سفافہ دختر حاتم طائی،ہم ان کے بھائی عدی کے ترجمے میں ان کا نسب بیان کرآئے ہیں،ان کے والد حاتم کی کنیت ابوسفانہ تھی۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس ے ،انہوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ،کہ حضور اکرم کے ایک دستہ فوج نے سفانہ کو قید کرلیا،اور حضورِاکرم کے سامنے پیش کیا،آپ نے
دروازۂ مسجد کے سامنے ایک حجرے میں ان کے قیام کا بندوبست فرمایا،نبی کریم وہاں سے گزرے تو سفانہ نے اُٹھ کر گزارش کی، یارسول اللہ! میرا والد فوت ہوگیاہے،اور
میرا کفیل غائب آپ مجھ پر کرم فرمائیں،اللہ آپ کو اس کی جزاد ے گا،دریافت فرمایا،تیرا کفیل کون ہے،کیا عدی بن حاتم اللہ اور رسول کا بھگوڑا،حضورِ اکرم مجھے
اسی حالت میں چھوڑ کر آگے نکل گئے۔
اسی طرح تیسری بار پھر میرے پاس سے گزرے،اور ایک آدمی نے جوحضورِاکرم کے پیچھے چل رہے تھے،اشارہ کیاکہ میں اپنی عرضداشت پھر پیش کروں،چنانچہ میں نے مذکورہ بالا
کلمات پھر دہرائے،فرمایا،تم جلدی نہ کرو،کوئی اچھا قابل اعتماد آجائے،تو میں تمہیں جانے کی اجازت دے دوں گا،میں نے آپ کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں دریافت
کیا تو بتایاگیاکہ وہ علی بن ابی طالب ہیں۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ بنوبلی کا ایک قافلہ وہاں آگیا،میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی،اور گزارش کی کہ میرے قبیلے کے کچھ لوگ آگئے ہیں،مجھے ان کے ساتھ جانے کی
اجازت دی جائے، آپ نے مجھےکپڑے،سواری اورزادِراہ عطا فرمایا،اور میں شام میں اپنے بھائی سے جا ملی،عدی نے مجھ سے دریافت کیا،تمہارا اس آدمی (رسولِ کریم) کے
بارے میں کیا خیال ہے،میں نے جواب دیا،کہ تم فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔
یونس نے یہ حدیث اسی طرح بیان کرکے یہ اضافہ کیا ہے،کہ سفانہ نے اسلام قبول کیا،اور خود کو اس سانچے میں ڈھال لیا،ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے ان کا ذکر کیاہے۔