سخی نَروہّاب بھلوالی رحمتہ اللہ علیہ
سخی نَروہّاب بھلوالی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ مجموعہ حسنات۔مستجاب الدعوات۔سرحلقہ خاندان سلمانیہ ۔خلاصہ دودمان بھلوالیہ۔ صاحب جذبہ و خوارق و کرامات تھے۔
نام ونسب
آپ کا نام شیخ عبدالوہاب المعروف سخی نَروہّاب تھا۔آپ حضرت شیخ تاج محمود قلندر بن سخی شاہ سلیمان نوری رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداکبراور مریدوخلیفہ تھے اور اپنے وقت میں تمام برادران ہمجدی سے بلند مقام پرفائزتھے۔
کرامات
آپ جوکچھ منہ سے فرماتے۔حق تعالیٰ منظور کرلیتا۔
ظفرمندی کی دعا
منقول ہے کہ آپ کے زمانہ میں قوم پنججتّھہ زمیندار سکنائے چاوہ ضلع شاہ پور چڑھائی کرکے بھلوال شریف کو لوٹ لے جایاکرتے تھے۔ایک دن باشندگانِ بھلوال نے اُن کے مظالم سے تنگ آکر آپ کے حضور میں شکایت کی ۔آپ نے فرمایا۔اب تم چاوہ پر حملہ کردو۔ انشأاللہ تمہاری فتح ہوگی۔چنانچہ انہوں نے حملہ کیااورفتح یاب ہوئے۔اس فتح کی خوشی میں اُنہوں نے ایک کنواں معہ رقبہ اراضی آپ کو نذرانہ میں دیا۔
سرداری کی دعا
منقول ہے کہ آپ کے عہد میں موضع ساہن پال کی سرداری چوہدری اجمیر بن رحمان قلی تارڑ کے متعلق تھی۔وہ بڑامغرورومتکبّر تھا۔اپنے ہم جدی بھائیوں اور مسکینوں کو بہت تنگ کیاکرتا۔اس کا چچازاد بھائی خان محمد بن محمد قلی اور اس کا بھتیجاجواہر خاں بن عبدالخالق دونوں اس کے مظالم سے تنگ آکراستغاثہ کے لیے بھلوال شریف حضور کی خدمت میں پہنچےاور اس کے مظالم کا تذکرہ کیااورنذرانہ میں ایک ٹاڈ ۱؎ پیش کی۔جس کی قیمت چند درہم تھی۔آپ نے ازراہ کشف آگاہ ہوکرفرمایاکہ یہ ٹاڈتو تمہاری والدہ کی ہے۔انہوں نے کہا ہمارے گھر میں اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی۔جو ہم حاضرکرتے۔آپ کو ان کی حالتِ زار پررحم آیا اور اجمیر کے متعلق فرمایا: "مرغی ہم نے انڈوں پربٹھائی تھی۔مگراس نے گندے ہی کردیئے ہیں"۔او رفرمایا تم جاؤ اجمیر کو ظلم کی سزامِل جائے گی اور گاؤں کے سردار تم ہوجاؤگے۔چنانچہ چندروز کے بعد باشندگان اگرویہ نے اجمیرکو قتل کردیااوردونوں اشخاص گاؤں کے مالک ہوگئے۔
اب تک انہیں دونوں کی اولاد میں نمبرداری چلی آتی ہے۔
۱؎ٹاڈچاندی کا زیورہے جو عورتیں بازو پرپہنتی ہیں ۱۲ سیّد شرافت
ایک مرید کو شیر سے بچانا
منقول ہے کہ آپ چوسر کھیلاکرتے تھے۔ایک دن کسی زمیندار کوکہاکہ ہمارے ساتھ چوسرکھیلو۔اُس نے عرض کیا ۔کہ بسااوقات آپ اثنائے کھیل میں حریف مقابل پر غُصّے ہوجاتے ہیں اور بددُعادے دیاکرتے ہیں۔اس لیے میں نہیں کھیلوں گا۔آپ نے فرمایا میں غصّے میں نہیں ہوں گا۔وہ آپ کے ساتھ کھیلنے لگا۔اسی اثنأ میں آپ نے ایک نرد پکڑکر دوسرے پر ماری اور بلندآواز سے کہا"اِس طرح مار"آپ کے جوش طبیعت کو دیکھ کر ڈر کے مارے اُس کو غش آگیا۔آپ نے اُس پر ہاتھ پھیرا۔اُس کو ہوش آئی۔توآپ نے فرمایا۔کوئی فکرنہ کرو۔میں نے کسی کو بددعانہیں دی۔تھوڑی دیر کےبعدآپ کا ایک ماچھی مریدآگیااور واقعہ سنایاکہ میں آج جنگل میں لکڑیاں لینے گی تھا۔شیرنے مجھ پر حملہ کردیا۔اس وقت میں نے آپ کو امدادکے لیے پکارا۔یا مرشدبچائیو۔پس میں نے دیکھاکہ ایک ہاتھ میں نردہے اور شیر کے منہ پر مارکر فرماتے ہیں۔ "اس طرح مار"وہ شیربھاگ گیااورمیں بچ گیا۔
آپ کافرمان پوراہوا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ سیّد محمد سعید صاحب دُولابن سیّد محمد ہاشم صاحب دریادل نوشاہی رحمتہ اللہ علیہ پالکی نشین ہوکر سفرمیں تشریف لے جارہےتھے۔آگے سے آپ پاپیادہ قلندرانہ اطوارپرچلے آتے تھے۔انہوں نے نیچے اُترکرسلام وآداب نہ کیا۔پالکی میں بیٹھے ہی ایک روپیہ نذرانہ آپ کے آگے زمین پر پھینک دیا۔اُس وقت آپ جوش میں آگئے اور فرمایا تم اپنے رعب واقبال کی وجہ سے اب اولادِسخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کی تعظیم سے کنارہ کش ہوگئے ہو۔ لہذا آج کے بعد شاید پالکی پر نہ چڑھ سکواور نذرانہ بھی واپس کردیا۔چنانچہ انہیں ایّام میں حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان برخورداری رحمتہ اللہ علیہ نے اُن پر جاگیرکی واپسی طلبی کا دعوےٰ کردیا۔جس وہ پر بجبرو تشدّد خود متصرف ہوچکے تھےاور اپنے برادرانِ عم زاد کا حِصّہ غصب کرکے ان کو جواب دے دیاہواتھا۔اُن کادعوےٰ ثابت ہوگیااور نصف حِصّہ جاگیرعدالت کے فیصلہ کے مطابق ساداتِ برخورداریہ نے واپس لیااور گذشتہ چندسالوں میں جو کچھ جاگیر کی آمدنی قبضہ پرلاکر خرچ کرچکے تھے۔اپنی زمین کو رہن رکھ کر وہ روپیہ اداکیا۔کچھ رقم بقایانکلی۔جس کےلیے پالکی فروخت کرکے برادرانِ برخورداریہ کاحق اداکیا۔چند مبلغات پھر بھی باقی رہ گئے۔جو انہوں نے فراخدلی سے بخش دیئے۔اس کےبعد سیّد محمد سعید پھرکبھی پالکی پر نہ چڑھے۔
روایات
مرزااحمد بیگ صاحب لاہوری رحمتہ اللہ علیہ آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنےرسالہ الاعجاز میں دوروایتیں آپ کی زبان سے نقل کی ہیں۔
۱۔حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے گھرمیں فقروفاقہ کابیان۔
۲۔حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک وقت میں متعددجگہوں پرموجودہونا۔
اولاد
آپ کے ایک ہی فرزند شیخ عبدالستار صاحب رحمتہ اللہ علیہ تھے۔جو لاولد فوت ہوئے۔آپ کی چار بیٹیاں تھیں جن کی اولاد باقی ہے۔
وفات:
سخی نروہاب کی وفات ۱۱۳۵ھ میں ہوئی۔
آپ کا مزارمبارک ۔روضہ شریف حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے اندراپنے والد صاحب اورداداکے درمیان واقع ہے۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)