(سیّدہ )رملہ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )رملہ( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
رملہ دختر ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس،ام حبیبہ قرشیہ امویہ ازواج مطہرات میں شامل تھیں انہوں نے نکاح سے پہلے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا،ان کی والدہ کا نام صفیہ دختر ابوالعاص تھا،جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی چچی تھیں،ایک روایت میں ان کا نام ہندہ بھی آیاہے،قدیم الاسلام ہیں،اور اپنے خاوند عبداللہ بن حجش کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں،ان کا شوہر تو عیسائی ہوگیا تھا،لیکن رملہ ثابت قدم رہیں،جب عبداللہ مرگیا،تو حضرت عثمان نے یا بروایتے خالد بن سعید بن عاص بن امیہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام بھیجا،نجاشی نے چار سو دینار مہر ادا کیا،اور حضرت عثمان (بروایتے نجاشی) نے دعوت ولیمہ دی،اور شرحبیل بن حسنہ انہیں حضورِ اکرم کے پاس مدینے لے گئے یہ نکاح اس وقت ہوا تھا جب حضورِ نبیٔ کریم ہجرت کر کے مدینے آگئے تھے۔
مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح میں لکھا ہے،کہ ابوسفیان نے آپ سے نکاح کی خواہش کی تھی،جو آپ نے قبول فرمالی تھی،لیکن یہ غلط ہے،کیونکہ حضورِاکرم نے یہ نکاح اس وقت کیا تھا،جب آپ ابھی مکے میں تھے،اور ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیاتھا،اور اس پر اہل السیر کا اتفاق ہے۔
جب ابوسفیان،قبل از فتح مکہ،بنو خزاعہ پر حملے کے سلسلے میں وارد مدینہ ہوئے تھے،تو جناب ام المؤمنین نے والد کو اس بنأ پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے سے منع کردیاتھا،کہ وہ ابھی مشرک تھے۔
قتادہ کا قول ہے،کہ جب جناب رملہ حبشہ سے ہجرت کر کے مدینے آئی تھیں،تو آپ نے اس وقت انہیں اپنا پیغامِ نکاح بھیجا تھا،اسی طرح سے لیث نے عقیل سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کی لیکن معمر نے زہری سے یوں روایت کیا ہے،کہ حضورِاکرم نے ان سے اس وقت نکاح کیاتھا،جب وہ ابھی حبشہ میں تھیں ،اور یہی درست ہے۔
جب ابوسفیان کو اس واقعہ کا علم ہوا ،توکہا،یہ وہ جوان مرد ہے جو اپنی آن پر حرف نہیں آنے دےگا۔
حضورِاکرم نے ام المؤ منین سے ہجری کے چھٹے سال میں نکاح کیا تھا،اور ان کی وفات چوالیس ہجری میں ہوئی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عمرو بن امیّہ الصخری کو نجاشی کے پاس اس نکاح کیلئے بھیجا تھا، زبیر بن بکار سے مروی ہے کہ محمد بن حسن نے عبداللہ بن عمروبن زبیر سے،انہوں نے اسماعیل بن عمرو سےروایت کی کہ ام المومنین سے مروی ہے،کہ انہیں اس وقت علم ہوا،جب نجاشی نے ایک لونڈی کو طلب اجازت کے لئے میرےپاس بھیجا،اور میں نے رضامندی کا اظہار کردیا،بادشاہ نے کہلوابھیجا تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے کہلوا بھیجا ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں،کہ آیا آپ حضور کے ازواج میں شامل ہونے کو آمادہ ہیں،میں آمادہ ہوگئی،اور کہلا بھیجا،کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے،مجھے کوئی عذر نہیں،بادشاہ نے پوچھا،اس سلسلے میں آپ کا وکیل کو ن ہوگا،میں نے خالد بن سعید کو اپنا وکیل مقر رکیا نجاشی نے جعفر بن ابو طالب کو کہلو ا بھیجا کہ وہ خود بھی مجلس نکاح میں موجود رہیں،اور حبشہ میں جس قدر مسلمان موجودہیں وہ بھی ضرور آئیں،نجاشی نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھجوایا ہے،کہ میں ام حبیبہ دختر ابو سفیان سے آپ کے نکاح پڑھادوں،میں نے تعمیل ارشاد میں حضورِاکرم کا نکاح کردیا ہے،اور دعا کرتا ہوں کہ خدا اس رشتے کو مبارک کرے اور بادشاہ حبشہ نے دینار بسلسلۂ ادائے مہر ان کے حوالے کردئیے ،ام المومنین نے حضورِاکرم سے احادیث روایت کی ہیں۔
جناب ام حبیبہ سے ان کے بھائی معاویہ بن سفیان نے دریافت کیا،آیا رسول اکرم جس لباس میں مجامعت کرتے،اس میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے،انہوں نے جواب دیا ،بشرطیکہ ان کپڑوں میں نجاست نہ لگ گئی ہو۔
نیز ام المومنین سے مروی ہے،کہ ابراہیم بن محمد وغیرہ نے باسنادہم ابوعیسٰی ترمذی سے،انہوں نے علی بن حجر سے انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے محمد بن عبداللہ شبعشی سے،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے عتبہ بن ابوسفیان سے،انہوں نے ام حبیبہ سے روایت کی کہ حضورِ اکرم نے فرمایا کہ جس نے ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار چار رکعت نماز اداکی خدا اس پر جہنّم کی آگ حرام کردیگا،تینوں نے ذکر کیا ہے۔