صاحب ہدایہ
صاحب ہدایہ (تذکرہ / سوانح)
علی بن ابی بکر بن عبد الجلیل بن خلیل بن ابی بکر فرغانی مرغینانی: ابو الحسن کنیت اور برہان الدین لقب تھا اور حضرت ابو بکر صدیق کی اولاد میں سے تھے، پیر کے روز بتاریخ ۸؍رجب ۵۱۱ھ بعد عصر کے پیدا ہوئے اپنے وقت کے امام فقیہ حافظ محدث مفسر جامع علوم ضابط فنون متقن محقق مدق نظار زاہد اورع بارع فاضل ماہر اصولی ادیب شاعر تھے۔علم اور ادب میں آپ کی مثل آنکھوں نے کوئی شخص نہیں دیکھا۔علم خلاف میں ید طولیٰ معرفر مذہب میں دستگاہ کامل حاصل تھی اور آپ کی بزرگی اور تقدم کا آپ کے معاصرین مثل امام فخر الدین قاضی خان اور محمود بن احمد بن عبد العزیز مؤلف محیط و ذخیرہ اور شیخ زین الدین ابو نصر احمد بن محمد بن عمر عتابی اور ظہیر الدین محمد بن احمد بخاری مؤلف فتاویٰ ظہیریہ وغیر ہم نے اقرار کیا۔ ابن کمال پاشا نے آپ کو طبقۂ اصحاب ترجیح سے شمار کیا ہے لیکن پاشا موصوف کی اس تقسیم پر تعاقب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صاحب ہدایہ کی شان قاضیخان سے کچھ کم نہیں بلکہ اگر صاحب ہدایہ کے نقد دلائل اور استخراج مسائل کی طرف خیال کیا جائے تو ہ اس بات کے لائق ہیں کہ ان کو مجتہد ین فی المذہب میں تصور کیا جائے۔
فقہ آپ نے ائمۂ مشہور ین سے پڑھی جن میں سے مفتی ثقلین نجم الدین ابو حفص عمر نسفی ہیں چنانچہ آپ نےجو اپنے شیخوں کو ایک کتاب میں جمع کیا تو اس میں آپ نے نجم الدین ابو حفص کا نا م پہلے لکھا پھر ان کے بیٹے ابا اللیث احمد بن عمر نسفی کا نام لکھا اور نیز آپ نے صدر الشہید حسام الدین عمر بن عبد العزیز بن عمر بن مازہ اور صدر الشہید تاج الدین احمد بن عبد العزیز سے جنہوں نے اپنے باپ عبدالعزیز،انہوں نے امام سرخسی،انہوں نے حلوائی،انہوں نے ابی علی نسفی،انہوں نے ابی بکر محمد بن فضل،انہوں نے سبذ مونی،انہو ن نے ابی عبداللہ،انہوں نے اپنے باپ، انہوں نے امام محمد سے تفقہ کیا تھا اور فقہ اخذ کی نیز ضیاء الدین محمد بن حسین بندینجی تلمیذ علاءالدین سمر قندی مؤلف تحفہ اور ابی عمر عثمان بن علی بیکندی شاگرد شمس الائمہ سر خسی اور قوام الدین احمد بن عبد الرشیدبخاری والد صاحب خلاصۃ الفتاویٰ اور شیخ امام بہاء الدین علی بن محمد بن اسمٰعیل اسپیجابی وغیر ہم سے اخز کیا،۵۴۴ھ میں حج کیا اور زیارت مرقد سر ور کائناتﷺسے مشرف ہوئے۔تصنیفات بھی بہت کیں چنانچہ کتاب ہدایہ المبتدی،وکتاب کفایۃ المنتہی و کتاب المنتقیٰ وکتاب التجنیس والمزید و کتاب مناسک الحج و کتاب نشر المذہب وکتاب محتارات النوازل و کتاب الفرائض مشہور و معروف ہیں اور کتا ب ہدایہ تو آپ کی اشہر تالیفات سے ایسی معتمد علیہ ہے کہ علمائے حنفیہ کے فتویٰ کا مدارا سی پر ہے۔
کہتے ہیں کہ آپ نے ماہِ ذیعقدہ ۵۷۳ھ میں چہار شنبہ کے روز بعد نماز طہر کے ہدایہ تصنیف کرنا شروع کیا اور ۱۳ سال کے عرصہ میں ختم کیا،اس مدت میں آپ ہمیشہ روزہ دار رہے اور سوائے ایام مہینہ کے کبھی افطار نہ کیا اور کسی کو اپنے روزہ سے خب ر دار نہ کرتے تھے،جب خاد م کھانا لاتا تو آپ اس کو فرماتے کہ رکھ کر چلا جا،جب وہ چلا جاتا تو آپ کسی طالب علم کو بلا کر کھلا دیتے اور ہدایہ کی تصنیف کی وجہ یہ تھی کہ ابتدائے حال میں آپ نے چاہا کہ کوئی مختصر کتاب فقہ میں تالیف کی جائے جس میں ہر طرح کے مسائل ہوں پس آپ نے مختصر قدوری اور جامع صغیر کو پسند کر کے ان کے مسائل تبر کا جامع صغیر کی ترتیب پر فراہم کر کے ہدایۃ المبتدی اس کا نام رکھا اور اس میں اس بات کا وعدہ کیا کہ بشرط فرصت اس کی شرح کفایۃ المنتہیٰ کے نام سے لکھی جائے گی سو حسب وعدہ کفایۃ المنتہیٰ اس مجلد میں تصنیف کی لیکن پھر اندیشہ کیا کہ شاید اس قدر بڑی شرح کو کوئی نہ دیکھے اس لیے اس کی دوسری مختصر شرح حاوی اور نافع ہدایہ نام سے لکھی اور اس میں عیون روایت اور متون ورایت کے جمع کیے۔آپ کے بعد ایک جم غفیر علماء و فضلاء نے آپ کے ہدایہ کی شرحیں لکھیں اور جو احادیث اس میں بطور استناد واقع ہوئی تھیں،ان کی تخریج کی۔آپ سے ایک جم کی غفیر علماء نے تفقہ کیا جن میں سے آپ کی اولاد امجاد شیخ الاسلام جلال الدین محمد اور نظام الدین عمر اور شیخ الاسلام عماد الدین بن ابی بکر بن صاحب ہدایہ اور شمس الائمہ کر دری اور جلا الدین محمود بن حسین استروشنی والد مفتی صاحب فصول استر و شینہ وغیرہم ہیں۔
برہان الاسلام زر نوجی تلمیذ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب تعلیم المتعلم کی فصل ثانی میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ امام اجل صاحب ہدایہ نے یہ شعر مجھ کو سنائے؎
فساد کبیر عالم متہمتک واکبر منہ جاہل متسنک
ہما فتنہ فے العٰلمین عظیمۃ لمن بہا فی دینہ متمسک
اور فضل ہدایۃ السبق میں لکھا ہے کہ ہمارے استاد و شیخ ہدایۃ سبق کو چہار شنبہ کے روز پر موقوف رکھا کرتے تھے اور اس بارہ میں یہ حدیث روایت کیا کرتے تھے قال رسول اللہﷺما من بدیٔ یوم الاربعاء الاتم اور کہتے تھے کہ اسی طرح امام ابو حنیفہ بھی کرتے تھے اور نیز فرماتے تھے کہ طالب علم کو چاہئے کہ سستی نہ کرے کیونکہ یہ اس کے تحصیل علم کے لیے بڑی آفت ہے اور نیز فرماتے تھے کہ طالب علم کو چاہئے کہ امام اعظم کی کتاب وصیت کو حاصل کرے جو انہوں نے واسطے یوسف بن خالد کے جبکہ وہ اپنے اہل کے پاس واپس آئے تھے لکھی تھی اور نیز جب میں اپنے شہر کو واپس آیا تو میرے استاذ نے مجھ کو کتاب وصیت کے نقل کرنے کا حکم دیا پس میں نے اس کو لکھا۔پھر فصل وقت تحصیل میں لکھا ہے کہ میرے استاذ صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ بہت سے مشائخ کبیر کو میں نے پایا ہے مگر ان سے اتخراج نہیں کیا سو اس فروگذاشت پر میں یہ شعر کہتا ہوں ؎
لہفی علیٰ فوت اللیالی لہفی ماکل ما فات وینقی یلغے انتہیٰ۔
وفات آپ کی سمر قند میں ۵۹۳ھ میں واقع ہوئی۔تاریخ وفات آپ کی ’’مجتہد مسائل‘‘ سے نکلتی ہے مر غینانی طرف مر غینان کے منسوب ہے جو سات بلاد فرغانہ میں سے ایک شہر ولایت ماوراء النہر میں واقع ہے جس کے شرق میں کا شعر اور عرب میں سمر قند ہے۔
(حدائق الحنفیہ)