سیّد شریف
سیّد شریف (تذکرہ / سوانح)
علی بن محمد بن علی جرجانی المعروف بہ سید شریف: شہر جرجان میں ۲۲؍ شعبان ۸۴۰ھ [1]میں پید اہوئے اور بچپن میں ہی عربی پڑھنے کی طرف رجع ہوئے،جب سولہ دفعہ شرح المطالع پڑھ چکے تو آپ کے خیال میں ایا کہ ایک دفعہ خود قطن الدین رازی سے بھی جو کتاب مطالع کے شارح ہیں،پڑھ لینا چاہئے پس اس ارادہ سے ہرات میں ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے شرح مطالع پڑھنے کی التماس کی،قطب الدین رازی اس وقت ایک سو بیس سال کی عمر کے تھے اور بسبب بڑھاپے کے ان کے ابرو آنکھوں پر پڑے ہوئے تھے پس انہوں نے ہاتھوں سے دونوں ابرو آنکھوں سے اٹھا کر سید شریف کیطرف دیکھا تو یہ عین نوجوانی میں تھے اور ان کا فکر علم منطق میں مثل روشنی برق کے چمکتا تھا پس قطب الدین نےآپ کو کہا کہ تو نو جوان لڑکا ہے اور میں نہایت بوڑھا ہوں۔میں تجھو کو پڑھا نہیں سکیت،اگر تو چاہتا ہے کہ مجھ سے شرح مطالع سُنے تو میرے شاگرد خاص اور تربیت یافتہمباکر شاہ کے پاس جاجو اس وقت مصر میں مدرس ہے،وہ تجھ کو کتاب مذکور اس طرح پر پڑھائے گا جس طرح کہ اس نے مجھ سے پڑھی ہے۔
پس آپ ہرات سے بلادِ مصر کی طرف متوجہ ہوئے،راستہ میں آپ نے جلاں الدین بن محمد اقسرائی شارح موجز کی جو طب میں ہے شہرت سُنی،پس آپ کے بلادِ کرمان کی طرف پھرے۔جب قریب پہنچے تو اقسرائی کی شرح کو جو انہوں نے ایضاح خطیب قزوینی پر لکھی تھی کسی کے پاس دیکھا اور آپ کو وہ پسندیدنہ آئی اور کہا کہ یہ مثل گوشت گائے کے ہے جس کے اوپر مکھیاں بیٹھی ہوئی ہوں۔وجہ اس کی یہ تھی کہ ایضاح ایک مفصل و مبسوط کتاب ہے جو حل کی چنداں حاضت نہیں رکھتی اور اقسرائی نے پہلے اس کے تمام متن کو لکھ لیا تھا،پھر اس پر انے کلام سے تعاقب کیا تھا اور متن پر سرخ سیاہی سے لکیر پھیردی تھی،پس اس سے وہ شرح گویا مچل گوشت گاؤ کے جس پر مکھیاں بیٹھی ہوں،ہوگئی تھی۔جب سید شریف نے اس کتاب کے حق میں ایسا کہا تو بعض طالب علموں نے آپ کو کہا کہ آپ اقسرائی کے پاس جائیں اور ان کی تقریر کو دیکھیں کہ وہ تحریر سےت کہیں بہت بڑھ کر ہے،اس پر آپ ان کی طرف روانہ ہوئے مگر جب شہر میں پہنچے تو اقسرائی اسی وقت فوت ہو گئے تھے،آپ نے وہاں مولیٰ شمس الدین محمد فناری سے ملاقات کی اور ان کی رفاقت سے وہاں سے مصر کو کوچ کیا اور وہاں کاجر اکمل الدین محمد بن محمود بابرتی صاحبِ عنایہ شرح ہدایہ سے فقہ پڑھی،پھر آپ مبارک شاہ کی خدمت میں و اسطے پڑھنے شرح شمسیہ اور شرح مطالع کے حاضر ہوئے انہوں نے فرمایا کہ م یں آپ کو مستقل سبق نہیں دے سکتا کیونکہ اتنی فرصت نہیں البتہ اگر تم کو صرف سماعت منظورہے تو اختیارہے،آپ اسی بات پر راضی ہوگئے۔
ان دنوں ایک شخص نے اولاد امراء مصر سے شرح مطالع مبرک شاہ سے پڑھنی شروع کی تھی۔پس آپ اس کے سبق کے وقت حاضر ہوکر اس کو سنتے تھے۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ مباکر شاہ اپنے گھر کے دروازہ سے نکل کر مدرسہ کے صحن میں ٹہلنے لگے۔اتفاقاً سید شریف کا مکان بھی مدرسہ کے متصل تھا،سید شریف اس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ شارح کا یہ قول ہے اور استاد یہ کہتا ہے اور میں کہتا ہوں، پھر اور کلمات لطیف آپ نے پڑھے جن کو مبرک شاہ سن کر نہایت خوش ہوئے یہاں تک کہ خوشی کے مارے رقص کرنے لگے اور سید شریف کو مستقل سبق پڑھنے اور کلام وگیرہ کرنے کی اجازت دی پس آپ ایسے رتبۂ کمال کو پہنچے کہ اقران و امثا پر فائق ہوکر علامۂ دہر،وحید عضر فقیہ،محدث،فصیح،بلیغ،مناظر،جدلی ہوئے۔ پھر شیراز کو آئے اور ۷۷۰ھ میں جبکہ شاہ شجاع الدین بن مظفر قصر زرد میں مقیم تھا تو آپ نے اس سے ملاقات کرنے کا ارادہ کیا اور سپاہیوں کا لباس پہن کر سعدالدین مسعود تفتازانی صاحب مطول و تلخیص وغیرہ سے جو باشاہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے کہا کہ ہیں ایک شخص غریب تیر انداز ہوں،اگر آپ میرے واسطے کو شش کریں تومجھ کو بادشاہ کی ملاقات حاصل ہوجاتی ہے۔
تفتازانی نے یہ بات قبول کی اور گھوڑے پر سوار ہوکر سید شریف کو اپنے ساتھ لیا جب قصر کے دروازہ پر پہنچے تو سید شریف کو وہاں ٹھہرا کر آپ بادشاہ کے پاس گئے اور سید شریف کے اوصاف بیان کیے۔اس پر بادشاہ نے آپ کو طلب کیا اور کہا کہ مجھ کو اپنی کاروائی تیر اندازی میں دکھلا۔آپ نے ایک جزو ان اعتراجوں کے جو اپنے نتائج طبع سے مصنفیں پر کیے تھے نکال کر بادشاہ کو دئے اور کہا یہ میرے تیر ہیں اور یہ میری کاروائی ہے۔پس بادشاہ آپ کے مرتبہ و فضیلت پر آگاہ ہوا اور آپ کی عزت کی اور آپ کو اپنے ہمراہ شیراز میں لےجاکر دار الشفاء کی تدریس آپ کے سپرد کی جہاں آپ دس سال درس و تدریس میں مشغول رہے۔
جب امیر تیمور نے ۷۸۹ھ میں شیراز کو فتح کیا ار لوٹ کا حکم دیا تو آپ کو بہ سبب سفارش وزیر اور نیز آپ کی فضیلت کے امان دی اور آپ تیمور کی اجازت سے سمر قند میں کاجر اقامت گزین ہوئے اور وہاں درس و تدریس شروع کردی۔ان دنوں سعد الدین تفتازانی مجالسِ تیمور کی روسے دونوں بربر ہیں لیکن سید شریف کو نسب کے لحاظ سے فضیلت ہے،اس سے سید شریف کا دل کھل گیا اور آپ کو اس بات کی جرأت ہوئی کہ میں سعد الدین کو مناظرہ میں زک دوں۔پس ۷۹۱ھ میں ان دونوں کی بحث اجتماع استعارہ تبعیہ و تمثیلیہ میں جو صاحب تفسیر کشاف کےکلام میں زیر آیت اولٰئک علیٰ ھدی من ربھم کے واقع ہے،ہوئی اور رمضان ان دونوں کے نعمان الدین خوارزمی معتزلی ہوئے۔پس اس نے سید شریف کی رائے کو ترجیح دی جس سے خاص و عوام کے نزدیک غلبہ سید شریف کا تفتازانی پر مشہور ہوگیا۔ اس سے تفتازانی کو بڑا غم لاحق ہوا اور وہ اسی غم میں ۷۹۱ھ میں سمر قند میں فوت ہوگئے۔جب تیمور مرگیا تو سید شریف شیراز میں آئے اور اسی جگہ چار شنبہ کے روز ۶؍ربیع الاول ۸۱۶ھ میں فوت ہوئے۔’’مشہور دارین‘‘ تاریخ وفات ہے۔
تصنیفات آپ کی پچاس سے زیادہ ہے اور ان کے نام یہ ہیں: تفسیر زہراوین،چغمینی(جوہئیبت میں ہے)شرح کافیہ،حاشیہ تفسیر بیضاوی،حاشیہ اوائل تفسیر کشاف،حاشیہ مشکوٰۃ،حاشیہ خلاصہ اصول حدیث مصنفیہ طیبی،حاشیہ عوارف، حاشیہ ہدایہ،حاشیہ تجرید طوسیٰ حاشیہ شرح مطالع،حاشیہ شرح شمسیہ،حاشیہ مطول، حاشیہ مختصر،حاشیہ شرح طوالع،حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمۃ،حاشیہ شرح حکمۃ العین، حاشیہ شرح حکمۃ الاشراق،حاشیہ رسالہ وجع،حاشیہ شرح شک الارشارات طوسی، حاشیہ تلویح،حاشیہ نصاب(جو عجمی لغت میں ہے)،حاشیہ متن اشکال التاسیس، حاشیہ شرح عضد،حاشیہ تحریر اقلیدس طوسی،حاشیہ قصیدہ کعب بن زہیر،رسالہ صرف میر(فارسی میں)،رسالہ نحو میر (فارسی میں)،رسالہ مناظرہ مسمٰی بہ شریفیہ، رسالہ تعریفات الاشیاء،رسالہ تحقیق معانی حروف،رسالہ وجود ہیں،رسالہ موجود ہیں،رسالہ حروف میں،رسالہ صوت میں،رسالہ مناقب خواجہ نقشبندی میں، رسالہ جودو عدم میں،رسالہ آفاق وانفس میں،رسالہ علم ادوار میں،رسالہ اصل صوفیہ کے وجود ہیں۔
تصوف کا علم آپ نے خواجہ علاؤ الدین محمد بن محمد عطا بخاری سے جو بڑے عزیزی خلیفہ شیخ بہاء الدین نقشبند کے تھے،حاصل کیا تھا کے جن کے حق میں آپ کا یہ قول تھا کہ میں نے خدا کو جیسا کہ چاہئے تھا نہیں پہنچانا تھا جب تک کہ میں خدمت عطار بخاری میں مشرف نہیں ہوا تھا۔
1۔ ۷۴۰ھ ابو الحسن کنیت،ولادت تاکو نزد استر آباد۔’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)