سیّد مرتضی قادری
سیّد مرتضی قادری (تذکرہ / سوانح)
محمد بن محمد بن محمد بن سید عبد الرزاق المشہور بہ سید مرتضیٰ حسینی[1] قادری زبیدی حنفی: محی الدین لقب اور ابو الفیض کنتی تھی،محدث ثقہ،فقیہ فاضل، امامِ لغت،ادیب اریب،محقق مدقق،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔۱۱۴۵ھ میں قصبۂ بلگرام میں جو قنوج سے پانچ کوس کے فاصلہ پر اور ہندوستان کے مشہور شہروں میں سے ہے،پیدا ہوئے۔اوائل عمر یعنی۱۱۶۴ھ میں وطن سے نکل کر حرمین شریفین کو تشریف لے گئے اور بعد حج وزیارت مرقدِ انور کے تکمیل علوم خصوصاً علمِ حدیث میں کمر ہمت باندھی اور زبید و مصرو حجاز وغیرہ کے تقریباً ایک سو مائخ وعلماء سے کسب کمالات کیا اور متعدد مشائخ مثل شیخ احمد ملوی و عبد الخالق زبیدی وابو العباس احمد بن علی نینی دمشقی حنفی وجمال محمد بن احمد حنبلی وابو عبداللہ محمد بن احمد غریانی نوالسنی وعبد الغنی بن محمد بحرانی نزیل مخاد محمد بن زین باسمیط علوی حضرمی ومحمد ابن ابراہیم حسینی طرابلسی نزیل حلب وعبدالقادر بن احمد شکعاوی وعمر بن عبداللہ عمر قاضی وعیسٰی بن زریق صاحب لحیّہ وسید عبد القادر بن احمد حسینی وغیرہم سے حدیث و فقہ وگیرہ علوم کی سندیں واجازتیں حاصل کیں اور ونہون نے آپ کی فضیلت و کمالیت اور سوعتِ اطلاع علوم کی شہادت دی،چونکہ آپ بعد تحصیل علوم کے بھی مدت تک شہر زبید میں مقیم رہے اس لیے زبیدی کے نام سے آپ نے شہرت پکڑی یہاں تک کہ کوئی آپ کو ہندی خیال نہ کرتا تھا۔پھر آپ زبید کو چھوڑ کر مصر میں تشریف لے گئے اور وہاں ہنگامۂ افاضہ وافادہ اور تعلیم و تدریس برپا کیا اور علاوہ بے شمار لوگوں کو علوم کی سندیں واجازتیں دینے کی سلطان روم نظام الدین ابو الفتح عبد الحمید خاں اور دستور اعظم السطان ابی المظفر محمد پاشا صدر الودارۃ ونظام الملک کو ان کی استدعاء سے حدیث کی اجازت دی۔عرض کثرت علم و تلامذہ اور نشر علوم تصنیفات کتب وغیرہ بواعظ سے آپ تیرہویں صدی کے مجددین امتِ محمد یہ میں سے تھے ۔ تصانیف آپ نے اس کثرت سے کی کہ اس کا شمار مشکل ہے چنانچہ اس جگہ صر ف مشہور کتب ورسائل کا جو آپ نے تصنیف کیے ہیں ذکر کیا جاتا ہے۔عقود الجواہر المنیفہ فی ادلۃ اماما بی حنیفہ۔الازہار المتناثرہ فے الاحادیث المتواترہ،در الضرع فی تاویل حدیث ام زرع،لغۃ الغریب فی مصطلح آثار الحبیب،تخریج حدیث شیتنبی ہود، المواہب الجلیہ فیما یتعلق بحدیث الاولیۃ۔المرقاۃ العلیہ فی شرح الحدیث السلسل بالاولیۃ۔ العروس المجلیہ فی طرق حدیث الاولیۃ،القول الصحیح فے مراتب التعدیل والتخریج،التجیر فی الحدیث السلسل بالتکبیر،رسالہ اصول حدیث،مناقب اصحاب الحدیث،تاج العروف فی شرح قاموس،تکملۃ القاموس ممافاتہ من اللغۃ لیکن نا مکمل،تخریج حدیث نعم الادام الخل،حدیقۃۃ الصفافی والدی المصطفیٰ، الانتصار لوالدی النبی المختار،الفیۃ السند،امالی حنفیہ،مجالس الشیخونیہ،ایضاح المدارک فی الافصاح عن العواتک،عقد الحمان فی بیان شعب الایمان،القول المسموع فی الفرق بین الکوع والکر موع،النفحۃ القدوسیۃ بواسطۃ البضعہ العبدروسیۃ،العقد الثمین فی طرق الالباس والتلقین،حکمۃ الاشراق الیٰ کتاب الآفاق،شرح الصدر فی شرح اسمائ اہل بدر،التفتیش فی معنی لفظ درویش،فر نقاب الخفاء عمن انقی الی وفا وابے الوفاء زہر الالکمام المشتق عن جیوب الالہام بشرح صیغۃ سیدی عبد السلام،رشفۃ المدام المختوم البکری من صفوۃ زلال صیغ القطب البکری،رشف سلام الرحیق فی نسب حضرۃ الصدیق،تنسیق قلائد المنن فی تحقیقی کلام لمنن،النواقح السکیہ علی الفوائح الکشکیہ، ہدیۃ الاخوان فی حکم شرف بلدخان،منح الفیوضات الوفیہ فیما فی سورۃ الرحمٰن من اسرار الصفۃ الالہٰیۃ،ارجوزہ فی الفقہ،طبقات الھفاظ،اسعاف الاشراف،اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین،رفع الکلل عن العمل،شرح خرب الکبیر المسمے بہ تنبیہ العارف البصیر علیٰ اسرار الحزب الکبیر،انالۃ المنی فی سرالکنی،القول المثبوت فی تحقیق لفظ التابوت۔حسن المحاضرہ فی آداب البحث والمناظرہ،رسالہ فی اصول المعمی، کشف الغطاء عن الصلوٰۃ الوسطی،الاحتفال بصوم الست من شوال،اقرار العین بذکر من نسب الی الحسن والحسین،الابتہاج بذکر امر الحاج،التعریف بضروری علم التصریف،اتحاف الاصفیاء بسلاسل الاولیاء۔اتحاف نبی الزمن فی حکم قہوۃ الیمن، المقاعد العندیہ فی المشاہد النقشبندیہ،درۃ المضیہ فے الوصیۃ المرضیہ، ارشاد الاخوان الی الاخلاق الحسان،شرح الفیۃ السند،شرح صیفۃ ابن مشیش،شرح صیفۃ السید البدوی،شرح ثشرح ثلث صیغ لابی الحسن البکری،شرح سبع صیغ المسمے بد لائل القرب للسید مصطفیٰ ۂبکری،تحفۃ العبد،تفسیر سورۃ یونس علیٰ لسان القوم،لقطۃ العجلان فی لیس فی الامکان ابدع مماکان،المنح العلیہ فی الطریقۃ النقشبندیۃ،کشف اللثام عن اداب الایمان والسلام وغیر ذالک۔
کہتے ہیں کہ جب آپ کی حد سے زیادہ شہرت ہوئی اور خواص وعوام میں بڑا قدرو مرتبہ ہوا اور اقطار و اکناف سے کثرت کے ساتھ لوگوں نے رجوع کیا تو آپ نے اپنی حویلی سے باہر نکلنا کم کردیا اور یاروں سے پوشیدگی اختیار کر کے معتکف ہوگئے یہاں تک کہ ماہ شعبان ۱۲۰۵ھ میں طاعون سے شہادت پائی اور سیدہ رقیہ کے مشہد میں دفن کیے گئے۔’’مخزن اسرار الٰہی‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
1۔ مرتضیٰ بن محمد بن قادری ضیاء اللہ حسینی بلگرامی زیبدی۔(نزہۃ الخواطر)
(حدائق الحنفیہ)