سلمٰی حضورِاکرم کی خدمت گزار اور جناب صفیہ کی مولیٰ تھیں،یہ خاتون ابو رافع کی زوجہ تھیں، ایک روایت کے مطابق یہ خاتون بھی حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مولیٰ
اور خاتونِ جنّت اور جناب ابراہیم کی دایہ تھیں اور انہوں نے خاتون جنت کو حضرت علی اور اسمادختر عمیس کے ساتھ نہلایا تھا، اور غزوۂ خیبر میں حضور کی ہمرکاب
تھیں،ذیل کی حدیث ان سے مروی ہےاسماعیل بن علی اور ابراہیم بن محمد وغیرہ نے باسنادہم ابو عیسیٰ سے ،انہوں نے احمد بن منیع سے ،انہوں نے حماد بن خالد خیاط
سے،انہوں نے فائد مولیٰ آل ابو رافع سے،انہوں نے علی بن عبیداللہ سے،انہوں نے اپنی دادی سے،جو حضورِاکرم کی خدمت گزار تھیں،روایت کی،کہ جب بھی حضورِاکرم کے
کوئی پھوڑا پھنسی نکل آتی تو میں اس پر مہندی لگا دیتی،اور یہ روایت عبیداللہ بن علی نے اپنی دادی سلمیٰ سے روایت کی،ترمذی کہتے ہیں کہ صحیح نام عبداللہ بن علی
ہے۔
ابو موسیٰ نے اجازۃً ابوعلی سے ،انہوں نےابونعیم سے،انہوں نے ابوبکر بن مالک سے ،انہوں نے عبداللہ بن احمد سے،انہوں نے اپنےوالد سےانہوں نے یعقوب بن ابراہیم سے
انہوں نے والد سے، انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے ہشام بن عروہ سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی کہ ابو رافع کی بیوی سلمیٰ اپنے خاوند
کے خلاف شکایت کرنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاض ہوئی،حضوراکرم نے پوچھا،اے رافع! تمہارے درمیان کیا جھگڑا ہے،ابو رافع نے کہا
،یارسول اللہ سلمیٰ مجھے دکھ دیتی ہے،حضورِاکرم نے سلمیٰ سے پوچھا،تو اسے کیوں ستاتی ہے،اس نے جواب دیا،یارسول اللہ ،ایسی کو ئی بات نہیں،ابو رافع نے دوران نماز
میں پیٹ سے ہو انکالی ،میں نے اسے کہا کہ حضورِاکرم نے فرمایاہے کہ اگر ایسی صورت پیش آجائے تو ازسر نو وضو کرلیا جائے،اس بات پر اس نے مجھے مارا،حضورِاکرم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سن کر ہنس دئیے اور فرمایا،سلمیٰ نے ٹھیک بات کہی ہے،اسے نہ مارا کرو،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔