مولانا قاضی نذر محمد دیہاتی
مولانا قاضی نذر محمد دیہاتی (تذکرہ / سوانح)
مولانا حکیم حافظ نذر محمد بن قاضی حکیم عبدالرحمن سومرو نے آبائی گوٹھ دیہات ( تحصیل کنڈیاروضلع نوشہرو فیروز ) میں ۱۳۰۴ھ کو تولد ہوئے۔ مولانا عبدالرحمن زہد و ورع ، قناعت و توکل میں یگانہ روزگار تھے ، عالم باعمل اور صاحب برکت بزرگ تھے ۔ آپ کا مدرسہ علم و شریعت کا ایک سر چشمہ تھا۔ جہاں سے بے شمار طالبان شریعت نے اکتساب فیض کیا۔
تعلیم و تربیت:
قاضی نذر محمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے زیر سایہ انہی کے مدرسہ میں حاصل کی۔ سندھی و فارسی کیساتھ قرآن مجید حفظ کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسکے بعد گوٹھ محبت دیرو سیال اور گوٹھ سیٹھار جا کے مدارس میں عربی کی مختصر تعلیم حاصل کی، اس کے بعد والد ماجد نے جلد ہی اپنے پیر خانہ درگاہ مجددیہ ٹنڈو سائینداد کے مدرسہ دارالارشاد میں داخل کر وادیا۔ ان دنوں مدرسہ دارالارشاد میں مولانا میاں عبدالقیوم بختیار پوری مسند نشین تھے۔ اور مولاناآغا عبداللہ جان سر ہندی انہیں کے پاس زیر تعلیم تھے۔ آغا جان نے مولانا نذر محمد کو صرف و نحو کی تعلیم دی لیکن مولانا نذر محمد ذہانت و قوی حافظہ کے سبب جلدی کتب پڑھ کر بڑی کتب تک پہنچ کر آغا جان کے ہم سبق ہو گئے۔ اس زمانہ میں دہلی کے مولانا عبدالرب صاحب کے مدرسہ کی شہرت سن کر قاضی صاحب نے دہلی کا سفر اختیار کیا اور مولانا عبدالرب دہلوی کے مدرسہ میں داخلہ لے کر ان سے بڑی کتب کے اسباق لئے ، اس کے ساتھ علم طب میں بھی تعلیم حاصل کی۔ بقیہ نصابی کتب کی تکمیل دہلی سے واپسی پر دارالارشاد میں مولانا خیر محمد مگسی کے پاس کی۔
بیعت:
علم ظاہری کی فراغت کے بعد علم باطنی کی جانب بھر پور توجہ دی ۔ بچپن میں طالب علمی کے زمانہ میں شیخ طریقت خواجہ عبدالرحمن جان سر ہندی قدس سرہ (ٹکھہڑ ) سے بیعت ہوئے اور بعد فراغت جوانی میں ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی نور اللہ مرقدہ ( ٹنڈو سائینداد) سے سلوک کی منازل طئے کیں ۔
( ماخوذ: ڈاکٹر قریشی حامد علی خانزئی کا مضمون مطبوعہ الرحیم ، حیدر آباد ۱۹۶۸ء )
درس و تدریس:
بعد فراغت اپنے گوٹھ دیہات میں ’’مدرسہ مجددیہ ‘‘قائم کیا ۔ جہاں تاحیات درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ بلند پایہ کے عالم ، ادیب ، شاعر اور حاذق حکیم تھے۔ ظاہری و باطنی علوم کے بحرذ خار تھے۔ بحث مباحثہ اور مناظرہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔
(سندھ کی طبی تاریخ )
حکمت :
سندھ کے نامور حکیم شاعر و عالم تھے۔ دہلی میں علم طب حاصل کیا۔ اپنے گوٹھ میں درس و تدریس کے ساتھ حکمت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔
ردمذاہب باطل :
آپ نے بہت سے قادیانیوں وہابیوں دیوبندیوں اور شیعوں سے مناظرہ کئے اور ان کو مغلوب کیا ، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ آپ کے مخالف اور دشمن ہوگئے اور آپ کو ایذاء اور نقصان پہنچانے کے درپے ہوگئے ۔ لیکن کسی کی مخالفت ، دھمکی ، دھونس آپ کو مرغوب نہ کر سکی اور آپ کو آپ کے مقصد سے باز نہ رکھ سکی ۔ ( مونس المخلصین ، صوفیائے نقشبند)
اولاد :
آپ نے اپنے بعد دو لڑکے چھوڑے ، بڑا لڑ کا غلام مجدد عرف مولانا غلام حسین تھا جو بڑا نیک اور صالح ، نیک صورت اور نیک سیرت تھا۔ دوسرا لڑکا نور احمد تھا جو بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا، علم ظاہر کا بھی فاضل تھا۔ ( ایضا)
تصنیف و تالیف:
آ پ نے تصنیف کے سلسلہ میں کافی کام کیا۔ ان میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں :
٭ تحفہ قادیاں ردقادیانیت
٭ انوار احمد یہ درحالات مشائخ نقشبندیہ
٭ مجموعہ نظم دیہاتی
٭ احسن التقریر فی جواب التحریر ( سندھی مطبوعہ )
سرکار غوث اعظم کی افضلیت و قدم شریف کی فوقیت و برتری کے ثبوت میں مولانا محمد عثمان نور نگ زادہ نے فتویٰ مبارکہ تحریر فرمایا تھا جس کے رد میں قاضی صاحب نے یہ رسالہ تحریر کیا اور سرکار کی افضلیت کا صاف انکار کر کے ایک علمی غلطی میں مبتلا ہو گئے لیکن فتویٰ کا جواب قطعا نہیں ہے۔ ( راشدی )
آپ کی اکثر تصانیف قلمی ہیں جو کہ لواحقین کے پاس محفوظ ہیں ۔ ( سندھ جا اسلامی درسگاہ)
وصال :
مولانا قاضی نذر محمد دیہاتی نے ۴۱ سال کی عمر میں ۹ ، جمادی الآخر ۱۳۴۵ھ ۱۹۲۶ء کو وصال کیا اور آپ کا مزار گوٹھ دیہات کے قبرستان میں ہے ۔
(ایضا۔ الرحیم ۱۹۶۸ء مضمون نگار ڈاکٹر حامد علی قریشی)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)