صفیہ دخترعبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف قرشیہ ،ہاشمیہ،حضور اکرم کی پھوپھی تھیں،اور زبیر بن عوام کی والدہ ،ان کی والد ہ کا نام ہالہ دختر وہیب بن عبد مناف بن
زہرہ تھا،اور وہ حمزہ،مقوم اور حجل کی بہن تھیں،ان کے اسلام کے بار ے میں کو ئی اختلاف نہیں،ہاں البتہ عاتکہ اور اروی کے بارے میں اختلاف ہے،لیکن صحیح روایت یہی
ہے،کہ سوائے جناب صفیہ کسی اور نےاسلام قبو ل نہیں کیا، زمانہ جاہلیت میں ان سے حارثہ بن حرب نے جو سفیان کا بھائی تھا،نکاح کیا تھا،اس کی وفات کے بعد عوام بن
خویلد کے نکاح میں آئیں،اور دو بچوں زبیر اور عبدالکعبہ کو جنم دیا،لمبی عمر پائی،اورہجری کے بیسویں سال ،حضرت عمر کے عہد خلافت میں وفات پائی،۷۳برس زندہ رہیں،
اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں،ایک روایت میں ہے کہ جناب صفیہ کا نکاح پہلے عوام سے ہوا تھا، لیکن یہ روایت بے اصل ہے۔
جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہوئے،تو بہن کوجتنا دکھ ہوا،اتنی ہی شدت سے انہوں نے بھائی کی شہادت پر صبر کیا،ابو جعفرنے باسنادہ یونس سے ،انہوں
نے ابن اسحاق سے انہوں نے زہری عاصم بن عمر بن قتادہ،محمد بن یحییٰ بن حبان ،حصین بن عبد الرحمٰن بن عمرو بن سعد بن معاذ وغیرہ سےغزوۂ احداور شہادت حمزہ کے
بارے میں روایت کی،کہ صفیہ اپنےبھائی حمزہ کی شہادت کے بارے میں سُن کر انہیں دیکھنے آئیں،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے بیٹے زبیر کو کہا،کہ
تمہاری ماں،بھائی کو دیکھنے آرہی ہے،تم اس مِل کر واپس کردو،بیٹے نے ماں سے کہا، امّی، حضورنے فرمایا ہے،تم واپس چلی چاؤ،انہوں نے جواب دیا،بیٹا جو کچھ تمہارے
ماموں کو پیش آیا ہے،وہ میں سن چکی ہوں،جوکچھ ہؤا ہے،اللہ کی راہ میں ہواہے،میں اس پر راضی ہوں،انشاءاللہ صبر کروں گی،اور جذبات پر قابو رکھوں گی،جب زبیر نے
آپ کو ماں کی باتیں بتائیں،تو آپ نے جناب حمزہ کی لاش دیکھنے کی اجازت دے دی،بھائی کو دیکھ کر واپس ہوئیں،اور دعائے مغفرت کی،اس کے بعد آپ نے تدفین کا حکم
دیا۔
ابنِ اسحاق نے یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر سے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ غزوۂ خندق کے موقعہ پر جناب صفیہ حسان بن ثابت کے ساتھ ایک پہاڑی قلعے
میں پناہ گزیں تھیں اور جناب حسان،خواتین اور بچوں کے ساتھ(بغرض حفاظت)قلعے میں تھے،جناب صفیہ نے دیکھا ،کہ ایک یہودی قلعے کے ارد گرد گھوم کر اس کا جائزہ لے
رہاہے،بنو قریظہ کے ساتھ تعلقات منقطع ہوچکے تھے،حضورِاکرم غزوۂ خندق میں مصروف تھے،اور بنو قریظہ اور ہمارے درمیان کو ئی بچاؤ نہ تھا،جو ہمیں ان سے بچاسکے،میں
نے حسان سے کہا،کہ یہ یہودی اس لئے قلعے کے چاروں طرف گھوم رہا ہے،کہ وہ یہود کو ہمارے بارے میں جاکر بتائے،اور وہ ہم پر حملہ کردیں،بہتر ہے،آپ اسے جاکر قتل
کردیں،انہوں نے جواب دیا،بی بی!اگر مجھ میں یہ جوہر ہوتا،تو میں یہاں نہ ہوتا، جب میں نے دیکھا کہ وہ ٹس سے مَس نہ ہوئے،اور ان کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہ
تھا،میں اُٹھی اور ایک لاٹھی اُٹھائی اور قلعے سے باہر نکل کر دشمن کو قتل کردیا،واپس آکر حسان سے کہا جائیے،اس کے ہتھیار ہی اتار لائیے،بولے مجھے ان کی کوئی
ضرورت نہیں،یونس نے ہشام بن عروہ سے ،انہوں نے اپنے والد سے ،انہوں نے صفیہ سے ،اسی طرح روایت کی،اور اس روایت میں صرف اتنا اضافہ کیا،صفیہ پہلی خاتون تھیں
جنہوں نے دشمنوں کے ایک آدمی کو قتل کیا،تینوں نے ذکر کیا ہے۔