملہ میں نہ دیکھی نہ سنی ۔
۱۔آپ نے اپنے پیرو مرشد حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے وصال کی تاریخ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے نکالی ہے :
یایتھاالنفس المطنۃ ارجعی الی ربک۔ (پارہ ۳۰الفجر: ۲۷)
۱۳۷۰ھ
۲۔صدر الافاضل رئیس المفسرین علانہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے وصال پر قطعہ تاریخ وصال کہا:
سب بے سروپا ہو گئے ایسا تھا مولانا کا غم
فضل و سخارشد و ہدیٰ حلم و حیا عدل و کرم
اے قادری خستہ جگر تاریخ رحلت کر رقم
’’ہیںرونما اب درد و غم قہر و جفارنج و ستم‘‘
۱۹۴۸ء
۳۔آگرہ والے حضرت مولانا مفتی محمد عبدالحفیظ حقانی (والد مولانا محمد حسن حقانی کراچی ) کے وصال پر قطعہ تاریخ وصال کہا:
مفتی عبدالحفیظ صاحب آج
پردہ فرما کے حق سے ہیں واصل
نیک دل، طبع ،نیک اوصاف
سر بسر پاک جان و روشن دل
واعظ خوش بیان و بحر علوم
صاحب فیضو فاضل کامل
تربت پاک ان کی نوارنی
رشک خلد ان کی اولیں منزل
قادری نے بھی ان کا سال وصال
لکھ دیا ’’وصل ذات کا حامل ‘‘
۱۳۷۷ھ
۴۔۱۳۶۶ھ کو جب حضرت سیماب اکبر آبادی نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ مکمل فرمایا اور اس کی اطلاع قادری صاحب کو پہنچی تو آپ نے بعجلت ایک تاریخ کہہ کر بھیجی جس کا تاریخی مصرعہ تھا:
’’آگئی وحی منظوم اردو میں ‘‘
۱۳۶۶ھ
قادری صاحب ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں:
’’الحمد للہ اسیماب صاحب نے اپنی استادی اور کمال کا نمونہ پیش کر دیا، اس سے بہتر منظوم ترجمہ مشکل ہے ‘‘۔
۵۔ ۳۱ جنوری ۱۹۵۱ئ؍۱۳۷۰ھ کو علامہ سیماب اکبر آبادی نے کراچی میں رحلت فرمائی اس وقت قبلہ قادری صاحب آگرہ (اکبر آباد ) میں تھے لہذا آپ نے تعزیت نامے کے ساتھ ایک ایسی تاریخ مرتب کر کے بھیجی جس کی کوئی دوسری مثال ممکن نہیں ہے ۔ اس تاریخ کا پہلا عنوان تھا:
مجمع تواریخ
۱۳۷۰ھ
اور دوسرا عنوان تھا:
انتقال پر ملال یگانہ آفاق علامہ سیماب اکبر آبادی
۱۹۵۱ء
۶۔۱۳۶۶ھ؍۱۹۴۷ئکو دنیا کے نقشہ پر پاکستان ابھر کر سامنے آیا ۔ قیام پاکستان کا سن انہوں نے قرآن پاک کی ایک آیت سے استخراج فرمایا۔ ملا حظہ کیجئے۔
مسلمانوں کا پاکستان حق تھا
کہ تھا ارشاد : کنتم خیرامۃ
۱۳۶۶ھ
عادات و خصا ئل:
خود اپنے متعلق لکھتے ہیں : میرا مشغلہ زندگی بجز لکھنے پڑھنے کے کچھ نہیں رہا ۔ لڑکپم اور طالب علمی میں بھی کھیلوں اور میچوں میں حصہ نہیں لیا ۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ کھیلنا کیا معنی مجھے کھیل دیکھنا ہی نہیں ااتا۔ ‘‘
ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں : ’’قادری صاحب نیچی نظر کر کے پڑھاتے ہیں اور نیچی نظریں کر کے چلتے ہیں ۔ راستے میں سلام کیجئے انہیں خبر نہ ہو گی ، پان بہت کھاتے ہیں لیکن کالج میں نہیں ۔ ڈبیا سفر میں رکھتے ہیں ۔ قادری صاحب اپنے خیالات میں بڑے سخت و مضبوط میں لکھتے ہیں ، ’’میں اپنے مذہب ، اخلاق و معاشرت ، ادب اور اور شاعری میں نہایت کٹر واقع ہوا ہوں ۔ میں اپنے مذہب کو الہامی ، اپنی تہذیب کو توفیقی اور اپنے شعر و ادب کو روایتی سمجھتا ہوں اور ان میں سے کسی کے ممتعلق اپنے نظریہ ادب کو بدلنے کے لئے تیار نہیں‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی سابق صدر شعبہ اردوپشاور یو نیورسٹی پشاور لکھتے ہیں:
آپ عربی فارسی کے علاوہ انگریزی ادب اور تنقید کا وسیع مطالعہ اپنے شوق سے کیا تھا جیسا کہ اس کے علمی اور تنقیدی مقالات سے ثابت ہے ۔ انگریزی ادب کے پروفعسر آپ کی وقت نظر اور وسعت علم سے حیران رہ جاتے تھے ، یہی حال فارسی و عابی اور دینی علوم کا تھا کہ آپ نے مدرسہ میں جس قدر علم حاصل کیا تھا، عمر بھر کے مطالعہ سے بہت کچھ اضافہ کیا تھا اور جلیل القدر عالم بن گئے تھے ، ۱۹۵۵ء کو آگرہ سے کراچی آگئے ۔ یہاں آکر آپ نے تصنیفات کا سلسلہ بالکل ختم کر دیا تھے اور صرف عبادت دریاضت میںوقت صرف فرماتے تھے ۔ آپ خاموش مزاج اور کم گو شخص تھے ۔ تو اضع ، مہمان نوازی ، بردباری انکساری اور راستبازی آپ کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ شاگردوں یا بچوں پر کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے ‘‘۔
ڈاکٹر خواجہ صاحب مزید لکھتے ہیں : قادری صاحب بڑے سنجیدہ متین اور منکسر المزاج آدمی ہیں ۔لیکن زاہد خشک نہیں وہ روایت پرست ہونے کے باوجود اچھی اور نئی بات جہاں بھی ملتی ہے اسے پسند کرتے ہیں اور داد دیتے ہیں ۔‘‘
تصنیف و تالیف :
تعلینی خدمات کے علاوہ دینی علمی و ادبی کتب بھی آپ کی قابلیت و خدمات کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ ۹۰کے قریب نظم و نژمیں کتابیں لکھیں ۔ ۱۴۵ ان کی زندگی میں طبع ہوئیں ۔ علم البیان اور علم البدیع پر انگریزی میں بڑی معرکۃ لآراء کتاب لکھی جس میں عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی چاروں زبانوں کی مثالیں لکھی گئی ہیں ۔ مختلف رسائل میں شائع ہونے والے مضامین اس کے سوا ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ایک طالب علم نے ایم ۔ اے کے امتحان کے لئے آپ پر علمی مقالہ لکھا تھا۔
یہاں آپ کی مطبوعہ وغیرہ مطبوعہ کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
مطبوعات کتب
تنقید:
۱۔داستان تاریخ اردو طبع اول آگرہ ۱۹۴۱ء طبع ثانی اردو اکیڈمی کراچی ۱۹۸۸ء
۲۔نقدو نظر ۱۹۴۲ء ۳۔ تاریخ و تنقید ۱۹۳۸ء
۴۔ تاریخ مرثیہ گوئی ۱۹۳۴ء ۵۔ کمال داغ ۱۹۳۴ء
۶۔ انتخاب مومن ۷۔ شاہکارانیس
افسانے:
٭صیدوصیاد
٭ ایرانی افسانے (ترجمہ )۱۹۴۴ء
مذہب :
٭مجمع الکرامات
سوانح:
٭ابراہیم کنکن ٭حسنین
تراجم :
٭فطرت اطفال ٭باغبا ن
٭الکحل اور زندگی
نظم :
٭مرثیہ شور محشر (شیخ کے وصال پر ) آگرہ ۱۹۵۱ء ٭قصیدہ عطار
اخلاقیات :
٭گلدستہ اخلاق ٭رفیق تنہائی
بچوں کا ادب :
٭پھولوں کی ڈالی ٭ ترانہ ہند
٭ گم شدہ طالب علم ٭ستارہ جنوب
٭حسن پچیسی ٭ جادوگرنی
٭ ہمت کا پھل ٭گڈری کا لال
٭کاغذکے کھلونے
تدریسی کتب:
٭بی اے پرشین کورس ٭عیارنظم
٭ماہ اردو ٭جمال اردو
٭نہال اردو ٭نہال فارسی
٭گواہر اردو ٭جوہر اردو
٭منظر اردو ٭تاج اردو
٭چمنستان اردو ٭دامن گل چین
انتخاب مراثی انیس و دبیر ٭نقش تازہ
٭حرف نو ٭اردو کا آسان قاعدہ
selected english fieces for urdu transletion ٭
غیر مطبوعہ کتب:
٭مقالات قادری ٭نقدوتبصرہ
٭تحقیق و تصحیح ٭تذکرہ و تبصرہ
٭دفتر التواریخ ٭میزان التواریخ
٭جامع التواریخ ٭آثارالتواریخ
٭ تصویر التواریخ ٭جلوہ گاہ تضمین
٭خزانہ رباعیات ٭مثنوی نمونہ عبرت
٭انتخاب دیوان غالب اردو ٭انتخاب دیوان غالب فارسی
٭انتخاب اکبر الہ آبادی ٭دیوان غزلیات
٭شجرۃالا نبیاء ٭اسبق الظفر
٭انتخاب مرزابیدل ٭انتخاب رسارام پوری
٭کلیات رازرامپوری ٭کنزالکرامات
٭یوسف زلیخا ٭مقالات ادبی
٭جوہر شناسی اور دوسری افسانے ٭oriental
٭مذہبی باتیں ٭حمکدہ باعیات
٭بیاض نعتیہ ٭گنجینہ تواریخ
٭نوادرمنتخب شعروادب ٭مراۃشعرو سخن
٭ معلم الملکوت ٭بچوں کی نظمیں
٭مجموعہ نظم
پاکستان میں قیام:
۱۹۵۵ء کو بھارت سے کراچی تشریف لے آئے تھے ۔ آپ ادیب کے ساتھ صوفی بھی تھے ۔ آپ عابدو زاہد تھے، مرشد سے محبت رکھتے تھے ہر ہفتہ گھر پر حلقہ ذکر شریف کا اہتمام فرماتے تھے۔ تمام اور ادووظائف طریقت کے پابند تھے ۔ آپ کم گو تھے۔ تواضع مہمان نوازی بردباری اور انکساری آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔
آپ کو چار بیٹے اور غالبا دو بیٹیاں تولد ہوئیں ۔
اولاد :
۱۔ساجد حسن قادری (کوئٹہ )
۲۔ڈاکٹر خالد حسن قادری (لندن اسکول فار اور ینٹل لینگجویٹ لندن )
۳۔ ماجد حسن قادری
۴۔ راشد حسن قادری مرحو م مد فون کراچی (بروایت فرید قریشی ایڈیٹر تصوف کراچی )
جناب رئیس امرو ہی لکھتے ہیں : حضرت مولانا کے شاروں فرزند بحمد اللہ مدارج اعلی(بڑی پوسٹوں ) پر فائز ہونے کے ساتھ اپنے جلیل القدر باپ کے علمی و ادبی زوق کے بھی وارث ہیں۔ (سہ ماہی تصوف قادری نمبر حصہ اول ۱۹۸۴ئ)
تلامذہ :
٭نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی
٭پروفیسر کرار حسین سابق وائس چانسلر بولا ن یونیورسٹی کوئٹہ
وصال:
پروفیسر حامد حسن قادری نے ۲۴ ، محرم الحرا م ۱۳۸۴ھ بمطابق ۶، جون ۱۹۶۴ء کو کراچی میں انتقال کیا اور آپ کو پاپوش نگر ناظم آباد کراچیکے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے صاحبزادگان ہر سال آپ کا عرس مناتے ہیں ۔
جنا ب راشد حسن قادری نے آپ کے انتقال پر قطعہ تاریخ وفات کہا جو کہ درج ذیل ہے :
تھا عشق رسول میں ہمیشہ جو شغف
واصل جو ہوئے ’’رب ‘‘سے وہ رحلت کے بعد
مائل رہا دل سدا مدینے کی طرف
حاصل ہوا قبر میں زیارت کا شرف
۱۷۶۲۔۲۰۲۔۱۹۶۴ء
[ماخوذ: میاں محمد صادق قصوری صاحب کا مکتوب ۔ حضرت امیر ملت اور ان کے خلفائ۔ تذکرہ مشائخ نقشبندیہ مطبوعہ گجرات ۔ سہ ماہی تصوف کراچی حامد حسن قادری نمبر ۱۹۸۵ئ]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)