مختار بن محمود بن محمد زاہدی غربینی: ابو الرجاء کنیت،نجم الدین لقب تھا ائمۂ کبار اور اعیان فقہاء میں سے عالم اجل،فقیہ فاض،خلاف مذہب میں ید طولیٰ ر کلام و مناظرہ میں دستگاہ کامل رکھتے تھے۔تصانیف نہایت عمدہ کیں جو بہت جلد مشہور اور متدادل ہو گئیں جن میں سے شرح مختصر قدوری المسمے بہ مجتبیٰ اور قنیۃ المنیۃ تعتمیم الغنیہ جس کو بدیع قزبنی کی بحر محیط اور کتاب الحاوی سے انتخاب کیا اور زادا الائمہ اور رسالہ ناصر یہ اور جامع فی الحیض اور کتاب الفرائض ہیں مگر ابن و ہبان وغیرہ نے تصریح کی ہےکہ آپ معتزلی الاعتقاد حنفی الفروع تھے اور چونکہ آپ کی تصنیفات رطب ویابس سے پر ہے اس لیےجب تک دیگر کتب سے آپ کی کتب کے مسائل مطابق نہ ہوں،قابل اعتبار نہیں علوم آپ نے اکابرین سے حاصل کیے جن میں سے محمد بن عبد الکریم ترکستانی شاگرد و ہقان کاشانی تلمیذ نجم الدین عمر نسفی اور ناصر الدین مطرزی صاحب مغرب تلمیذ علامل زمخشری اور صدر القراء سند الائمہ یوسف بن محمد خوارزمی اور سراج الدین یوسف سکاکی اور فخر الدین قاضی بدیع ہیں۔
جب آپ رتبۂ فضیلت و کملایت کو پہنچے تو بغداد میں تشریف لائےاور وہاں کے ائمہ و فضلاء سے خوب منظرےکیے،پھر روم میں پہنچے اور مدت تک سکونت اختیار کر کے فقہاءکو درس دیا اور ۶۵۸ھ میں وفات پائی۔’’شمع مدارج‘‘آپ کی تاریخ وفات ہے۔غزمینی طرف غزمین کے منسوب ہے جو خوارزم کے شہروں میں سے ایک شہر کا نام ہے۔
(حدائق الحنفیہ)