رُبَیع دختر نضر،ان کا نسب ہم ان کے بھائی کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں،یہ انصار کے قبیلے عدی بن نجار سے تھیں،اور حارثہ بن سراقہ کی والدہ تھیں،جو غزوۂ بدر
میں شہید ہو گئے تھے،ان کی والدہ حضور ِاکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور گزارش کی،یارسول اللہ حارثہ کس حال میں ہے،اگر وہ بہشت میں ہے،تو میں صبر کروں گی اور
اپنے آنسوؤں کو روکے رکھوں گی،اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر میں دل کھول کر روؤں گی، فرمایا،جنت کے کئی درجہ ہیں اور حارثہ کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی
ہے۔
یہ رُبَیع وہی خاتون ہیں،جنہوں نے ایک عورت کا اگلا دانت توڑ دیا تھا،چنانچہ ان کے قبیلے نے تاوان پیش کیا،مگر مخالفین نے معافی پر اصرار کیا،لیکن رُبَیع کے
خاندان نے معافی مانگنے سے انکا رکردیا،مقدمہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچا۔تو آپ نے قصاص کا حکم دیا،اس پر رُبَیع کا بھا ئی انس بن نضر
اُٹھا،اور عرض کیا ،یا رسول اللہ ،کیا آپ رُبَیع کادانت توڑ دیں گے،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچادین دے کر بھیجا ہے،اس کا دانت نہ توڑئیے گا، جب انس نے
مزاحمت کی ،تو ان لوگوں نے رُبَیع کا قصور معاف کردیا،حضور اکرم نے فرمایا،اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں،جو اللہ کے نام کی قسم کھائیں،اور خدا انہیں بری الذمہ
قراردیدے،ایک روایت میں ہے،کہ جس خاتون سے یہ قصور سرزد ہواتھا،وہ رُبَیع کی ہمشیر ہ تھیں۔
یحییٰ بن محمود اور عبدالوہاب بن ابی جہہ نے باسنادہما مسلم سے،انہوں نے ابوبکر بن ابی شیبہ سے ، انہوں نے عفان سے، انہوں نے حماد سے،انہوں نے ثابت سے،انہوں نے
انس سے روایت کی کہ رُبَیع کی بہن ام حارثہ نے ایک عورت کو زخمی کردیا،اور معاملہ حضورِ اکرم کے علم میں لایا گیا،حضورِ اکرم نے قصاص کا حکم دیا،ام الربَیع نے
عر ض کیا،یا رسول اللہ،کیا آپ رُبَیع سے قصاص لیں گے،بخدا ایسا ہرگز نہیں ہوگا،حضور نے فرمایا یہ اللہ کا حکم ہے،تم کیا کہہ رہی ہو،لیکن ام رُبَیع نے اس بات کو
اتنی دفعہ دہرایا،کہ مخالفین نے درگزر کردیا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ سے بھی کسی کام کی قسم کھالیں،تو خداانہیں
اس سے عہدہ برآہونے کا موقعہ فراہم کردیتا ہے،تینوں نے ذکر کیا ہے۔