قطب المکی محمدنہر والی
قطب المکی محمدنہر والی (تذکرہ / سوانح)
شیخ العالم المحدث قطب الدین محمد بن علاء الدین احمد احمدبن شمس الدین محمد بن محمود قاضی خان بن بہاء الدین بن یعقوب بن حسن [1]بن علی بن قاسم بن محمد بن ابراہیم بن اسمٰعیل عدنی خرقانی نہر والی[2]ہندی الاصل ثم المکی قادری: مؤرخ، محدث،مفسر،مفتی،فقیہ،شاعر،انشا پرداز اور نہایت فصیح عربی دان،اپنے وقت کے امام تھے۔ان کا خاندان کئی پشتوں سے علمو و فضل میں ممتاز چلا آرہا تھا۔۹۱۷ھ میں لاہور [3]میں پیدا ہوئے،ان کا خدانان مکہ م عظمہ منتقل ہوگیا۔ابتداء میں اپنے والد[4] اور شیخ عبد الحق سنباطی[5]سے پڑھا پھر خطیب معمر احمد بن محب الدین بن ابو القاسم محمد النویری مکی اور محدثِ یمن وجیہ الدین ابو محمد عبد الرحمٰن بن علی الربیع الشیبانی العبدری الزبیدی[6] اور شیخ شہاب الدین احمد بن موسیٰ بن عبد الغفار مغربی الاصل ثم المصری سے تعلیم پائی۔۹۴۳ھ میں مصر چلے گئے وہاں ابو عبداللہ محمد بن یعقوب عباسی المتوکل علی اللہ متوفی ۹۵۰ھ اور علامہ جلال الدین سیوطی کے شاگردوں سےاستفادہ کیا پھر بغرض تعلیم استانبول تشریف لے گئے،وہاں سے واپسی پر مدرسہ اشرفیہ مکہ معظمہ میں مدرس ہوئے۔۹۶۵ھ میں براستہ ایشیا کو چک دوبارہ استانبول گئے،واپس آئے تو سلطان احمد شاہ گجرات کے مدرسہ واقع مکہ معظمہ کے منتظم اور متولی رہے، ۹۷۵ھ میں مدرسہ حنفیہ سلیمانیہ قائم ہوا تو اس میں طب،حدیث اور اصول کا درس دیتے رہے،مکہ معظمہ کے مفتی بنادیے گئے،حرم میں خطابت کا منصب عطا ہوا، انہوں نے صفا کے قریب ایک مدرسہ بنوایا اور اس میں فقہ وحدیث پڑھاتے رہے، عثمانی سلاطین ان کے بڑے قدردان تھے،سلطان سلیمان،سلطان سلیم اور سلطان مراد ان کی بڑی عزت کرتے اور انعام واکرام سے نوازتے رہے ۹۹۱ھ[7] میں مکہ معظمہ میں وفات پائی۔
آپ اپنے دور کے بہت بڑے اور مشہور محدث تھے۔آپ صرف آٹھ واسطوں سے امامِ بخاری سے روایت کرتے ہیں اور بقول صاحب نزہۃ الخواطر صحیح بخاری کی سند و اجازۃ میں جو علوسند انہیں حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں،طریقہ تصوف علاء الدین کرمانی نقشبندی متوفی ۹۳۹ھ سے حاصل کیا۔
آپ کی پہلی تصنیف استانبول کے دوسرے سفر کا سفر نامہ تھا جواَب نہیں ملتا،دوسری تصانیف یہ ہیں:۔
۱:۔ البرق الیمانی فتح عثمانی(تاریخ یمن از ۹۰۰ھ) وزیر سلیمان پاشا کی قیادت میں ترکوں کی فتح زیدیوں کی واپسی،وزیر اعظم سنان پاشا کی قیادت میں دوبارہ ترکوں کی فتح۔یہ کتاب یکم رمضان ۹۸۱ھ کو مکمل ہوئی،۹۸۲ھ میں اس کا ضمیمہ لکھا جس میں تینونس وغیرہ کی فتح کا بیان ہے،اس کتاب کا ترکی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
۲:۔ الاعلام با علام بیت الحرام (العینی تاریخ مکہ)یہ ۹۸۵ھ میں مکمل ہوئی اور سلطان مراد کے نام معنون کی گئی،جرمنی اور قاہرہ میں چھپ چکی ہے۔
۳:۔ تمثال الامثال السارئرہ فی الابیات الفارضہ النادرہ یا تمثیل والمحاضرہ بالآیات المفردۃ النادرہ: مضمون نویس اور انشا پردازوں کے لیے ترتیب شدہ حوالے کے اشعار کا مجموعہ۔
۴:۔ کنز الاسمٰی فی فن المعمٰی: اس کتاب میں سے ایک معمہ جس کا جواب’’احمد ‘‘ ہے،یوں ہے:
لنا ان دارت الکاس العقار باطراح المراح دم مدار
معین الدین عبد المعین بن احمد ابو البقاء نے ۹۹۳ھ میں اس کا حاشیہ لکھا۔
۵:۔ طبقات الحنفیہ(چار جلدوں میں)
۶:۔ منتخب التاریخ
۷:۔ جامع فے الحدیث(جس میں کتب السنہ جمع کی ہیں)
۸:۔ ادعیۃ الحج والعمرہ نے المناسک
۹:۔ الفوائد السنیہ فی رحلۃ المدنیۃ والرومیہ
۱۰:۔ تکمہ دستور الاعلام لا بن عزم
آپ کے بیٹے محمد بن محمد قادری خرقانی قطبی مکی نے ۱۰۰۵ھ میں ابتہاج الاسنان والزمن فی الاحسان الواصل للحرمین من الیمن بمولانا العادل پاشا (الحسن کے نام سے مکہ و مدینہ کی تاریخ لکھی اور اس یمن کے ولی حسن پاشا کے کارہائے نمایا بیان کیے ہیں۔
قطب المکی کے بھائی محب الدین بن علاؤ الدین احمد یمن میں قاضی تھے، ان کے بیٹے بہاؤ الدین ابو الفجائل عبد الکریم بن محمد بالدین بن علاؤ الدین احمد، ۲۹؍شوال ۹۶۱ھ کو احمد آباد(گجرات)میں پیدا ہوئے،مکہ مکرمہ میں چچا کے زیر سایہ تربیت ہوئی،۹۸۲ھ میں مدرسہ مرادیہ میں مدرس ہوئے،چچا کی وفات کے بعد مفتی مکہ ماور پھر امام الحرم بنے۔۱۵؍ذوالحجہ ۱۰۱۴ھ کو وفات پائی۔قطب المکی کی تاریخ مکہ کا خلاصہ اعلام العماء الاعلام بنباء المسجد الحرام کے نام سے کیا۔نہر الجاری علیٰ جامع البخاری کی تصنیف شروع کی تھی مگر نا مکمل رہ گئی۔عبد الکریم کے پوتے عبد الکریم بن اکمل الدین بن عبد الکریم بن محب الدین قطبی مکی المعروف بہ عب الکریم قاضی خان مکی مشہور صوفی تھے،شرح علی الفصوص لصدر الدین قونوی کے مصنف ہیں۔۱۰۵۵ھ میں مکہ میں وفات پائی۔
1۔ نزہۃ الخواطر میں حسن کی بجائے اسمٰعیل لکھا ہے۔
2۔ نہر والہ،پٹن(گجرات کاٹھیاواڑ) کا پرانا نام ہے۔صاحب حماۃ نے اپنی تاریخ میں اسے ہندوستا کے برے شہروں میں بتایا ہے،سلطان محمود غزنوی سومنات پر حملہ کے لیے جاتے وقت اس شہر سے گزرا تھا (طبقات اکبری)
4۔ ابو العباس علاؤ الدین احمد بن محمد نہر والی گجراتی ثم المکی: ۸۷۰ھ میں پیدا ہوئے،ان کے دادا محمود قاضی کاننہروار کے مشہور عالم اور مفتی تھے،ہندوستان سے مکہ معظمہ منتقل ہوگئے تھے جہاں ۹۲۹ھ میں وفات پائی۔آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے،اپنے زمانے کے مشہور محدث تھے۔
5۔ ولادت سنباط ۸۴۲ھ وفات مکہ معظمہ رمضان ۹۳۱ھ
6۔ ولاد ۴؍محرم ۸۶۶ھ وفات ۲۶؍رجب ۹۴۴ھ
7۔ دستور الاعلام اور کشف الظنون میں ۹۹۱ھ ،النور السافر اور شذرات الذہب میں ۹۹۰ھ اور ہدیۃ العارفین میں ۹۸۸ھ درج ہے۱۲
(حدائق الحنفیہ)