سلمٰی دختر عمیس خشعمیہ ہمشیرۂ اسما،ان کا نسب ہم ان کی بہن کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں،یہ ان بہنوں میں شامل ہیں،جن کے بارے میں حضورِاکرم نے فرمایا
تھا،"اخوت مومنات" یہ خاتون حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں،ان کی شہادت کے بعد ان سے شداد بن اسامہ بن ہادیشی نے نکاح کرلیا تھا،اور عبداللہ اور
عبدالرحمٰن نامی دو لڑکے ان کے بطن سے ہوئے تھے،ایک روایت میں ہے،کہ حمزہ کی زوجہ کا نام اسمأ دختر عمیس تھا،اور شداد نے ان سے شادی کی تھی،اور پھر جعفر نے،
لیکن یہ غلط ہے۔
ہمام نے قتادہ سے انہوں نے سلمٰی سے روایت کی کہ ان کا مولیٰ مرگیا،اور دو بیٹیاں وار ث چھوڑ گیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی بیٹی کو وراثت کا نصف
اور نصف یعلی کو جو حمزہ کا بیٹا تھا،دے دیا،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ جو شخص اسمأ کو اولاًحمزہ کی پھر شداد کی اور آخر میں جعف کی بیوی قرار دیتا ہے، وہ غلطی پر ہے،کیونکہ اس بات پر اہل السَیر کا اتفاق
ہے،کہ جعفر اپنی بیوی اسما کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے،وہا ں ان کے بچے پیدا ہوئے،اور جعفر نے جب حبشہ سے مدینے کو مراجعت کی، تو حضورِاکرم صلی اللہ
علیہ وسلم خیبر کے محاصرے میں مصروف تھا،اور حمزہ غزوۂ احد میں قتل ہوچکے تھے،یہ کیسے ممکن ہے،کہ اسماءاس دوران میں شداد کے نکاح میں آتی ہوں،حالانکہ وہ تو
حمزہ کی زندگی ہی میں حبشہ چلی گئی تھیں،نیزاس میں بھی شُبہ نہیں کہ جعفر کی شہادت کے بعد اسماءسے حضرت ابوبکر نے شادی کی،اور ان کے بطن سے محمدپیدا ہوئے اور
ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی نے اسماء سے نکاح کیا،اس بناپر صحیح امر یہی ہے،کہ حمزہ کی زوجہ کا نام سلمیٰ تھا۔
اس کے ثبوت میں یہ واقعہ پیش کیا جاسکتا ہے،کہ جب عمرۂ قضا کے موقع پر حضرت علی نے حمزہ کی بیٹی کو اپنی تحویل میں لے لیا،توجعفر اور زید بن حارثہ نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا استحقاق پیش کیا،تو حضور نے اس بچی کو یہ کہہ کر جعفر کے سپر دکردیا،کہ خالہ وادہ کے برابر ہوتی ہے۔