علی بن محمد قوشچی: علاء الدین لقب تھا،اعلم علائے دوران اور افضل حکمائے زمان تھے،آپ کا باپ امیر الغ بیگ بادشاہ اور النہر کے خادموں سے تھا۔لڑکپن میں امیر موصوف کے بڑے منظور نظر تھے یہاں تک کہ وہ کمال شفقت سے آپ کو اپنا بیٹا کہا کرتا تھا اور اکثر اوقات اپنے ہاتھ سے جانور مثل باز وغیرہ کے آپ کے ہاتھ پر بٹھادیا کرتا تھا اس لیے آپ قوشچی کے نام سے مشہور ہوئے کیونکہ قوشچی کے معنی لغت میں حافظ بازار اور میر شکار کے ہیں۔
ابتدائے علم آپ نے مولیٰ قاضی زادہ موسیٰ رومی شارح ملحض چغمپنی اور نیز امیر الغ بیگ سے جو علم ریاضی میں بڑاتا ہرتھا،پڑھے،پھر پوشیدہ طور پر کرمان کے ملک میں چلے گئے اور وہاں کے علماء و فضلاء سے علم حاصل کیا اور وہیں شرح تجرید کا مسودہ کیا پھر بعد کئی سال کی گیبت کے امیر موصوف کے پاس واپس آئے اور پوشیدہ چلے جانے کی معذرت کی،امیر نے کہا کہ تم ہمارے لیے کیا تھفہ لائے ہو آپ نے فرمایا کہ ایک رسالہ لایا ہوں جس میں میں میں نے ان اشکال قمر کاحل کیا ہے جن کے حل کرنے میں متقدمین حیرانہوئے ہیں۔امیر نے کہا کہ اس کو میرے پاس لاؤ کہ دیکھوں اس میں کس کس جگہ آپنے خطا کی ہے؟ آپ نے رسالہ کو حاضر کیا اور امیر اس کو مطالعہ کر کے متعجب ہوا پھر امیرنے سمر قند میں ایک نجوم تعمیر کیا اور غیاث الدین جمشید کو جو نجوم میں ماہر تھا،اس کا متولی بنایا لیکن وہ اوائل عمر میں ہی مرگیا پھر قاضی ازاہ کو اس کا متولی کیا مگر وہ بھی قبل اتمام اس کے فوت ہوئے، پھر آپ نے اس کو کامل کیا پس جو کچھ ان لوگوں کو اس رصد سے حاصل ہوا وہ آپ نے لکھا جس کا نام زاچہ انع بیگ رکھا گیا جب الغ بیگ مرگیا اور اس کی اولاد میں سے بعض لوگ ملک پر متسلط ہوئے تو انہوں نے آپ کی کچھ قدر نہ سمجھی اس لیے آپ سمرقند سے تبریز میں آئے جہاں کے سلطان امیر حسن طویل نے آپ کی بڑی تکریم و تعظیم کی اور آپ کو بطور سفارت باہمی مصالحت کے لیے روم میں سلطان محمد خاں کےپاس بھیجا جہاں سلطان محمد خاں نے سلطان حسن سے بھی بڑھ کر آپ کی عزت کی اور کہا کہ تم ہمارے ہی پاس رہو۔آپ نے اس بات کو قبول کر کے وعدہ کیا کہ بعد اتمام کام سفارت کے ہم ضرور آپ کے پاس چلے آئیں گے پس جب رسالت کا کام تمام ہوگیا تو سلطان محمد خاں نے اپنے خدمت گار آپ طرف بھیجے جو آپ کو بڑی خاطر تواضع سے ہر منزل میں ہزار درم خرچ کر کے قسطنطیہ میں لائے اور آپ کا استقبال تمام علماء اعیان قسطنطیہ نے کیا جب سلطان مھمد خاں کے پاس ھاضر ہوئے تو آپ نے ایک رسالہ حساب میں محمد یہ نام بادشاہ کےت غذر کیا،پھر جب سلطان محمد خان نےحسن طویل پر چڑھائی کی تو اب بھی بادشاہ کے ہمراہ گئے اور اس سفر میں ایک رسالہ بیئت فتحیہ نام تصنیف کیا جب سلطان قسطنطنیہ میں واپس آیا تو اباصوفیہ کا مدرسہ دے کر دو سو درم روزینہ آپ کا مقرر کردیا پس آپ وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ ۸۷۵ھ میں فوت ہوگئے۔’’مخبر پاکباز‘‘ تاریخ وفات ہے،شرح تجرید اور تفتازانی کے اوائل حواشی کشاف پر حواشی اور صرف میں عنقود والزواہر وغیرہ رسائل آپ کی تصنیفات سے یادگار ہیں۔
(حدائق الحنفیہ)