سلمیٰ دختر قیس بن عبیدبن مالک بن عدی بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار،ان کی کنیت ام منذر تھی ،اورسلیط بن قیس کی ہمشیرہ تھیں،اور حضورِاکرم کی (ازجانب والد)
پھوپھی تھیں اور ابن مندہ کے مطابق ان کی کنیت ام ایوب تھی،لیکن پہلی روایت درست ہے،انہوں نے حضورِاکرم سے بیعت کی،دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی،اور بیعت رضوان
کے موقعہ پر موجود تھیں۔
ابو جعفر نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے سلیط بن ایوب سے،انہوں نے اپنی والدہ سے،انہوں نے سلمیٰ دختر قیس سے روایت کی،کہ ہم نے حضورِاکرم سے
اس امر پر بیعت کی کہ ہم نہ شرک کریں گی،نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کی مرتکب ہوں گی،نہ اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کسی پر بہتان اور افترا باندھیں گی اور نہ
اپنے شوہروں کو دھوکہ دیں گی،جب ہم حضورِ اکرم کی محفل سے اُٹھ کر باہر آئیں تو میں نے ساتھ کی ایک عورت سے کہا کہ دھوکے کے لفظ سے حضورِاکرم کی مراد کیا
تھی،جاؤ اور آپ سے پوچھ آؤ،آپ نے فرمایا،تو اپنے خاوند کا مال لے لے،اور کوئی دوسرا اس سے فائدہ اٹھائے،تینوں نے ذکر کیا ہے۔
ابوعمر کے اس قول میں "ھِیَ اِحدی الخَالَاتِ النَّبِیِّ مِن جِھۃِ اَبِیہِ "اَبَّ سے مراد جد یعنی عبدالمطلب ہیں،کیونکہ آپ کے والد جناب عبداللہ کی والدہ بنو
مخزوم سے تھیں،لیکن آپ کے دادا عبدالمطلب کی والدہ بنو عدی نجار سے تھیں(سلمیٰ دخترعمروبن زیدخزرجیہ)اور مرد کے رشتہ دار از جانب خواتین،خود اس کے والد اور
دادا کی خالائیں ہوتی ہیں،ہم نے حضورِاکرم کا سِلسِلۂ نسب الکامل فی التاریخ میں تفصیل سے لکھا ہے۔