سعدی دخترعمرو المریہ،یہ ابو عمر کا قول ہے،ابن مندہ اور ابو نعیم نےسعد دختر عوف بن خارجہ بن سنان لکھا ہے،یہ خاتون طلحہ بن عبیداللہ کی زوجہ اور یحییٰ بن طلحہ
کی والدہ تھیں،ان سے یحییٰ بن طلحہ، زفربن عقیل اور محمد بن عمران بن طلحہ نے روایت کی۔
ابو الفضل بن ابوالحسن الفقیہہ نے باسنادہ تا ابو یعلی موصلی ہارون بن اسحاق سے،انہوں نے محمد بن عبدالوہاب قناد سے،انہوں نے مسعر بن کدام سے،انہوں نے اسماعیل
بن ابو خالد سے،انہوں نے شعبی سے،انہوں نے یحییٰ بن طلحہ سے انہوں نے اپنی والدہ سعد المریہ سے روایت کی،کہ رسولِ کریم کی وفات کے بعد ایک بار حضرت حضرت عمر رضی
اللہ عنہ طلحہ کے پا س سے گزرے،وہ غمزدہ تھے، حضرت عمر نے کہا،کیا تجھے عمزاد کی امارت اچھی نہیں لگی،انہوں نے کہا نہیں ایسی کو ئی بات نہیں، میں نے حضورِاکرم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے سنا،کہ آپ کو ایک ایسے کلمے کا علم ہے،کہ جسے اگر کوئی بندہ بوقت وفات پڑھ لے تو اس کے نامۂ اعمال میں نُور ہی نُور ہوگا
اور اس کے جسم اور رُوح کو مرتے وقت مسرت حاصل ہوگی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا،مجھے اس کلمہ کا علم ہے، یہ وہی کلمہ ہے جوحضورِاکرم اپنے چچا سے کہلوانا
چاہتے تھے،اور اس سے بہتر کوئی اور کلمہ ہوتا ،تو آپ اس کا حکم دیتے،تینوں نے ذکر کیا ہے۔