سائیں مغلی شاہ
سائیں مغلی شاہ (تذکرہ / سوانح)
آپ نے پہلے فوج میں بھرتی ہونے کی بہت کوشش کی۔ چنانچہ اسی غرض سے سیالکوٹ۔ ہانسی۔ بھرت پور۔ کانپور گئے۔ مگر سب جگہ سے ناکام واپس آئے۔ آخر انبالہ میں حضرت صاحب سے بیعت ہوئے۔ حضرت صاحب نے آپ کا نام تبدیل کر کے عبد الکریم رکھا۔ آپ نے حضرت صاحب کی خدمت ایسی کی ہے کہ شاید کوئی کرتا۔ حضرت صاحب بیت الخلا میں تشریف رکھتے ہیں۔ مغلی شاہ لوٹا لیے کھڑے ہیں۔ گھنٹے گزر گئے۔ پاؤں سوج گئے۔ زخم پڑ گئے۔ اور دل میں یہ خواہش کہ جو کام ہو وہ میں ہی کروں اور میاں صاحب مجھ سے ہی لیں۔
جناب مولوی حاجی سید ظہور الدین صاحب انبہٹوی نے آپ کا حال یوں تحریر فرمایا ہے۔ بھائی مغلی شاہ خاص خادم تھے۔ استنجاء اور وضو کے لیے پانی لانا ذرا بدن دبانا ان کی خدمت تھی۔ رات بھر جاگتے تھے۔ آپ کو حضور سے اس قدر محبت تھی کہ مسواک دماغ میں زور زور سختی سے مار کر خون نکال لیتے تھے تاکہ آنکھ نہ لگ جائے۔ اللہ اکبر! مغلی شاہ جب آئے۔ تو بڑے زبردست لحیم شحیم قد آور شخص تھے ایک دو مٹکا پانی کا باہر سے کنویں کا لاتے تھے جو معمولی آدمی سے ہلتا تک نہ تھا۔ آخر میں نحیف جثہ ہوگئے۔ آپ گھر کے زمیندار تھے۔ بہت مرتبہ گھر سے رشتہ دار بلانے کے لیے آتے تھے۔ آپ جواب دے دیا کرتے تھے۔ کہ میں تو اسی درکا ہولیا۔ تم جانو تمہارا کام۔ حالانکہ حضور شاہ صاحب سے اجازت تھی کہ جب چاہو اپنے گھر جاؤ۔ مگر محبوب کی جدائی کب گوارا ہوسکتی ہے۔ آخر اسی درِ محبوب پر دم دے دیا حضور کے بعد مغلی شاہ جانشین ہوئے۔ حج کیا اور درِ محبوب کی خوب جاروب کشی کی۔ مجھ احقر سے محبت کرتے تھے۔ جب مجھ کو ملتے تھے۔ میرے ہاتھ بلکہ پاؤں تک چومنا چاہتے تھے۔ میرے باز رکھنے پر فرمایا کرتے تھے۔ کہ تیرے ہاتھ کس طرح نہ چوموں۔ تو میرے محبوب کا پیارا ہے۔ آخری وقت تک حضور کے دربار میں خدمت کر کے حضور کے در کے سامنے لیٹ گئے۔ اندر ہی آپ کا مزار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کی بارش برسائے۔ آمین۔ انتہےٰ بلفظ۔
خلفاء مذکور بالا کے علاوہ حضرت میاں صاحب قبلہ کے اور بھی خلفاء ہیں۔ مثلاً محمد علی شاہ صاحب لانگری۔ مولوی عبد الرحیم شاہ صاحب مسکین۔ جعفر شاہ صاحب کملی پوش۔ حافظ عبد الرحمٰن صاحب پنجابی۔ مولوی خلیل الرحمٰن صاحب سہارنپوری وغیرہ۔ ان تمام خلفاء میں سے بقول مولوی سراج الدین صاحب پہلے آٹھ کو اجازت نامہ ہے۔ یعنی بیعت کرنے اور تعلیم و تلقین اذکار کی اجازت اصالتہً ہے۔ باقی سب کو بیعت کرنے کی اجازت وکالتاً اور تلقین اذکار کی اصالتاً ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
مولف کتاب
راقم الحروف علی گڑھ کالج سے ایم۔ اے (عربی) کی ڈگری حاصل کر کے ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں چھاؤنی انبالہ میں ہند و محمد ن سکول کاہیڈ ماسٹر عارضی طور پر مقرر ہوکر آیا۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر بتعمیل ارشاد والد بزرگوار جو آستانہ جہانخیلاں شریف کے ارادتمندوں میں سے تھے میں بغرض بیعت حضور قبلہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پہلے ہی دریافت کیا کہ تمہارے والد کس کے مرید ہیں۔ میں نے عرض کردیا تو فرمایا کہ آجاؤ۔ اپنا ہی گھر ہے۔ اور مجھے فوراً بیعت کرلیا۔ میں چھاؤنی سے حاضر ہوتا رہا۔ چند ماہ کے بعد بورڈ سکول دہلی میں چلاگیا۔ جب وطن کو آتا۔ تو حاضر خدمت ہوتا۔ پھر ۱۸۹۶ء میں بورڈ کالج امرت سر میں تبدیل ہوگیا۔ میں وہیں تھا کہ حضرت صاحب کا وصال ہوگیا۔ جب میں ملازمت سرکاری سے سبکدوش ہوگیا توحضرت خواجہ عبد الخالق رحمۃ اللہ علیہ نے بتقریب عرس حضرت شمس الدین العرفان خواجہ قادر بخش رحمۃ اللہ علیہ مجمع کثیر میں میری دستار بندی کی اور فرمایا کہ میں حضرت خواجہ توکل شاہ کی طرف سے ان کو خلافت دیتا ہوں۔ راقم الحروف نے واقعہ میں حضرت شاہ صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے مجھے خلافت دے دی؟ فرمایا کہ ہاں۔ اس طرح شیخنا العلامہ مولانا مولوی مشتاق احمد صاحب انبہٹوی چشتی صابری نے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں مجھے خلافت سے سرفراز فرمایا۔ یہ ان بزرگوں کی محض زرہ نوازی تھی۔ ورنہ یہ ننگ خلائق جس کی تمام عمر مصعیت اور ہوا و ہوس میں گزری اس عنایت کا ہر گز مستحق نہ تھا۔ برادر عزیز چودھری محمد سلیمان صاحب کے اصرار پر یہ چند کلمے لکھ دیے ہیں۔ میں اس لائق کہاں کہ اکابر مشائخ کے ذیل میں اپنا نام لوں۔ اللہ تعالیٰ ریاء و عجب و کبر سے بچائے اور خاتمہ بالایمان نصیب کرے۔
گیارہواں باب
علم تصوف کا بیان
تصوف وہ علم ہے۔ جس سے تزکیہ نفوس اور تزکیہ اخلاق اور تعمیر ظاہر و باطن کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔ اس علم کی غایت وصول الی اللہ اور سعادت ابدی کا حاصل کرنا ہے۔
تصوف و صوفی:
تصوف و صوفی کے معنی بہت سے اقوال ہیں۔ استاد [۱] ابو منصور عبد القاہر بغدادی (متوفی ۴۲۹ھ) نے ان دونوں لفظوں کے معنی میں ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ جس میں صوفیہ کرام کے ایک ہزار اقوال بہ ترتیب حروف معجم جمع کیے ہیں۔ رسالہ قشیریہ میں بھی بعض اقوال منقول ہیں۔ جن کے ایراد کی اس مختصر میں گنجائش و ضرورت نہیں۔
[۱۔ طبقات الشافعیۃ الکبرے للتاج السبکی۔ ترجمہ ابو منصور عبدالقاہر بغدادی۔]
امام ابو القاسم قشیری (متوفی ۴۶۵ھ) نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افاضل مسلمین کے لیے ان کے زمانہ میں سوائے صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی علامت و نشان نہ تھا۔ کیونکہ اس صحبت سے بڑھ کر کوئی فضیلت نہ تھی۔ پس ان کو صحابہ کہا گیا۔ دوسرا زمانہ جو آیا۔ تو صحابہ کرام کی صحبت سے فیض یابوں کو تابعین کہا گیا۔ اور اسے وہ اشرف علامت سمجھتے تھے۔ پھر تابعین کے بعد جو ہوئے۔ انہیں اتباع تابعین کہا گیا۔ بعد ازاں لوگ مختلف ہوگئے۔ اور مراتب ایک دوسرے سے جدا جدا ہوگئے۔ پس خواص کو جنہیں امر دین کی طرف بہت توجہ تھی زہاد اور عباد کہا گیا۔ پھر بدعتوں کا ظہور ہوا اور فرقوں میں تداعی پیدا ہوئی۔ ہر ایک فریق مدعی تھا کہ زہادہم میں ہیں۔ پس خواص اہل سنت جو اللہ تعالیٰ کی معیت کو ملحوظ رکھتے اور اپنے دلوں کو غفلت کے حوادث سے محفوظ رکھتے تھے تصوف کے نام کے ساتھ منفرد ہوئے۔ اور ان کے اکابر کے لیے یہ نام ۲۰۰ھ سے پہلے مشہور ہوگیا۔ انتہےٰ۔ ابو ہاشم صوفی پہلے بزرگ ہیں۔ جن کو صوفی کہا گیا۔ ان سے پہلے کسی بزرگ کو اس نام سے نہیں پکارا گیا جیسا کہ نفحات جامی میں مذکور ہے۔
اصلی تصوف:
تصوف کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے۔ ’’فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ‘‘ (سورہ زمر) یعنی عبادت اخلاص کے ساتھ کرو۔ اس اخلاص کو حدیث جبرئیل علیہ السلام میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بروایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے۔ اس کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے سوال کیا کہ اسلام کیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب باصواب دیا۔ پھر دریافت کیا کہ ایمان کیا چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی جواب باصواب دیا۔ پھر دریافت کیا کہ احسان کیا چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا۔ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ یعنی احسان یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر تو اسے نہیں دیکھتا۔ تو یہ سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
دین اور اس کے کمال کی بنیاد:
اس کے تحت میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اثعۃ اللمعات میں یہ لکھا ہے:
’’جان لے کہ دین اور اس کے کمال کی بنیاد فقہ اور کلام اور تصور پر ہے۔ اس حدیث نے ان تینوں مقاموں کا بیان کردیا۔ اسلام اشارہ فقہ کی طرف ہے جو اعمال و احکام شرعیہ کے بیان کا متکفل ہے۔ اور ایمان اشارہ اعتقادات کی طرف ہے۔ جو کہ علم اصول کے مسائل ہیں۔ اور احسان اشارہ اصل تصوف کی طرف ہے۔ جس سے مراد خدا کی طرف صدق توجہ ہے۔ تصوف کے تمام معانی جن کی طرف مشائخ طریقت نے اشارہ کیا ہے اسی معنے کی طرف راجع ہیں۔ فقہ و تصوف و کلام باہم لازم و ملزوم ہیں۔ کہ ایک دوسرے کے بغیر ان میں سے کوئی کامل نہیں ہوتا۔ کیونکہ فقہ بغیر تصوف کے اور تصوف بغیر فقہ کے صورت پذیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حکم الٰہی بغیر فقہ کے پہچانا نہیں جاتا۔ اور فقہ بغیر تصوف کا کامل نہیں۔ کیونکہ عمل بغیر صدق توجہ کے تمام و کامل نہیں ہوتا۔ اور یہ دونوں بغیر ایمان کے صحیح نہیں ہوتے جس طرح کہ روح و جسم ایک دوسرے کے بغیر وجود کمال اختیار نہیں کرتے۔ اسی واسطے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ کہ جو شخص صوفی بنا اور فقیہ نہ ہوا۔ وہ زندیق ہوگیا۔ اور جو فقیہ بنا اور صوفی نہ ہوا۔ وہ فاسق ہوگیا۔ اور جو دونوں کا جامع ہوا۔ وہ بے شک محقق بن گیا۔ کمال جامعیت یہی ہے۔ باقی سب کجروی و گمراہی ہے۔ اور توفیق اللہ کریم متعال سے ہے۔‘‘
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
حفظت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعائین فاما احدھما فبثثتہ فیکم وما الا خر فلو بثثتہ قطع ھذا البلعوم یعنی مجری الطعام۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برتن (علم کے) لیے۔ ان میں سے ایک کو تو میں نے تمہارے درمیان پھیلادیا۔ رہا دوسرا سواگر میں اس کو ظاہر کردوں تو میرا گلا کاٹا جائے۔
دو قسم کے علوم:
اس حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو قسم کے علم کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک علم احکام و اخلاق جو خواص و عوام میں مشترک ہے۔ دوسرا علم اسرار جو باریکی و پوشیدگی کے سبب سے اغیار سے محفوظ اور خواص علماء یعنی اہل عرفان سے مخصوص ہے۔ دوسری قسم کے علم کے اظہار و افشاء سے ممانعت اس واسطے نہیں کہ وہ علم شریعت کے خلاف ہے۔ بلکہ وجہ یہ کہ علم باطن کی وقت و پوشیدگی کے سبب سے عوام اسے سمجھ نہ سکیں گے اور قائل کو منکرات سے منسوب کریں گے۔
حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
العلم علمان فعلم فی القلب فذٰلک العلم النافع وعلم علی اللسان فدلک حجۃ اللہ عزوجل علیٰ ابن اٰدم رواہ الدارمے۔
علم دو ہیں۔ ایک علم ہے دل میں۔ یہ علم نفع دینے والا ہے۔ دوسرا علم ہے زبان پر۔ یہ علم خدا کی حجت ہے آدمیوں پر (دارمی)۔
تدوینِ تصوف:
حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جو اشخاص مسلمان ہوجاتے تھے۔ وہ اول صحبت میں بقدر استعداد باطن نور ہدایت و کمالات ولایت سے منور و مملو ہوجاتے۔ جیسا کہ آئینہ آفتاب کے مقابلہ میں ہوجاتا ہے۔ بعد ازاں وہ بقدر حوصلہ و استعداد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام شریف سے استفادہ علوم ظاہری کرتے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ریاضات (ہجرت۔ جہاد مع الکفار۔ بذل جان و مال۔ قیام شب و روزہ ایام) کے سبب سے بے حد ترقی کر جاتے تھے۔ کانوا رھباناً باللیل وقیاماً بالنھار ان کی شان میں آیا ہے غرضیکہ صحابہ کرام سب کے سب کمالات ظاہر و باطن کے جامع تھے۔ اور ایسے مرتبہ میں تھے کہ امت میں کوئی اس مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ صحابہ کرام کے بعد قرن ثانی نے ان سے کسب ظاہر و باطن کیا۔ اور اسی طرح ان کی مصاحبت و مکالمت و نفوس شریفہ سے استفادہ کیا۔ اسی طرح قرن ثالث میں وقوع میں آیا۔ مگر صحابہ کرام کی صحبت کی تاثیر ایسی نہ تھی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تھی اسی طرح تابعین کی صحبت کی تاثیر صحابہ کرام کی محبت کی تاثیر کو نہ پہنچ سکی۔ بعد ازاں صحبت کی تاثیر اور بھی کمزور ہوگئی۔ دوسری صدی ہجری میں اکابر دین کی ایک جماعت (یعنی مجتہدین) علوم ظاہری کی متکفل ہوئی۔ اور انہوں نے احکام شرعیہ کے استنباط کے لیے قرآن و حدیث سے قواعد و اصول مرتب کر کے علوم عقائد و فقہ کی تدوین کی۔ اس کے بعد تیسری صدی ہجری میں اکابر دین کی دوسری جماعت نے بنابر ضرورت علوم ظاہرے بقدر ضرور پر جو فرض عین تھا اکتفاء کیا۔ اور فرض کفایہ کو دوسروں پر چھوڑ کر اور اس میں ان کی تقلید قبول کر کے حقائق شریعت و کمالات باطن کے افادہ و استفادہ کے لیے کمرہمت باندھی۔ اور اس کے قواعد و اصول منضبط کر کے علم تصوف و طریقت کی تدوین کی۔ وہ قواعد بھی (مثلاً کم کھانا۔ کم سونا۔ عوام سے میل جول کم رکھنا۔ ارباب قلوب زکیہ و نفوس مرضیہ کی صحبت میں رہنا۔ کثرت سے ذکر کرنا۔ خلق سے دور رہنا۔ سنت کا اتباع کرنا۔ بدعت کا ترک کرنا۔ مشتبہات سے پرہیز کرنا۔ لا یعنی کا ترک کرنا وغیرہ) شروع سے مستنبط اور احادیث سے ثابت [۱] تھے۔
[۱۔ التقط از مکتوبات حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ۔]
صوفیہ کرام میں سے حضرت ذوالنون مصری قدس سرہ (متوفی ۲۴۵ھ) پہلے صوفی ہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے مصر میں ترتیب احوال و مقامات اہل ولایت میں کلام کیا۔ اور حضرت ذوالنون قدس سرہ کے تلامذہ میں سے حضرت ابو سعید خراز بغدادی (متوفی ۲۷۹ھ) پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے فنا و بقاء میں تکلم کیا۔ اور حضرت ابوحمزہ محمد بن ابراہیم بغدادی قدس سرہ (متوفی ۲۸۹ھ) پہلے صوفی ہیں۔ جنہوں نے بغداد میں مذاہب صوفیہ میں کلام کیا۔
شرف علم باطن و علمائے باطن:
علم باطن کا شرف حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قصہ سے ظاہر ہے۔ جہاں آپ حضرت خضر علیہ السلام سے فرماتے ہیں۔ [۲] ’’هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا‘‘ (سورہ کہف ع ۹) اس سے پایا جاتا ہے کہ علم شریعت کی طرح علم حقیقت کی طلب بھی واجب ہے۔ ایجاد انسان سے مقصود معرفت الٰہی ہے۔ ایمان حقیقی اسی معرفت سے وابستہ ہے۔ یہ معرفت اہل باطن کی خدمت میں حاصل ہوسکتی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیے کہ باوجود علم و اجتہاد کے اس معرفت کے حاصل کرنے کے لیے حضرت بشر حافی قدس سرہ کے ہمرکاب چلا کرتے تھے۔ لوگوں نے آپ سے اس کا سبب پوچھا۔ تو جواب دیا کہ ان کو خدا کی معرفت مجھ سے زیادہ ہے۔
[۲۔ کیا میں تیرے ساتھ رہوں بشرطیکہ تو سکھادے مجھ کو اس چیز سے جو تجھ کو سکھائی ہے بھلی راہ۔]
حدیث شریف میں مذکور ہے کہ انسان کے بدن میں ایک پارۂ گوشت ہے۔ اگر وہ درست ہو۔ تو تمام بدن درست ہے۔ اور اگر وہ فاسد ہو۔ تو تمام بدن فاسد ہے۔ یہ پارہ گوشت قلب ہے۔ صلاح جسے صوفیہ کرام فناء قلب سے تعبیر کرتے ہیں علمائے باطن ہی کو حاصل ہے۔ امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے رسالہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں۔
’’عہد اسلام میں ہر زمانے میں اس گروہ کے شیوخ میں سے ایک شیخ صاحب علوم توحید و امامتِ قوم گزار ہے۔ جس کے آگے اس وقت کے ائمہ و علماء نے سر تسلیم و تواضع خم کیا ہے۔ اور اس سے برکت حاصل کی ہے۔ اگر ان میں کوئی فضیلت و خصوصیت نہ ہوتی۔ تو معاملہ برعکس ہوتا۔ ایک روز امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (متوفی ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی آخر رجب ۲۹۴ھ) کے پاس تھے۔ حضرت شیبان راعی قدس سرہ تشریف لائے۔ امام احمد نے کہا۔ اے ابو عبید اللہ! میں چاہتا ہوں کہ اس راعی کو اس کے علم کے نقصان پر آگاہ کروں۔ تاکہ یہ بعض علوم کی تحصیل میں مشغول ہوجائے۔ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ایسا نہ کیجیے۔ مگر وہ باز نہ رہے۔ اور شیبان سے کہنے لگے۔ کہ آپ اس شخص کی نسبت کیا فرماتے ہیں۔ جو دن رات کی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز بھول جائے۔ اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کونسی نماز بھولا ہے۔ اے شیبان! اس پر کیا واجب ہے؟ شیبان نے کہا۔ اے احمد! ایسے شخص کا دل اللہ تعالیٰ سے غافل ہے۔ واجب یہ ہے کہ اس کو تا دیب کی جائے تاکہ وہ پھر اپنے مولا سے غافل نہ ہو۔ یہ سن کر امام احمد بیہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے۔ تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا کیا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ ان کو نہ چھیڑیے حضرت شیبان اُمی تھے جب ان میں سے ایک امی ایسا ہے۔ تو ائمہ صوفیہ کا کیا حال ہوگا۔
منقول ہے کہ اکابر فقہاء میں سے ایک فقیہ ابو عمران نام کا حلقہ جامع منصور میں حضرت شبلی قدس سرہ (متوفی ۳۳۴ھ) کے حلقہ کے پہلو میں تھا۔ حضرت شبلی قدس سرہ کے کلام کے سبب سے ان کا حلقہ بیکار رہتا۔ ایک روز ابو عمران کے اصحاب نے حضرت شبلی قدس سرہ کو شرمندہ کرنے کے ارادے سے ان سے حیض کا ایک مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں لوگوں کے اقوال اور اختلاف بیان کیے۔ جب ابو عمران نے آپ کی تقریر سنی۔ تو اُٹھ کر آپ کے سر کو بوسہ دیا اور کہا۔ اے ابو بکر! آپ نے اس مسئلہ میں دس اقوال بتائے ہیں۔ جو میں نے نہ سنے تھے۔ تمام اقوال جو آپ نے بیان کیے ہیں ان میں سے تین قول مجھے معلوم تھے۔ کہا گیا ہے کہ فقیہ ابو العباس بن عمر بن سریج (متوفی ۳۰۶ھ) حضرت جنید بغدادی قدس سرہ (متوفی شوال ۲۸۹ھ) مجلس سے گذرا اور ان کا کلام سنا۔ فقیہ موصوف سے پوچھا گیا۔ کہ آپ اس کلام کی نسبت کیا رائے۔ کہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ان کا کلام میں نہیں سمجھتا۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کلام میں وہ رعب و ہیبت ہے جو جو کاذب و متکبر کے کلام میں نہیں ہوتی۔‘‘
امام عبد الوہاب شعرانی طبقات کبریٰ میں لکھتے ہیں۔ کہ امام احمد بن حنبل کی مجلس میں جب کبھی کلام صوفیہ کا ذکر آتا۔ تو آپ حضرت ابو حمزہ بغدادی قدس سرہ (متوفی ۹۸۲ھ) سے فرماتے۔ ماتقول فی ھٰذا یا صوفی۔ اے صوفی! آپ اس میں کیا فرماتے ہیں۔ امام موصوف اپنے صاحبزادے سے فرمایا کرتے تھے۔ بیٹا! صوفیہ وقت کی صحبت میں رہا کرو۔ کیونکہ وہ اخلاص میں ایسے مقام پر پہنچے ہوئے ہیں جہاں تمہاری رسائی نہیں۔
شیخ الاسلام ابو یحییٰ زکریا انصاری (متوفی ذی الحجہ ۹۲۶ھ) فرمایا کرتے تھے۔ کہ جس فقیہ کو صوفیہ کرام کے احوال و اصطلات کا علم نہ ہو۔ وہ خشک روٹی کی طرح ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام (متوفی ۱۰ جمادی الاولیٰ ۶۶۰ھ) طریق صوفیہ کے منکر تھے۔ اور کہا کرتے تھے۔ کہ کیا کتاب و سنت کے سوا کوئی اور طریق موصل الی اللہ ہے؟ جب آپ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ تو طریقہ صوفیہ کرام کوتسلیم کیا اور فرمایا۔ گروہ صوفیہ دین کی بڑی بنیاد پر قائم ہیں۔ اس کی ایک بڑی دلیل وہ کرامات و خوارق ہیں جو ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اس قسم کی کوئی شے بھی کسی فقیہ کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوئی بجز اس صورت کے کہ ان کے طریق کا اتباع کرے۔ انتہےٰ۔
شیخ الاسلام تاج سبکی (متوفی (۷۷۱ھ) طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں شیخ عز الدین بن عبد السلام کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ کہ جب ابو العباس مرسی قدس سرہ (متوفی ۶۸۶ھ) اسکندریہ سے قاہر میں آئے۔ تو ایک روز شیخ عز الدین کی مجلس میں حاضر ہوئے جہاں رسالہ قشیریہ پڑھا جاتا تھا۔ شیخ عز الدین نے ابوالعباس سے کہا کہ اس فصل پر کلام کیجیے۔ پس ابو العباس کلام کرنےلگے۔ شیخ عز الدین حلقہ میں پھر رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ کہ اس کلام کو سنو جو ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا ہے۔
ضرورت شیخ کامل مکمل:
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے۔
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (مائدہ۔ ع ۶)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
صاحب تفسیر روح البیان اس آیت کے تحت میں عربی میں یہ مضمون تحریر فرماتے ہیں
’’جان لے کہ اس آیہ کریمہ میں وسیلہ ڈھونڈنے کے حکم کی صراحت ہے۔ وسیلہ کا ہونا بے شک ضروری ہے۔ کیونکہ وصولی الی اللہ وسیلہ ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ وسیلہ علمائے حقیقت و مشائخ طریقت ہیں۔ حافظ فرماتے ہیں۔ ؎
قطع ایں مرُح بے ہمر ہی خضر مکن
ظلماتست بترس از خطر گمراہی
نفس کے موافق عمل کرنا نفس کے وجود کو زیادہ کردیتا ہے۔ مگر مرشد کے ارشارے اور انبیاء و اولیاء کی دلالت کے موافق عمل کرنا نفس کو وجود سے چھڑاتا ہے اور حجاب اُٹھا دیتا ہے۔ اور طالب کو رب الارباب تک پہنچادیتا ہے۔‘‘
مولانا شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حاشیہ قول جمیل میں فرمایا۔ کہ ہم نے اپنے جد امجد حضرت شاہ عبد الرحیم قدس سرہ کے ایک مرید سے سنا کہ ان کے ہمعصر ایک عالم نے ان سے بیعت کے سنت یا بدعت ہونے میں گفتگو کی۔ جد امجد نے بیعت کی مشروعیت کے واسطے اس آیت سے استدلال کیا ور فرمایا کہ یہ ممکن نہیں کہ وسیلہ سے ایمان مراد لیجیے۔ اس واسطہ کہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ چنانچہ ’’ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور عمل صالح بھی مراد نہیں ہوسکتا کہ وہ تقویٰ میں داخل ہے۔ کیونکہ تقویٰ عبارت ہے امتثال اوامر اور اجتناب نواہی سے۔ اور اس واسطے کہ عطف کا قاعدہ مغائرت بین المعطوف علیہ کا مقتضی ہے۔ اسی طرح جہاد بھی مراد نہیں ہوسکتا بدلیل مذکور یعنی تقویٰ میں داخل ہے۔ پس متعین ہوگیا کہ وسیلہ سے مراد ارادت و بیعت مرشد کی ہے۔ پھر اس کے بعد مجاہدہ اور ریاضت ہے ذکر اور فکر میں۔ تاکہ فلاح حاصل ہو کہ عبارت ہے وصول ذات پاک سے واللہ اعلم۔ (القول الجمیل مع شرح شفاء العلیل۔ ص ۲۸)
صادقین:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد یوں ہے۔
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (سورہ توبہ)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔
تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت میں ہے۔
’’صادقین وہ لوگ ہیں۔ جو وصول الی اللہ کے طریق کے رہنما ہیں۔ جب سالک ان کے دوستوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور ان کے آستانوں کے خادموں کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ تو ان کی محبت و تربیت و قوت ولایت سے سیرالی اللہ اور ترک ماسوا کے مراتب تک پہنچ جاتا ہے۔ حضرت شیخ اکبر قدس سرہ فرماتے ہیں۔ کہ اگر تو اپنے افعال کو کسی دوسرے کی مراد کے موافق نہ کرے گا۔ تو ہوا و خواہش نفسانی سے تو رہائی نہ پائے گا اگرچہ تمام عمر اپنے نفس سے مجاہدہ کرتا رہے۔ جب تجھے ایسا بزرگ مل جائے جس کی تعظیم و حرمت تو اپنے نفس میں پائے۔ تو اس کا خادم بن جا اور ایسا ہوجا جیسا کہ مردہ غسال کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ جس طرح چاہے تجھ میں تصرف کرے۔ تجھے اپنی ذات میں اس کے سامنے کوئی تدبیر و اختیار نہ ہو۔ تو اس سعادت کی زندگی بسر کر اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل کے لیے تیار رہ اگر وہ تجھے کسی کسب کا حکم دے۔ تو اس کے حکم سے کسب کر نہ کہ اپنی نفسانی خواہش سے۔ کیونکہ وہ تیری مصلحتوں کو تجھ سے بہتر جانتا ہے۔ پس اے فرزند! پیر کی تلاش میں کوشش کر جو تیرا رہنما بنے اور تیرے خواطر کی نگہبانی کرے۔ تاکہ تیری ذات وجود الٰہی سے کامل ہوجائے۔ اور اس وقت تو وجود کشفی اعتصامی سے اپنے نفس کی تدبیر کرے۔ شیخ اکبر یعنی محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶۳۸ھ) نے اپنی کتاب مواقع النجوم و مطالع اہل الاسرار و العلوم میں ایسا ہی لکھا ہے۔‘‘
علوم باطنی کی تحصیل:
علم عقائد و فقہ کی تحصیل کےلیے علمائے ظاہر کی ضرورت ہے۔ اسی طرح علم باطن کی تحصیل کے لیے علمائے باطن کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص اپنے امراض باطن کا علاج ماہر و تجربہ کار شیخ کے بغیر نہیں کرسکتا خواہ اسے اخلاق و وعظ کی ہزاروں کتابیں یاد ہوں۔ ایسا عالم اگر مرشد کامل کے بغیر اس راستہ میں قدم رکھے۔ تو اس کا حال ایسا ہے کہ کسی نے طب کی کتابیں یاد کرلیں۔ مگر مطب میں بیٹھ کر تجربہ نہ کیا۔ اس کو اگر کوئی تدریس کرتے سنے گا۔ تو سمجھے گا کہ بڑا طبیب ہے۔ مگر جب کسی مریض کو اس کے سامنے لاکر تشخیص مرض اور اس کا علاج دریافت کرے گا۔ تو کہے گا کہ بڑا جاہل ہے۔ عارف رومی یوں فرماتے ہیں۔ ؎
نفس رانکشد بغیر از ظل پیر
دامنِ آں نفس کُش محکم بگیر
حضرت بایزید بسطامی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ کہ جس شخص کا کوئی استاد نہ ہو۔ شیطان اس کا امام ہے۔ استاد ابو علی دقاق قدس سرہ کا ارشاد ہے کہ جس درخت کو کوئی نہ لگائے اور خود بخوداگ آئے۔ اس کے پتے تونکل آتے ہیں۔ مگر وہ پھل نہیں دیتا۔ اسی طرح مرید کا جب کوئی استاد نہ ہو جس سے وہ دمبدم طریقہ اخذ کرے۔ تو وہ اپنی آرزو کا عابد ہوتا ہے جو پوری نہیں ہوتی (رسالہ قشیریہ)۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ کہ وصول الی اللہ کے لیے مرشد کامل کا ہونا ضروری ہے۔ مولانا روم یوں فرماتے ہیں ؎
ہیچکس از نزد خود چیزے نشد |
|
ہیچ آہن خنجرے تیزے نشد |
|
||
|
ان ابیات کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ کو کچھ نہیں بن سکتا۔ لوہے کو دیکھنے کہ خواہ کتنا ہی اعلیٰ قسم کا ہو۔ مگر لوہار کی محنت کے بغیر تلوار نہیں بن سکتا۔ مٹھائی کو لیجیے۔ وہ بھی حلوائی کی شاگردی کے بغیر نہیں بناسکتے۔ اگرچہ اس کے اجزاء معلوم ہوں۔ جب دنیا کے ایسے ایسے کاموں میں استاد کی ضرورت ہے۔ تو اس خاکی پتلے کو اوجِ کمال پر پہنچانے کے لیے بطریق اولےٰ مرشد کی ضرورت ہونی چاہیے۔ مولوی جلال الدین رومی کو دیکھیے۔ جب وہ شمس تبریز کے غلام و مرید بن گئے تو مولائے روم کہلانے کے مستحق ہوگئے۔
پیر کامل کی نشانی:
واضح رہے کہ پیر پکڑنے میں بڑی احتیاط درکار ہے۔ پیر کال مکمل کی شناخت آسان نہیں۔ مولانا روم (متوفی ۶۷۰ھ) فرماتے ہیں۔ ؎
اے بسا ابلیس کا آدم روے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
پیر ایسا مقتی سنت کا متبع اور بدعت سے بچنے والا ہو کہ اس کی صحبت میں اور اس کے دیکھنے سے خدا یاد آے۔ اور ماسوا سے دل سرد ہوجائے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ [۱] ’’خیار عباد اللہ الذین اذا رأو اذکر اللہ۔‘‘ یعنی خدا کے سب سے نیک بندے وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔
[۱۔ مشکوٰۃ شریف۔ کتاب الآداب۔ باب حفظ اللسان الغیبۃ والشتم۔]
میرے پیر دستگیر روحی و قلبی فداہ سے کسی نے کامل کی نشانی دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ کامل کی نشانی یہ ہے۔ کہ کوئی شخص محبت سے دو تین روز اس کی صحبت میں بیٹھے۔ تو دنیا کی طرف سے اس کا دل ہٹ جائے اور خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور نام خدا کی لذت سے آنے لگے۔ اور وہ کامل ظاہر شریعت کا پابند بھی ہو۔ انتہےٰ۔ اگر ایسا شیخ مل جائے۔ تو موقع کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ اور اپنے تئیں اس کے سپرد کر دینا چاہیے۔ کیونکہ بیعت کرنا سنت ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ صوفیہ کرام نے اسی سنت کو جاری رکھا ہے۔
امام [۲] عبد الکریم رازی (متوفی ۵۲۳ھ) فرماتے ہیں۔ کہ فقہاء و صوفیہ کی علیحدہ علیحدہ شرط ہے۔ فقیہ کےلیے جائز ہے کہ اپنے استاد پر اعتراض کرے اور یوں کہے کہ یہ امر کس واسطے ہے۔ مگر صوفی کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے شیخ پر کبھی اعتراض نہ کرے۔ اور ایسا ہوجائے جیسا کہ مردہ غسال کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ انتہے مولانا روم فرماتے ہیں۔ ؎
[۲۔ طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للتاج السبکی۔ ترجمہ امام عبد الکریم رازی۔]
چوں گرفتی پیرہم تسلیم شو
ہمچو موسےٰ زیرِ حکمِ خضررَو
پیر و مرید کے آداب اس کتاب میں پہلے آچکے ہیں۔ ان کے اعادہ کی یہاں ضرورت نہیں۔
بارہواں باب
اس باب میں دو فصلیں ہیں۔
پہلی فصل
طریقہ نقشبندیہ کے القاب و فضیلت کا بیان
یہ طریقہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ مختلف زمانوں میں اس کے مختلف القاب رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شیخ بایزید بسطامی تک اسے صدیقیہ کہتے ہیں۔ اور بایزید بسطامی سے خواجہ عبد الخالق غجدوانی تک طیفوریہ اور خواجہ عبد الخالق سے خواجہ بہاء الدین نقشبند سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نقشبندیہ کے نام سے موسوم تھا۔ اور حضرت مجدد الف ثانی تک نقشبندیہ کے نام سے موسوم تھا۔ اور حضرت مجدد رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے نقشبندیہ مجددیہ کہلاتا ہے۔
طریقہ نقشبندیہ کی فضیلت:
انسان پر لازم ہے کہ اپنے مولا کریم جل جلالہ وعم نوالہ کے اوامر کو بجا لائے اور نواہی سے باز رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اخلاص کا حکم دیا ہے۔ جسے حدیث جبرئیل علیہ السلام میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ دوام عبودیت یا دوام آگاہی فناء و محبت ذاتیہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے صوفیہ کرام نے فناء و محبت ذاتیہ کی تحصیل کے لیے مختلف طریقے بیان کیے ہیں۔ جن میں طریقہ نقشبندیہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طریقہ عالیہ کا مدار متابعت سنت کے التزام اور بدعت سے اجتناب پر ہے۔ اوراد و ذکار بھی اگر ہیں تو وہی جو ماثورہ ہیں۔ حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نوع بشر بلکہ ملائکہ سے بھی اکمل الاکملین ہیں۔ ظاہر و باطن اور صفات جبلی و کسبی میں اور علم و اعتقاد و عمل اور عبادات و عادات و معاملات میں جو شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر زیادہ مشابہت پیدا کرے گا۔ اسے اسی قدر کامل جاننا چاہیے اور جو شخص مشابہت میں ان اشیاء میں سے کسی چیز میں قاصر ہے۔ اس کو اسی قدر ناقص سمجھنا چاہیے۔ کمال اتباع سنت جو حضرات نقشبندیہ نے اختیار کیا ہے۔اس کے سبب سے وہ دوسروں سے سبقت لے گئے ہیں۔ اور کمال متابعت کی وجہ سے یہی کمال مشابہت ان کی افضیلت کی دلیل ہے۔ وہ عمل بر عزیمت کو حتی المقدور ہاتھ سے نہیں دیتے اور رخصت پر عمل تجویز نہیں کرتے۔ وہ احوال و مواجید کو احکام شرعیہ کے تابع رکھتے ہیں۔ اور اذواق و معارف کو علوم دینیہ کے خادم سمجھ کر جواہر نفسیہ شرعیہ کے عوض میں وجد و حال کے جوز و مویز کو نہیں لیتے۔ اور صوفیہ کے ترہات پر مغرور نہیں ہوتے۔ اسی وسطے ان کا وقت و حال دوام و استمرار پر ہے۔ نقش ماسوا ان کے دل اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ اگر ہزار سال ماسوا کے حاضر کرنے میں تکلف کریں تو حاضر نہ ہوسکے۔ وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لیے مثل برق کے ہے ان بزرگوں کے لیے دائمی ہے۔ وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو۔ ان کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے۔ [۱] ’’رِجَالٌ لاَ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ‘‘ ان کی صفت ہے۔
[۱۔ وہ مرد کہ غافل نہیں کرتی ان کو سودا گری اور نہ خرید و فروخت خدا کی یاد سے (سورہ نور۔ ع۔ ۵)]
خواجہ نقشبند کی دُعا:
حضرت خواجہ نقشبند رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رب العزت میں دعا کی تھی۔ کہ مجھے ایسا طریقہ عطا فرمایا جائے۔ جو اقرب طرق اور البتہ موصل ہو۔ اللہ جل شانہ نے حضرت خواجہ کی دعا قبول فرمائی۔ اور ان کو سلوک پر جذبہ کی تقدیم کا الہام ہوا۔ دوسرے طریقوں میں سلوک کو جذبہ پر مقدم کرتے ہیں۔ یعنی پیر کامل اپنے مرید کو پہلے ریاضات (اربعین و بیداری و گرسنگی وغیرہ) کا حکم دیتا ہے۔ اور ان ریاضتوں سے مرید کے عناصر و نفس کو مصفا کرتا ہے۔ جب مرید اپنے نفس و عناصر کی طہارت اپنے سے باہر عالم مثال میں دیکھتا ہے مثلاً ستارہ یا ہلال یا ماہ ناقص یا بدر کامل یا آفتاب۔ تو اس وقت شیخ اس مرید کو فناء و تصفیہ نفس و عناصر کی بشارت دیتا ہے۔ اسے سلوک کہتے ہیں۔ اور اس سیر کو سیر آفاقی کہتے ہیں۔ کیونکہ طالب اپنے سے خارج عالم مثال میں جو منجملہ آفاق ہے اپنے احوال و انوار دیکھتا ہے۔ اس کے بعد شیخ محض اپنی توجہ سے مرید کے لطائف عالم امر کے تزکیہ میں مشغول ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ فناء بقا حاصل کرتے ہیں۔ اسے جذبہ کہتے ہیں۔ اور اس سیر کو سیر انفسی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس سیر میں طالب جو کچھ (استنارت و ترقی و وصول باصل و فناء) دیکھتا ہے اپنے اندر دیکھتا ہے۔ بنابر توجیہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اس سیر کو سیر انفسی اسی واسطے کہتے ہیں۔ کہ نفس اسماء و صفات باری تعالیٰ کے ظلال و عکوس کے آئینے ہوجاتے ہیں نہ یہ کہ سالک کی سیر نفس میں ہوتی ہے۔ یہاں حقیقت میں ظلال اسماء کی سیر ہے انفس کے آئینوں میں۔ طریقہ نقشبندیہ میں جذبہ کو سکوک پر مقدم کرتے ہیں اور ابتداء لطائف عالم امر سے کرتے ہیں۔ سلوک جذبہ کے ضمن میں اور سیر آفاقی سیرانفسی کے ضمن میں طے ہوجاتی ہے۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی توضیح و تشریح یوں فرماتے ہیں۔ کہ سیر و سلوک اور جذبہ تصفیہ سے مقصود نفس کا اخلاق رویہ اور اوصاف رذیلہ سے پاک کرنا ہے۔ انفس کی گرفتاری اور مرادات نفس کا حصول سب سے بڑی برائی ہے۔ آفاق کی گرفتاری نفس کی گرفتاری کے سبب سے ہے۔ کیونکہ جس چیز کو کوئی شخص دوست رکھتا ہے اپنی دوستی کے سبب سے دوست رکھتا ہے۔ مثلاً اگر فرزند و مال کو دوست رکھتا ہے۔ تو اپنے فائدے کے لیے دوست رکھتا ہے۔ چونکہ سیر انفسی میں محبت خدا تعالیٰ کے غلبہ کے سبب سے اپنی دوستی زائل ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس کے ضمن میں فرزند و مال کی دوستی بھی زائل ہوجاتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اپنی ذات کی گرفتاری کے دور ہوجانے سے دوسروں کی گرفتاری بھی دور ہوجاتی ہے۔ اس طرح سیر انفسی کے ضمن میں سیر آفاقی بھی قطع ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں سیر انفسی و سیر آفاقی کے معنی بھی بلا تکلف درست رہتے ہیں۔ کیونکہ حقیقت میں سیر انفسی میں بھی ہے اور آفاق میں بھی۔ انفس کے تعلقات کا قطع بتدریج انفس میں سیر ہے۔ اور آفاق کے تعلقات کا قطع جو سیر انفسی کے ضمن میں ہوتا ہے آفاق میں سیر ہے۔ دیگر مشائخ نے جوان دونوں کے معنی بیان کیے ہیں ان میں تکلف ہے۔ پس طریقہ نقشبندیہ میں راہ قرب ہوا۔ اسی واسطے کہا گیا ہے۔ کہ دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی ہدایت میں مندرج ہے۔
ولایت کے رُکن:
واضح رہے کہ سیر انفسی و سیر آفاقی دونوں ولایت کے رکن ہیں۔ شہود انفسی کو کمال بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے سے باہر شہود و یافت نہیں۔ مگر حضرت مجدد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مطلوب جو بیچون و بیچگون ہے آفاق و انفس سے باہر ہے۔ آفاق و انفس کے آئینوں میں اس کی ذات اور اسماء و صفات کی گنجائش نہیں۔ ان میں جو ظاہر ہوتا ہے۔ وہ ظلال اسماء و صفات ہیں بلکہ اسماء و صفات کی ظلمیت بھی ان دونوں سے باہر ہے۔ چونکہ آفاق و انفس و سلوک و جذب سے باہر ولایت اولیاء کا گزر گاہ نہیں۔ اس لیے اکابر نقشبندیہ نے بھی آفاق و انفس اور سلوک و جذب سے باہر کی خبر نہیں دی ہے اور کمالات ولایت کے مطابق فرما دیا ہے کہ اہل اللہ فناء و بقاء کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے میں دیکھتے ہیں۔ اور ان کی حیرت اپنے وجود میں ہے۔ ’’وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔‘‘ مگر الحمد للہ کہ ان بزرگوں نے اگرچہ انفس سے باہر کی خبر نہیں دی۔ مگر وہ گرفتار انفس بھی نہیں۔ وہ انفس کو بھی آفاق کی طرح لا کے تحت میں لاکر اس کی نفی کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ کا ارشاد ہے۔ کہ جو کچھ دیکھا گیا اور سنا گیا اور جانا گیا وہ سب غیر ہے۔ حقیقت کلمہ لآ سے اس کی نفی کرنی چاہیے۔ ؎
نقش بند ندولے بند بہر نقش نیند |
|
ہردم از بو العجبی نقش دگر پیش آرند |
|
وسیلہ کا قوی ہونا:
طریقہ نقشبندیہ کے اقرب طرق ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے۔ کہ حضرات نقشبندیہ کا وسیلہ حضور سرور انبیاء علیہ وعلیٰ آلہ الصلوات والتسلیمات کی جناب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ وسیلہ جس قدر زیادہ قوی ہوگا۔ راہ وصول اقرب ہوگا۔ اور قطع منازل بہت جلدی ہوجائے گا۔ وہ جو اس سلسلہ عالیہ کے اکابر کی عبارت میں واقع ہے کہ ہماری نسبت سب نسبتوں سے بلند و بالا ہے بالکل درست ہے۔ کیونکہ ان کی نسبت (یعنی دوام حضور یا دوام آگاہی) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت جو پیغمبروں کے بعد افضل البشر ہیں۔ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آگاہی یقیناً سب آگاہیوں سے ارفع و اعلیٰ ہے۔
یہ طریق البتہ موصول ہے۔ عدم وصول کا احتمال یہاں نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ اس راہ کا پہلا قدم جذبہ ہے جو وصول کی دہلیز ہے۔ سالک کے وصول کا مانع یا جذب محض ہے جس میں سلوک نہ ہو یا سلوک محض بغیر جذبہ کے۔ یہ دونوں مانع نہیں پائے جاتے۔ کیونکہ اس طریق میں نہ سلوک خالص ہے۔ نہ جذب محض۔ بلکہ جذبہ ہے متضمن سلوک۔ لٰہذا اس طریقہ عالیہ میں وصول کا سدراہ سوائے طالب کی سستی کے اور کوئی چیز نہیں۔ طالب صادق اگر پیر کامل کی صحبت میں رہے اور شرائط طلب جو اکابر سلسلہ نے قراردی ہیں بجالائے۔ تو امید ہے کہ البتہ واصل ہوگا۔ اگر پیر ناقص سے کسی کا پالا پڑ جائے۔ تو چونکہ وہ خود واصل نہیں۔ دوسرے کو کیسے واصل بناسکتا ہے۔ اس صورت میں طریق کا کیا قصور ہے۔
حضرت قیوم ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سلسلہ کی تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کر دیا ہے۔ ولایت کبریٰ کے اوپر کے تمام مقامات آپ ہی پر منکشف ہوئے ہیں اور آپ کے علوم و معارف جدیدہ پر شریعت کی مہر تصدیق ہے۔ چنانچہ آپ مکتوب ۲۶۰ جلد اول میں اپنا طریق بیان کر کے یوں لکھتے ہیں:
’’یہ ہے بیان اس طریق کا ہدایت سے نہایت تک۔ جس کے ساتھ حق سبحانہ تعالیٰ نے اس حقیر کو ممتاز فرمایا ہے۔ اس طریق کی بنیاد نسبت نقشبندیہ ہے جو متضمن اندراج نہایت در بدایت ہے۔ اس بنیاد پر عمارتیں اور محل بنائے گئے۔ اگر یہ بنیاد نہ ہوتی۔ تو معاملہ یہاں تک نہ بڑھتا۔ بخارا اور سمر قند سے بیج زمین ہند میں جس کا مایہ خاک یثرب و بطحاء سے ہے بویا گیا۔ اور اس کو سالوں آب فضل سے سیراب رکھا گیا۔ اور تربیت سے پرورش کیا گیا۔ جب وہ کھیتی کمال کو پہنچی۔ تو یہ علوم و معارف پھل لائی۔‘‘
اور ایک مکتوب (مکتوب ۲۸۱۔ دفتر اول) میں آپ یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
’’اس طریق میں ایک قدم رکھنا دوسرے طریقوں کے سات قدم سے بہتر ہے۔ وہ راستہ جو بطریق تبعیت و دراثت کمالات نبوت کی طرف کھلتا ہے اس طریق عالی سے مخصوص ہے۔ دوسرے طریقوں کی نہایت کمالات ولایت کی نہایت تک ہے۔ وہاں سے کمالات نبوت کی طرف کوئی راستہ کھلا نہیں۔‘‘
مولانا عبد الرحمٰن جامی قدس سرہ السامی نے کیا خوب فرمایا ہے: ؎
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند |
|
برند از رہ پنہاں بحرم قافلہ را |
(مشائخ نقشبند)