مولانا قاری عبدالحفیظ خان قادری
مولانا قاری عبدالحفیظ خان قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حافظ قاری عبدالحفیظ خان بن حضرت مولانا حافظ عبدالواحد خان یوسف زئی (بھارت) میں تولد ہوئے ۔
آپ کے ساتویں دادا پشاور (صوبہ سرحد ) س ے نقل مکانی کر کے (بھارت ) بغرض تبلیغ دین تشریف لائے اور یہیں قیام فرمایا ۔ آپ کے جداعلیٰ نے تبلیغ دین کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ آپ کے نانا جان (اور جناب رئیس احمد نعت خواں کے پردادا) کے جداعلیٰ بخارا (روس ) سے مال تجارت لے کر ہندوستان میں فروخت کیا کرتے تھے ’’جالنہ ‘‘(ضلع اورنگ آباد ، بھارت ) میں مقیم رہے ۔ آپ کے نانا حضرت مولانا عبداللطیف فاروقی تجارت اور تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ فن سپہ گری کے ماہر اور پہلوانی کے تمام رموز سے واقف تھے ۔ خود مسلمان نوجوانوں کو پہلوانی کی تربیت دیتے تاکہ نوجوان مسلمان ہونے کے ساتھ ایک بہادر طاقتور بنیں تاکہ شرانگیز ہندووٗں کو منہ توڑ جواب دے سکیں ۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حافظ عبدالواحد خان سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولوی حافظ قاری نور محمد پانی پتی کے پاس قرآن حکیم تجوید کے ساتھ حفظ کیا۔ (قاری نور محمد ، قاری فتح محمد پانی پتی کے غالبا بڑے بھائی تھے) ۔ برصغیر کی مشہور دینی درسگاہ ’’جامعہ عثمانیہ ‘‘حیدرآباد دکن سے علوم دینیہ میں تحصیل کی اور پسند فراغ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
علوم شرقیہ (فاضل عربی ) کے امتحانات تقسیم ہند سے قبل اپنے ماموں زاد بھائی مولانا عبدالغفار فاروقی کے ہمراہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دیئے اور نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی ۔ آپ نے تجوید کی مزید تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی۔
بیعت :
آپ نے دوران تعلیم حیدر آباد دکن کے مشہور بزرگ حضرت عبدالعزیز قادری چشتی عرفانیؒ سے دست بیعت ہوئے ۔ پاکستان (کراچی ) میں حضرت عبدالعزیز کے سلسلے کو ان کے جانشین حضرت علامہ حافظ پروفیسر محمود حسین صدیقی (چیئر مین سیرت چیئر کراچی یونیورسٹی کراچی ) چلا رہے ہیں ۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد سفیر عراق حضرت شیخ کمال الدین السید عبدالقادر الگیلانی ؒ(بانی المرکز القادریہ گلشن اقبال ) کی صحبت اختیار کی اور انہیں سے جامع مسجد قائد آباد (مرغی خانہ ) کا سنگ بنیاد رکھوایا۔
امامت و خطابت :
جامع مسجد جالنہ (ضلع اورنگ آباد) میں اپنے والد کی جگہ پر امام و خطیب مقرر ہوئے اس کے بعد جامع مسجد اورنگ آباد (جسے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کرایا تھا) اس کے بعد فوج میں بھی امام و خطیب کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں مستقل قیام اختیار کیا۔ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کی درخواست پر مزار قائد پر بھی فاتحہ خوانی فرمائی ۔پولو گراوٗ نڈ میں نماز عیدین کی امامت و خطابت فرمائی ۔ موجودہ سندھ اسمبلی ہال میں ہونے والے اسلامی ممالک کے نمائندوں کے اجلاس و دیگر سر کاری تقاریب کا آغاز آپ نے تلاوت کلام پاک سے فرمایا۔ گورنر ہاوٗ س کی مسجد میں بھی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ علاوہ ازیں بادامی مسجد ، کھجوری مسجد (میٹھا در ) نیو میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) میں بھی خدمات انجام دیں ۔ علامہ ظہو رالحسن درس کے بے حد اصرار پر جامع مسجد قصابان میں بطور خطیب و امام مقرر ہوئے ۔ اور آخر میں جامع مسجد صابری رنچھوڑ لائن خضرا مسجد بھیم پورہ ، دارالسالم مسجد پی ای سی ایچ سوسوئٹی ، میران شاہ مسجد ، جامع مسجد قائد آباد (مرغی خانہ ) ، جامع مسجدآرام باغ، جامع مسجد عثمانیہ شاہ فیصل کالونی ، جامع مسجد حنفیہ اور میمن مسجد کریم آباد میں بھی خدمات انجام دیں ۔
حسن قرات :
جامعہ عثمانیہ دکن میں آپ کے دوران تعلیم طلباء کے ایک وفد نے مجاہد ملت ، مقرر بے مثال جناب بہادر یار جنگ سے ملاقات کی۔ جب وفد کے ارکان کا تعارف کرایا گیا تو قاری عبدالحفیظ خان کا تعارف کچھ ان الفاظ میں کرایا گیا کہ ’’آپ کی آواز میں وہ خوش الحافی اور حسن صوت ہے کہ بہت کم انسانوں کو نصیب ہوتا ہے اور آپ پر کمال یہ کہ آپ کو قراٗۃ و مخارج پر بڑا عبور حاصل ہے اور خصو سی طور پر جب آپ عروس القرآن (سورہ رحمن ) کی تلاو ت فرماتے ہیں تو ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے ‘‘۔ جب تعارف ایسا جامع واثر انگیز ہو تو یقینا سننے والے کی کیا کیفیت ہو گی ؟ نواب صاحب نے آپ سے فرمائش کر ڈالی ۔ قاری عبدالحفیظ خان نے سورہ رحمن کی تلاوت فرمائی دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملاقات ایک یاد گار ملاقات ثابت ہو گئی کیوں کہ ہر آنکھ اشکبار تھی ہر دل گداز تھا گو یا یہ ملاقات آپ کے اعزاز میں کی جانے والی محفل بن گئی ۔
دوران حج عالم اسلام کے مشہور قراء حضرات ، قاری عبدالباسط عبدالصمد اور شیخ خلیل النہری کی محافل قراٗت میں تلاوت فرمائی اور ایک مراکشی عالم ُدین نے آپ کو مراکش اور مصر کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔
تحریک پاکستان :
آپ نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور رضا کاروں کی فورس کے سپہ سالار رہے اسی وجہ سے ہندوستان کی حکومت نے آپ کے سر کی قیمت لگارکھی تھی ۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے جلسوں میں آپ حسن قراٗ ت کے ذریعے مسلمانوں کے جذبہ کو بیدار کرتے ان میں کچھ کرنے کا جوش جذبہ اور سچی لگن پیدا ہوتی آپ اسی طرح تلاوت قرآن کی سحر کاری سے مسلمانوں کو متحد و منظم کرنے کی خدمت فی سبیل اللہ سر انجام دیتے تھے۔
شاعری :
آپ چونکہ عالم دین تھے عربی فارسی پر دسترس رکھتے تھے ہندی و اردو گھر کی لونڈی کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ علم عروض کے ماہر تھے لہذا شاعری بھی وسعت مطالعہ کی بنا پر اعلیٰ معیار کی ہے ۔ حافظ اور حفیظ تخلص فرماتے تھے ۔ چند اشعار درج ذیل ہیں :
ہے و ردلب بنی بنی صل علی محمد
دل میں درآئی روشنی صل علی محمد
روح بھی مضطرب نہیں جان کو بھی قرار ہے
میرا وظیفہ ہے یہی صل علی محمد
ہے دوا میرے دل کے زخموں کی
خاک مل جائے ان کے قدموں کی
حافظ خوشنوا کی ہے یہ دعا
لاج رکھیں وہ میرے حرفوں کی
کوئی یہ کہہ گیا ہے آکے ہم سے
بلاوا آئے گا ان کے کرم سے
وہ جب جلوہ دکھائیں گے لحد میں
لپٹ جاوٗں گا میں ان کے قدم سے
تصنیف و تالیف :
اس سلسلہ میں آپ کا کام وسیع نہیں مختصر ہے وہ درج ذیل ہے:
٭ تمنائے مدینہ نعتیہ انتخاب مطبوعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی سن ندارد
٭ خطبات حافظ غیر مطبوعہ
٭ اصول قرات و تجوید غیر مطبوعی
٭ کلام حافظ (مجموعہ کلام ) غیر مطبوعہ
عادات و خصائل :
ایک عالم با عمل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر، خوش الحان قاری اور صوفی منش انسان تھے۔ روحانی فیض کے سبب چہرہ انتہائی نورانی اور گفتگو کا انداز انتہائی عاجزانہ اور شائستہ تھا۔ گستاخ رسول، گستاخ صحابہ، گستاخ اہل بیت اور گستاخ اولیاء اللہ سے سخت نفرت کرتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق و محبت سے سر شار رہتے تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ رکھتے تھے۔ مہمان نواز تھے مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول کرتے تنہا کھانا کھانا طبیعت پر بہت گراں گزرتا تھا ۔ ہمدرد مونس اور غم خوار شخصیت کے مالک تھے۔ کئی سفید پوش حضرات کی اپنے طور پر اور صاحبان ثروت کے ذریعے مالی اعانت فرماتے۔ کئی بے سہارا افراد کی شادی اپنے انتظام سے اپنی نگرانی میں کرائیں۔ کئی افراد کو روزگار دلوایا۔ مستحقین و بے سہارا افرراد کی اپنے حلقہ اثر سے کہہ کر مدد فرماتے۔
قد درمیانیہ، جسم کسرتی مضبوط، پہلوانی اور فن سپہ گری کا بچپن سے ہی شوق تھا۔ نانا جان کے اکھاڑے کے تمام رموز سے واقف تھے۔
عربی، فارسی، اردو، ہندی کے بے شمار اشعار ازبر تھے۔ مثنوی مولانا روم کے بڑے عشاق میں سے تھے۔ دلکش انداز، محبت و لگن سے تلاوت کرتے تو جسم کا بال بال کھڑا ہوجاتا۔
احباب:
قائد اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، مولانا پیر عبدالقدوس خان قادری(حیدرآباد) ، مولانا قاری مصلح الدین صدیقی قادری، علامہ مولانا ظہور الحسن درس، علامہ عبدالحامد بدایونی قادری، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، مفتی محمد عمر نعیمی، علامہ تقدس علی خان رضوی، علامہ ادب گلشن آبادی، مولانا قاری محبوب رضا، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی، قاری غلام رسول کشمیری(لاہور) حافظ قاری ممتاز احمد رحمانی، مفتی غلام قادر کشمیری، مولانا طفیل شمس العلوم، حضرت منور بدایونی وغیرہ آپ کے دوست و احباب تھے۔ آپ اکثر ان کو اپنے ہاں صابری مسجد میں مدعو فرماتے تھے۔
شادی و اولاد:
آپ کی پہلی شادی خالہ زاد سے بھار ت میں ہوئی۔ موصوفہ کا انتقال قیام پاکستان سے قبل بھارت میں ہی ہوا۔ مرحومہ انتہائی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ ان سے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
آپ کا عقد ثانی آپ کے ماموں مولانا عبدالکریم فاروقی کی صاحبزادی سے ہوا۔ ان سے بھی آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ موصوفہ نے قاری صاحب کی خوب خدمت کی۔ ایک ملنسار ، خدا ترس پرہیزگار اور انتہائی ہمدرد خاتون تھیں۔ قاری صاحب کے بعد ان کا جون ۲۰۰۴ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ پاک و ہند او بنگلہ دیش میں اسلام و سنیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
٭ مولانا حکیم محدم اکبر درس
٭ مولانا محمد اصغر درس
٭ محمد حسین درس (نیشنل کرکٹ ایمپائر)
٭ عبدالکریم درس (سیکشن آفیسر حکومت سندھ)
٭ مولانا مفتی نور الہادی شہید برادر مفتی عبدالعلیم قادری دارالعلوم سبحانیہ ، شاہ فیصل کالونی ، کراچی۔
٭ قاری محمد امین
٭ ڈاکٹر حافظ شمیم احمد (MBBS)
٭ محمد توفیق اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک
٭ الحاج سلطان احمد بھٹو ممتاز تاجر و صنعتکار
٭ عبدالعلیم بھٹو معروف تاجر و صنعتکار
٭ مولانا عبدالقدیر
٭ قاری محمد رفیع احمد ایڈوکیٹ اور ان کے برادر خورد رئیس احمد
٭ محمد روئوف احمد (ریاض)
٭ میر اسرار الدین احمد، میر وقار الدین احمد
وصال:
وصال سے ایک ہفتہ قبل آپ کو ہسپتال لے جایا گیا۔ بیڈ پر لیٹے ہوئے آپ نے رفیع سے مخاطب ہو کر فرمایا: بیٹا گھر چلو یہ جگہ صحیح نہیں ہے۔ دوران علالت اپنی خوشدامن سے سورہ یٰسین شریف سماعت کرتے رہے اور اگر پڑھنے میں کوئی غلطی ہوتی تو باجود علالت کے لقمہ دے کر تصحیح فرمادیتے۔
مولانا قاری عبدالحفیظ خان نے ۲۲ شوال المعظم ۱۴۱۵ھ ، ۱۵، اپریل ۱۹۹۵ء بروز جمعرات صبح ناشتہ کرنے کے بعد ۹ بج کر پچاس منٹ پر ۔۔سال کی عمر میں اپنی اہلیہ، ممانی اور رفیع کی والدہ کی موجودگی میں باآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بقول شاعر
قمر میں جلوہ دکھاتے ہیں مدینے والے
آرزو مرنے کی یوں کرتے ہیں جینے والے
آپ کی نماز جنازہ جامع مسجد صابری رنچھوڑ لائن روڈ پر بعد نماز عصر ادا کی گئی اور کالونی گیٹ قبرستان میں تدفین ہوئی۔
(نعتیہ ریسرچ اسکالر شہزاد احمد نے ممتاز نعت خواں رئیس احمد کے برادر اکبر جناب محمد رفیع احمد ایڈوکیٹ (شاہ فیصل کالونی) سے ملاقات کروائی۔ انہوں نے ازراہ کرم اپنے چچا مرحوم کے متعلق مواد فراہم کیا۔ فقیر تینوں حضرا ت کا مشکور ہے۔)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)