حسین بن علی واعظ کاشفی الشہری بہ مولیٰ صفی صاحب تفسیر حسینی: کمال الدین یا علاء الدین لقب رکھتے تھے،تمام علوم ظاہری و باطنی اور فنون نقلی ورسمی میں مشارکت عامہ و معرفت تامہ حاصل تھی لیکن علوم نجوم و انشاء میں اپنی نظر نہ رکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ پہلے آپ مائل بہ تشیع تھے پھر مضبوط اہلِ سنت ہوکر حنفی المذہب ہوئے۔آواز نہایت خوش اور صورت دلکش سے وعظ و نصائح میں مشغول رہتے اور عبارات لائقہ میں معانی آیات بینات کلام الٰہی اور عوامض اسرار احادیث حضرت رسالت پناہی کو ظاہر فرماتے تھے۔ہر جمعہ کی صبح کو دار السلطنت سلطانی میں جو ہرات کے چوک میں واقع ہے،وعظ فرماتے اور بعد داسے نماز جمعہ کے جامع مسجد علی شیر میں وعظ کرتے اور شنبہ کے روز مدرسۂ سلطانی میں اور چار شنبہ کے یوم مزار پر پیر محمد خواجہ ابو الولید احمد میں اپنے مواعظ بلیغہ سے گم کردگان راہ ہدایت کو راہِ راست پر لاتے تھے۔تصنیفات بھی کثرت سے کی جن میں سے جواہر التفسیر لتحفۃ الامیر جس کے اول علوم متعلقہ تفسیر مشتمل بربائیس فن چار فصلوں میں بیان کیے۔ مواہب العلیہ المشہور بہ تفسیر حسینی،روضۃ الشہداء،انور سہیلی،اخلاق محسنی، مخزن الانشاء،رشحات عین الحیوۃ دربارۂ مناقب مشائخ نقشبندیہ،الرسالۃ العیلہ فی الاحادیث النبویہ،لوائح القمر وغیرہ مشہور و معروف ہیں وفات آپ کی ۹۱۰ھ میں ہوئی۔’’سالار احقیقت‘‘ تاریخ وفات ہے اور آپ کے بعد آپ کے فرزند اجمند مولانا فخر الدین علی جانشین ہوکر ہر جمہ کی صبح کو جامع مسجد ہرات میں وعظ و نصائح میں رہے جن کی منظومات سے حکایت محمود دوایاز کی وزن لیلیٰ و مجنوں پر مشہور و معروف ہے۔
(حدائق الحنفیہ)