مولانا حافظ برخوردار کے دُوسرے فرزند ارجمند تھے۔ صاحب علم و فضل تھے۔ فنِ طبابت میں بھی مہارتِ کامل رکھتے تھے۔ ظاہری و باطنی طور پر مریضوں کی خبر گیری بھی کیا کرتے تھے۔
نقل ہے کہ جب آپ کے والد مولانا حافظ محمد برخوردار نے آپ کی شادی کرنے کے بعد شیخ سعد اللہ اور نصرت اللہ دونوں بھائیوں کو اپنے ۔۔۔۔
مولانا حافظ برخوردار کے دُوسرے فرزند ارجمند تھے۔ صاحب علم و فضل تھے۔ فنِ طبابت میں بھی مہارتِ کامل رکھتے تھے۔ ظاہری و باطنی طور پر مریضوں کی خبر گیری بھی کیا کرتے تھے۔
نقل ہے کہ جب آپ کے والد مولانا حافظ محمد برخوردار نے آپ کی شادی کرنے کے بعد شیخ سعد اللہ اور نصرت اللہ دونوں بھائیوں کو اپنے اپنے گھروں میں الگ کیا تو شیردار بھینس شیخ نصرت اللہ کو دی اور اس کا بچّہ (کٹّا) شیخ سعداللہ کو عطا فرمایا۔ یہ بات آپ کو گراں گزری اور عرض کیا: یا تو یہ کٹّا بھی نصرت اللہ کو دے دو یا بھینس میرے حوالے کردو اور اگر یہی تقسیم آپ کو منظور ہے جو کہ کردی ہے تو میں نے خدا تعالیٰ سے منظور کرالیا ہے کہ یہ دونوں مرجائیں۔ چنانچہ واقعی دو(۲) دنوں میں بھینس اور کٹّا دونوں مرگئے۔
نقل ہے کہ آپ موضع بھاگت میں اپنی زمین کاشت کرتے تھے۔ وہاں کا مقدم (نمبر دار) سید انام معاملہ وصول کرنے پر آپ کو بہت تکلیف دیا کرتا، آپ صبر کیا کرتے۔ جب اس کی دشمنی او ربداعمالی حد سے تجاوز کر گئی تو آپ نے فرمایا: اے سیّدا! اب وقت آپہنچا ہے، کہ تُو اب اپنی بد اخلاقی کے باعث غضبِ الٰہی میں گرفتار ہوجائے گا۔ چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس کے دونوں بیٹے جو بڑے لائق تھے، مرگئے اور مال واسباب چوروں نے لُوٹ لیا اور وہ خود اندھا ہوکر بدحالی میں ایسا گرفتار ہوا کہ در در گدائی کرتا ہُوا مرگیا۔ شیخ سعد اللہ نے ۱۱۷۵ھ میں وفات پائی۔
شیخ سعد اللہ ولئی دو جہاں سالِ تاریخِ وصالِ آں جناب
|
|
شد چو از دنیا بجنّت شد قریب گفت سرور ’’شیخ سعد اللہ بجنت شد قریب‘‘[1] ۱۱۷۵ھ
|
[1]۔ شیخ سعد اللہ کا صحیح سالِ وفات ۱۱۲۵ھ ہے۔ (اذکار نوشاہیہ ص ۴۸)۔