سبیعہ دختر حارث اسلمیہ،سعد بن خولہ کی زوجہ تھیں،سعد حجتہ الوداع کے موقعہ پر فوت ہوگئے تھے، سبیعہ اس وقت حاملہ تھیں،اور خاوند کی وفات کے چند دن بعد یا پندرہ
دن بعدیا ایک ماہ بعد انکی اولاد ہوئی۔
ابوالحرم مکی بن ریان نحوی نے باسنادہ یحییٰ بن یحییٰ سے،انہوں نے مالک بن انس سے،انہوں نے عبدریہ بن سعید سے ،انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت کی،کہ
عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے ایک ایسی عورت کے بارے میں پوچھا جو حاملہ ہو،اور اس کا خاوند فوت ہوجائے،تو اس کی عدت کیا ہوگی،ابن عباس نےکہا،کہ جو عدت بعد
میں ختم ہوگی،اس عورت کو وہ گزارنا ہوگی، ابوہریرہ نے کہا کہ وضع حمل کے بعد اس کی عدت ختم ہوجائے گی،بعد ازیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ام المومنین امِ سلمہ کے
پاس گئے اور ان سے فتویٰ پوچھا،انہوں نے جواب دیا کہ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ جنا،اور دو آدمیوں نے جن میں سے ایک جوان اور
دوسرا ادھیڑ عمر کا تھا،اسے نکاح کا پیغام بھیجا،سبیعہ نے جوان کو ترجیح دی،ادھیڑ عمر کے آدمی نے سبیعہ سے کہا،کہ تیری عدت ابھی ختم نہیں ہو ئی،بات یہ تھی کہ
سبیعہ کے قرابتدار اس وقت موجود نہ تھے، وہ معاملے کو اس لئے طول دیناچاہتا تھاکہ وہ آجائیں،تو ممکن ہے،ان کی مداخلت سے اس کاکام ہوجائے،سبیعہ نے حاضر خدمت ہو
کر صورتِ حال بیان کی،تو آپ نے فرمایا،تیری عدت گزر چکی ہے،جس سے نکاح کرلے۔
سبیعہ سے عبداللہ بن عمر نے روایٔت کی،حضورِاکرم نے فرمایا،تم میں سے جو شخص مدینے میں مرنا چاہے اے اس سے فائد ہ اٹھانا چاہیئے،کیونکہ جو شخص یہاں مرے گا،میں
اس کا گواہ ہونگا،اور قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابوعمر لکھتے ہیں،کہ عقیلی کا خیال ہے،کہ وہ سبیعہ جس سے ابنِ عمر نے روایت کی ،سبیعہ اسلمیہ سے مختلف خاتون ہیں،لیکن یہ خیال غلط ہے۔