(سیّدہ )رقیقہ ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )رقیقہ ( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
رقیقہ دخترِ صیفی بن ہاشم بن مناف،طبرانی اور جعفر مستغفری نے انہیں صحابیات میں شمار کیا ہے،بقول ابو نعیم اس خاتون کو زمانۂ بعثت نصیب نہیں ہوا،٘٘٘٘٘ ابو موسیٰ نے اذناً کوشیدی سے ،انہوں نے ابوبکر بن ریدہ سے ، انہوں نے سلیمان بن احمد سے ،انہوں نے محمد بن موسیٰ بربری سے،انہوں نے زکریا بن یحییٰ طائی سے،انہوں نے عمِ ابوزجربن حصن سے،انہوں نے اپنے دادا حمید بن منہب سے،انہوں نے عروہ بن مضرس سے،انہوں نے محزمہ بن نوفل سے،انہوں نے اپنی والدہ رقیعہ سے،جو عبدالمطلب بن ہاشم کی ہم عمر تھیں،بیان کیا کہ قریش قحط میں پھنس گئے،جو کئی سال طاری رہا،تھنوں میں دُودھ خشک ہو گیا،اور ہڈیاں کمزور ہو گئیں،ایک رات میں سوئی ہوئی تھی یا ابھی ابھی آنکھ لگی تھی،کہ میں نے ایک ہاتف کو گلوگیر آواز میں چیختے سنا،کہہ رہاتھا،اے قریش!نبی آخر الزمان مبعوث ہونے کو ہیں،اور تم پر اس نبی کے عہد کا سایہ ہے،اور یہ زمانہ،اس کے ستارے کے طلوع کا ہے،تم پربارشوں اور فراوانی کا زمانہ جلدی جلدی آئے گا،تم اپنے اس آدمی کو دیکھو جو عالی نسب ،جو عظیم القدر اور مضبوط و توانا ہے، جس کا چہرہ کشادہ اور سفید ہے،جس کے بازو لمبے ہیں،جس کے رخسار نرم اور جس کی ناک اونچی ہے،وہ عظمت کا مالک ہے،لیکن اسےچھپائے پھرتا ہے،اور وہ ایسا راستہ ہے،جس کی طرف لوگ خود بخود آتے ہیں،وہ اور اس کا بیٹا اپنے اقران میں ممتاز ہیں،اس لئے ہر قبیلے سے ایک ایک آدمی اس سے ملاقات کرے،خوب پیٹ بھر کر پانی پئیں، خوشبو لگائیں،رکنَ کعبہ یعنی حجرِ اسود کو چُومیں،پھر ابو قیس پہاڑ پر چڑھ کر اس آدمی کو بُلائیں،اور قوم اس کی وجہ سے امان پائے گی اور اس پر تم بارش سے فیض یاب ہوگے۔
بخدا یہ سن کر میں ڈر گئی،اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئےاور میر ی عقل نے اسے پا لیا،اور میں نے اپنا خواب بیان کیا،اور مکے کی گھاٹیوں میں گھومی،اور حرمت کعبہ کی قسم کہ کوئی آدمی بھی ایسا نہ بچا،جس نے یہ کہا ہو کہ اس مراد عبدالمطلب ہیں،چنانچہ قریش کے لوگ ان کی طرف روانہ ہو پڑے،اور ہر قبیلہ سے ایک ایک آدمی ان کے پاس پہنچ گیا،پس انہوں نے خوب پانی انڈیلا،خوشبو لگائی،اور کعبہ کو چُوما اور ابو قیس پر چڑھے اور اس کا طواف کرنا شروع کیا،جس میں سکون نہیں تھا،آپ جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے،تو وہاں انہوں نے حضورِاکرم اور عبدالمطلب کو کھڑا دیکھا،آپ ابھی لڑکے تھے،عبدالمطلب نے ہاتھ اٹھائے اور دعا ٔکی ۔
"اے خدا ئےحاجت روا!اور مصائب کو دُور کرنے والے تو اس کا معلم ہے،جسے کسی نے نہیں پڑھایا اور تو ایسا مسئول ہے،جو کریم ہے،یہ لوگ تیرے غلام اور کنیزیں ہیں،تیرے حرم کا واسطہ دے کر تجھ سے قحط کی شکایت کرتے ہیں،بکریاں اور اونٹ تباہ ہوگئے ہیں،اے خدا تو ان پر ایسی بارش برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوجائے اور جانوروں کو گھاس میسّر آئے"۔
بخد ا ،نہوں نے دعا ختم ہی کی تھی،کہ آسمان پھٹ پڑا،اور وادیوں میں سیلاب آگیا،چنانچہ میں نے قریش کے سرداروں ،عبداللہ بن جد عان،حرب ابن امیہ اور ہشام بن مغیرہ کو کہتے سنا،اے ابوالبطحأ تونے اہلِ بطحأ کواس مصیبت سے چھڑایا،ذیل کے اشعار رقیقہ کے ہیں۔
(۱)لِشیبہ الحمدِاسقٰی بُلَدَتَنَا وَقَدفَقَدناالِحَیَاوَاجَلّوذَالمطَر
(ترجمہ)خدا نے شیبہ الحمد کے واسطے سے ہماری بستی پر بارش برسائی،ہماری فراوانی ختم ہو گئی تھی،اور بارش برسنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔
(۲)فَجَاءَبِلماءِجُونِّی لَھَاسُبَلٌ حَافَعاشَت نِہَالاَنعَامُ وَالشَجَر
(ترجمہ)سیاہ بادل پانی لے کر آیا،جو بارش سے لبالب بھراہواتھا،اور اس نے پانی برسایا،چنانچہ اس سے جانور اور درخت جی اٹھے۔
(۳)مَنَّامِنَ اللہِ بِالمَیمُونِ طَائِرُہٗ وَخَیرُ مَن بُشِّرت یَومًا بَہٖ مُضَرٗ
(ترجمہ)وہ ہم میں سے ہےجسے خدانے برکت عطا فرمائی،اور وہ شخص کتنا بھلا آدمی ہے،کہ جس کی بنو مضر کو بشارت دی گئی ہے۔
(۴)مُبارک الامریستقی الغمام بِہٖ مَافی الانام لہٗ عدل ولاخطر
(ترجمہ)اس کا وجود مبارک ہے کہ اس کی وجہ سے بادل نے ہمیں سیراب کیا،اور لوگوں میں اس کا نہ کوئی مثیل ہے نہ نظیر ہے۔