قیلہ دختر محزمہ غنویہ،ایک روایت میں عنزیہ ہے،اور ایک میں عنبریہ اور یہی صحیح ہے کیونکہ انہیں تیمیہ بھی کہاگیا ہے،اور عنبر سے مروی ہے کہ ان کی دودادیوں صفیہ
اور وحینہ نے جو علیہ کی بیٹیاں اور قیلہ دختر محزمہ نے جو حبیب بن ازہر کی(جو بنو جناب کا بھائی تھا)بیوی تھی،ان کے بطن سے کئی لڑکیاں پیدا ہوئیں اور پھر حبیب
فوت ہوگیا،اور اس کی لڑکیاں عمر بن اثوب بن ازہر نے چھین لیں۔
چنانچہ قیلہ،ابتدائے اسلام میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے نکلی،اس پر سب سے چھوٹی لڑکی نے جس کا نام جویریہ تھا،اور سیاہ رنگ کا لباس پہنے
تھی،رونا شروع کردیا،چونکہ ماں کو اس لڑکی سے محبت زیادہ تھی،اسے اس پر رحم آگیا،اور اسے اُٹھا لیا،اور ساتھ لے چلی،ماں بیٹی حضورِاکرم کے پاس اس وقت پہنچیں،جب
آپ صبح کی نماز پڑھارہے تھےاور بعد نماز نمازیوں سے فرمارہے تھے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،پانی اور درخت انہیں اپنے اندر سمولیتے ہیں،اور تکلیف میں تعاون
کرتے ہیں،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے،یہ حدیث بڑی طویل اور کثیرالغریب ہے،اور ابونعیم اور ابوعمر نے مختصر بیان کیا ہے،اور ابن مندہ نے اسے پوری تفصیل سے بیان
کیا ہے۔
کثیر التعداد راویوں نے باسنادہم محمد بن عیسیٰ سے،انہوں نے عبد بن حمید سے،انہوں نے عفان بن مسلم صفار سے،انہوں نے عبداللہ بن حسان سے روایت کی کہ اس کی دو
دادیوں صفیہ اور دحینہ دخترانِ علیہ سے ،انہوں نے قیلہ دختر محزمہ سے(یہ دونوں ان کی ربیب تھیں) اور قیلہ ان کے والد کی دادی اور اس کے باپ کی ماں تھی،ان سے
مروی ہے کہ وہ حضور ِاکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری حدیث بالتفصیل بیان کی،اتنے میں ایک آدمی آیا،اور سورج اوپر آگیا تھا،اس نے کہا،السلام علیکم
یارسولِ خدا آپ نے جواب میں فرمایا،وعلیک السّلام و رحمتہ اللہ اور حضورِاکرم نے دو پرانی چادریں جن کا زعفرانی رنگ اڑ گیا تھا،اوڑھی ہوئی تھیں اور آپ کے پاس
کھجور کی ایک چھڑی تھی۔