حضرت شیخ ابراہیم مراد آبادی
حضرت شیخ ابراہیم مراد آبادی (تذکرہ / سوانح)
ان میں سے ایک حضرت شیخ ابراہیم مراد آادی ہیں جو حضرت شیخ کے اکابر خلفا میں سے ہیں اور انہوں نے شغل سہ پایہ کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ تین مرتبہ ذکر اسم ذات یعنی اللہ اللہ کر کے ایک تسبیح کا دانہ گراتے تھے اور اس طرح آپ چار سوتسبیح کرتے تھے (یعنی ایک سانس میں چار سو تسبیح) آپ پٹھان تھے اور ولایت درہ کے رہنے والے تھے۔ آپ تلاش شیخ میں پھرتے پھراتے قصبۂ بنور پہنچے۔ اس وقت حضرت شیخ آدم بنوری وہاں موجود تھے اور مدینہ منورہ نہیں گئے تے۔ شیخ ابراہم نے ان کی خدمت میں رہ کر ایک مدت تک ریاضت و مجاہدہ کیا لیکن جو کچھ انکا دل چاہتا تھا میسر ہو نہ ہوا۔ حضرت شیخ آدم بنوری انکی بڑی عزت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں خلافت دیں کہ ناگاہ ان کا سویا ہوا بخت بیدار ہوا ایک رات نیند اور بیداری کی کیفیت م یں جمال جہاں آرائے سرورِ کونینﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ اکابر صحابہ اور حضرت شیخ محمد صادق بھ ی ساتھ تھے۔ آنحضرتﷺ نے حضرت شیخ محمد صادق کی طرف اشارہ کر کے شیخ ابراہیم سے فرمایا کہ تمہارے شیخ یہ ہیں۔ گنگوہ جاکر ان سے ملو۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور مجھے انکا نام معلوم نہیں تاکہ لوگوں سے پوچھ کر انکے پاس جاؤں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ میری امت کے اکابر اولیا میں سے ہیں اور انکا نام نظر محمد ہے ان کے پاس جاؤ مطلوب حقیقی تک رسائی ہوجائیگی۔ جب شیخ ابراہیم کو افاقہ ہوا تو فوراً اٹھے اور حضرت شیخ آدم بنوری کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ آج رات مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا فتح باب ایک بزرگ کے ہاتھوں ہونا ہے جنکا نام نظر محمد ہے اور انکا مسکن قصبۂ گنگوہ ہے۔ اگر آپ مجھے وہاں جانے کی اجازت مرحمت فرمادیں تو بہتر ورنہ میں ضرور وہاں چلا جاؤنگا۔ شیخ آدم نے کہا کہ میں تجھے اپنے اکابر اصحاب میں شمار کرتا تھا اور مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ تم اس طرح کروگے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں از خود نہیں بلکہ حضرت رسالت پناہ ﷺ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ حیرت ہے کہ اس قدر دعوۂ کمال کے باوجود آپ پر یہ بات منکشف نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے آپکی خدمت میں مدت تک ریاضت ومجاہدہ کیا ہے لیکن مقصود حقیقی کو نہیں پایا۔ غرضیکہ کافی ردو بدل کے بعد شیخ ابراہیم وہاں سے روانہ ہوکر قصبۂ گنگوہ شریف پہنچے۔ اب جس شخص سے حضرت شیخ نظر محمد کا نام دریافت کرتے تھے وہ کہتا تھا کہ اس نام کا کوئی بزرگ یہاں نہیں ہے۔ ہاں یہاں ایک کامل بزرگ رہتے ہیں جنکا اسم گرامی حضرت شیخ محمد صادق ہے جو خلق خدا کو ہدایت دے رہے ہیں۔ یہ سنکر وہ حیرت زدہ ہوا کہ آنحضرتﷺ نے تو اس بزرگ کا نام نظر محمد بتایا ہے۔ جنکا یہاں نام و نشان نہیں ہے اور جو بزرگ یہاں مشہور ہیں انکا نام محمد صادق ہے۔ لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کا فرمان صحیح اس لیے ممکن ہے کہ نظر محمد کے نام کے کوئی بزرگ یہاں گمنامی میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ لیکن پہلے مجھے جاکر اس بزرگ کو ملنا چاہیے جو یہاں مشہور عام ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت شیخ محمد صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھتے ہی پہنچا لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنکو عالم معاملہ میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ دیکھا تھا۔ اب وہ حضرت شیخ پر دل و جان سے فریفتہ ہوگئے۔ لیکن دل میں یہ خلش باقی تھی کہ آخر نام میں کیوں فرق ہے اور اسی خلش کی وجہ سے بیت سے بھی گریز کر رہے تھے۔ حضرت شیخ محمد صادق کو انکے دل کا خطرہ معلوم ہوگیا اور خانقاہ سے اٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوئے آپکے اصحاب کا دستور یہ تھا کہ جب آپ گھر تشریف لے جاتے تھے تو وہ دروازے تک ساتھ جاتے تھے۔ جب اس مرتبہ آپ گھر کی طرف گئے اور تمام اصحاب کے ساتھ شیخ ابراہیم بھی دروازے تک گئے۔ حضرت اقدس نے تمام اصحاب کو رخصت کر کے شیخ ابراہیم سے فرمایا کہ اگر چہ لوگوں میں میرا نام محمد صادق ہے جو میرے والدین کا رکھا ہوا ہے۔ لیکن حضرت رسالت پناہ غایت لطف وتوجہ سے میرا نام نظر محمد رکھا ہوا ہے اور مجھے اسی نام سے یاد فرماتے ہی ں۔ اس محبوب خاص وعام سے یہ الفاظ سنتے ہی شیخ ابراہیم بے اختیار ہوکر بیعت ہوگئے۔ حضرت اقدس نے انکو ذکر نفی واثبات اور ذکر اسم ذات بطریق جہر تلقین فرمایا۔ شیخ ابراہیم نے کام شروع کردیا اور دو ہزارپانچ سو تک پہنچایا تھا کہ عنایت حق تعالیٰ کا نزول ہوا اور انکو فتح باب نصیب ہوا (یعنی دروازہ کھل گیا) اور مقصود حقیقی تک رسائی ہوگئی۔
مخفی نہ رہے کہ حضرت قطب الاقطاب غوث وقت شیخ محمد صادق گنگوہی قدس سرہٗ کے اصحاب رات کے آخری پہر اٹھ کر چار رکعت تہجد ادا کرتے تھے اور اس کے بعد ذکر میں مشغول ہوجاتے تھے۔ بعض ذکر خفی کرتے تھے بعض مراقبہ کرتے تھے۔ بعض حبس دم کرتے تھے، بعض پاس انفاس میں رات گذار دیتے تھے۔ بعض اصحاب نے تو یہاں تک کام پہنادیا تھا کہ ساری رات ایک ہی سانس میں گذار دیتے تھے۔ آپکے اصحاب میں ایک درویش تھا جسکا نام شیخ مبارک تھا جو صبح سے ظہر تک ایک سانس میں گذاردیتا تھا۔ جب مؤذن ظہر کی اذان دیتا تھا تو چونک پڑتا تھا اور کہتا تھا کہ ظہر کا وقت بھی ہوگیا ہے میں نے تو ابھی ذکر شروع کیا تھا۔ شیخ مبارک کا مختصر حال اس کتاب میں بیان کیا جائیگا ۔
دستور ذکرِ جہر
غرضیکہ حضرت اقدس کے ہاں جو دستور تھا کسی جگہ سننے میں نہیں آیا آپکے اصحاب آخر شب سے لیکر نماز فجر تک حلقۂ ذکر جہری میں مشغول رہتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد سات ہزار بار ذکر جہری مقرر تھا۔ اسی طرح نماز ظہر سے عصر تک اور عصر سے مغرب تک اور مغرب سے عشاء تک آپ کے اصحاب حلقۂ ذکر قائم کرتے تھے عشاء کے بعد بعض شوق مند حضرات ساری رات ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ ذکر جہری کا اس قدر رواج تھا کہ مسافر لوگ رات کو سو نہیں سکتے تھے۔ اکثر لوگوں نے ذکر جہری تیس ہزار تک پہنچادیا تھا بعض بیس ہزار تک کرتے تھے اور یہ سب سے کم تھا۔ شیخ یوسف جو آپکے اصحاب میں سے تھے رات دن میں چالیس ہزار بار ذکر جہر کرتے تھے شیخ یوسف کا ذکر بھی آگے آرہا ہے۔ چالیس ہزار ذکر کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے نفی واثبات یعنی لا الہ اللہ چارسو مرتبہ پھر صرف اثبات الا اللہ چھ سو مرتبہ اور باقی اسم ذات(یعنی اللہ اللہ) کرتے تھے۔ ح ضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ جو شخص ذکر جہری ایک ہزار دوسو مرتبہ کرتا ہے ضرور مرتبہ ولایت سے مشرف ہوتا ہے۔
ذکر نفی واثبات کا طریقہ
اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو سو مرتبہ نفی واثبات کرے، چار سو مرتبہ صرف اثبات اور چھ سو مرتبہ اسم ذات۔ حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ چودھیوں مکتوب میں لکھتے کہ مشائخ عظام کا طریقہ یہی ہے کہ اہل سنت وجماعت کے عقائد کے مطابق پہلے تصحیح عقائد ہوتی ہے اور پھر ارکان پنجگانہ کے بعد ابتدائے سلوک سے انتہا تک ذکر جہری کا دور دورہ رہتا ہے۔ لیکن مبتدیوں کو کچھ اور حاصل ہوتا ہے اور منتہیوں کو اور۔ اس راستے میں پہلے ذکر نفی واثبات ہے اور ذکر نفی واثبات سے مراد عدم اور وجود، ظلمت ونور، فنا وبقا، سیاہی وسفیدی، اور رات دن ہے اور ذکر نفی واثبات لا اِلہ الا اللہ ہے جس میں غیر یا غیریت کی نفی ہے اور ذات حق کا اثبات ہے اور یہی حقیقت ہے۔ ذکر اثبات الا اللہ ہے۔ اور ذکر اسم اللہ اللہ ہے۔ چ نانچہ طالب انشراح قلب کلئے کسی وقت صحرا میں جہاں شور وغل نہ ہو اور کسی کا گذر بھی نہ ہو نہ آواز سنائی دے مربعہ (پالتھی) بیٹھ کر بآواز بلندذکر نفی واثبات کرے یا اپنے حجرہ میں بیٹھ کر کرے۔ اگر چہ مربعہ بیٹھنے کو بعض لوگوں نے بدعت کہا ہے لیکن فوائد باطنی کیلئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز یہ بدعت ہونا ثابت نہیں ہے کیونکہ آنحضرتﷺ بھی مسجد میں مربعہ بیٹھتے تے۔ لیکن ذکر جہری میں مرشد کا واسطہ یاد رکھے اور الفاظ کے معنی پر بھی غور کرتا رہے اور لا الہ الا اللہ کے معنی ابتدائے سلوک میں لا معبود الا اللہ ہیں، وسط سلوک میں لا مقصود الا اللہ اور انتہائے سلوک میں لا موجود الا اللہ زیر غور رکھے۔ ہمارے سلسلہ کےمشائخ پہلے اس طرح ذکر تلقین فرماتے ہیں کہ پہلے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ تین مرتبہ تکرار کرے۔ اسکے بعد سر کو ناف کی طرف جھکاکر لا الہ کہے اور سر کو دائیں کندھے کی طرف لے جاکر یہ خیال کرے کہ غیر اللہ کو میں نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اسکے بعد سر کو دائیں طرف لے جائے اور الا اللہ کی ضرب قلب پر لگائے۔ اسی طرح لا الہ الا اللہ دو سو مرتبہ کہے اور درمیان میں گاہے گاہے محمد رسول اللہ بھی کہتا رہے۔ اور دسویں یا بیسویں مرتبہ کلمہ طیبہ پورا پڑھے۔ اسکے بعد تھوڑی دیر تک مراقب ہوجائے اور فیضان کا انتظار کرے۔ اسکے بعد پہلے کی طرح پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ کلمہ طیبہ بین مرتبہ دہراکر صرف اثبات یعنی الا اللہ کی ضربیں چار سو بار دل پر لگائے جو بائیں جانب ہے اور دل میں توئی توئی کا تصر جمائے رکھے (یعنی الا اللہ تو ہی ہے) اسکے بعد تھوڑی دیر مراقبہ کرے اور پھر سر اٹھا کر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ تین مرتبہ کلمہ طیبہ کا تکرار کرے اور پھر چھ سو مرتبہ ذکر ضربی اللہ اللہ کرے پہلی ضرب دل پر لگائے جو بائیں جانب ہے اور دوسری ضرب جگر پر لگائے جو دائیں طرف ہے اس ذکر کے دوران انت الھادی، انت الحاض، انت الناظر کا تصر کرے اور مرشد کے رابطے اور واسطے کا تصور جمائے رکھے۔ جب یہ ذکر بارہ سو مرتبہ پورا ہوجائے تو کچھ دیر مراقب ہوکر بیٹھ جائے۔اور یہ تصور کرے کہ باطن سے کیا علم معرفت وارد ہوتا ہے۔ اسکے بعد سر اٹھاکر بسم اللہ الرحمٰن الرحٰم کے ساتھ تین مرتبہ کلمہ طیبہ کا تکرار کرے۔ اور ذکر یک ضربی اللہ اللہ اللہ ایک سو مرتبہ قلب پر مارے۔ اگر اس سے انشراح محسوس ہو تو یہ ذکر یک ضربی کرتا رہے کیونکہ اس سے بہت فیضان حاصل ہوتا ہے۔ اور خوب جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالجلیل جو حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے اکابر خلفاء میں سے ہیں اپنے بعض رسائل میں لکھتے ہیں کہ اسی قسم کا ذکر ہمارا معمول رہا ہے خصوصاً ابتدا میں۔ حضرت شیخ عبدالجلیل کا حال بھی اپنی جگہ پر آرہا ہے۔
طریق ذکر چہار ضربی
ذکر نفی واثبات ضربی چہار کا طریقہ ہے کہ کلمہ لا الہ بائیں جانب سے کھینچ کر دائیں لے جائے اور الا اللہ کی ضرب پھر دل پر لگائے اسی طرح ایک سانس میں۔ دل پر چار ضربیں لگائے۔ لا الٰہ الا اللہ کی ضربات ثلثہ میں اشارہ ہے تین خطرات کی نفی کا یعنی خطرۂ شیطانی، نفسانی اور ملکی۔ اور الا اللہ کی چوتھی ضرب کا اشارہ خطرۂ رحمانی کا اثبات ہے۔ لیکن ذکر دو ضربی نفی واثبات ومادم اس طرح کرے کہ ذکر میں مستغرق ہوجائے کیونکہ صرف چہار ضربی میں ایک قسم کا تفرقہ ہے۔ ذکر دو ضربی لا الٰہ الا اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ لا اِلٰہَ بائیں طرف سے کھینچ کر تیزی سے دائیں کندھے پر لے جائے اور جلدی سے اِلاَ اللہ کی ضرب دل پر مارے۔ اور ہر تیسری، چوتھی، پانچویں، ساتویں یا دسویں مرتبہ کلمہ محمد رسول اللہ کہے۔ تاکہ کلمہ طیبہ مکمل ہوجائے۔ جب شغل نفی واثبات سے دل کا آئینہ صاف ہوجائے تو الا اللہ کی بجائے اللہ اللہ کا ذکر کرے۔ تاکہ اللہ اللہ رہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عشق اللہ اللہ کے سوا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اور اس اسم کے سوا کسی چیز کا خیال دل میں نہیں آنے دیتے۔
تصویر اسم اللہ
بعض حضرات اسم مبارک اللہ کی تصویر لوح دل پر اس طرح بناتے ہیں کہ دل کو سبز رنگ تصور کر کے اس پر سنہری رنگ میں اسم اللہ کا تصور کرتے ہیں۔ تاکہ اللہ کے نقش کے سوا دل میں اور خیال میں کوئی چیز نہ رہے۔ اور سب اللہ ہوجائے۔ اسکے بعد الف کو ہٹاکر صرف اللہ کا تصور کرے۔ اسکے بعد نقش الہ کا تصور کرے اور آخر میں سوائے دائرہ حرف ہ دل پر کچھ نہ رہ ے۔ غلبہ میں جب دائرہ ہا (ہ) وسعت پکڑتا ہے اور جوں جوں دائرہ وسیع تر ہوتا ہے درمیانی نقطہ یعنی مرکز دائرہ جس سے مراد تعین سالک ہے چھوٹا ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ جب دائرہ لا متناہی (لامحدود) ہو جاتا ہے تو نقطہ (تعین سالک) گم ہوجاتا ہے اور لا تعین (یعنی ذات احدیت یا ذات بحت) کے بغیر کچھ باقی نہیں رہتا۔ سالکین کا کہناہے کہ صاحب عشق، شور اور دلولہ کیلئے یہی اسم اللہ کافی ہے اَلَیْسَ اللہ بکاف عَبْدہٗ قُل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون (کیا بندہ کیلئے اللہ کافی نہیں۔ اللہ کہو اور چھوڑ دو انکو اپنے خرافات میں مبتلا)
ایکے آنچہر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئی
عزیز من! اس اسم مبارک میں ایسے مستغرق ہوجاؤ کہ تیرا دل خود بخود ذاکر ہوجائے اور بے اختیار ہر وقت ذکر کرتا رہے حتیٰ کہ بول و براز کے وقت بھی نہ چھوٹ سکے۔ خواہ جتنی کوشش کرو۔ اس حالت میں ذاکر کو بے ادبی معاف ہے
ذاکر حق چو بصف دل شدہ۔ مرکبۂ قرب بمنزل شدہ
(ذکر حق جب دل میں بیٹھ جاتا ہے تو منزل قرب نصیب ہوتی ہے)
طریق ذکر خفی
اور جولوگ ذکر جہری کے قابل نہیں ہیں اسم اللہ دل میں کہتے اور زبان تالو سے لگی رہتی ہے اور دل میں اللہ اللہ کا ذکر جاری رہتا ہے بملاحظ معنی اور واسطۂ مرشد کے ساتھ۔
اور جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ ذکر للسان لقلقۃ وذکر القلب وسوسۃ وذکر السیر شرکٌ (زبان کا ذکر بک بک ہے۔ قلب کا ذکر وسوسہ ہے اور ذکر سری شرک ہے۔) وہ لوگ واصلین ہیں۔ وگر نہ جب تک ان اذکار کو مکمل نہ کیا جائے لطیفۂ روح کا ذکر (ذکر روحی) حاصل نہیں ہوتا ۔
طریق پاس انفاس
اللہ اللہ کا ذکر بطریق پاس انفاس بھی کیا جاتا ہے اسکا طریقہ یہ ہے کہ جب سانس اندر لیتے ہیں تو زبان کے ساتھ نہیں بلکہ اسم مبارک اللہ دل میں کہتے ہیں۔ اس طریقے میں کمال حاصل کرنے کیلئے بعض الف اور لام کو بھی محذوف کردیتے ہیں اور صرف ھُو کا ذکر کرتے ہیں یعنی سانس اندر لیتے وقت بھی ھُو کہتے ہیں اور باہر نکالتے وقت بھی ھُو دل سے کہتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ ذکر یعنی ھُو ھُو ہر سانس میں خود بخود جاری ہے خواہ آدمی جانے یا نہ جانے بندہ ہمیشہ ذکر میں [1] ہے۔ لیکن کامل صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ذکر سے آگاہ ہو۔ اور اپنے ذکر کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے تاکہ عین ذات (ذات باری تعالی) میں محو اور مستغرق ہوجائے اور صوت مستقیم (یعنی صوت انہدیا ذکرالنحد) بے اختیار ہر شخص کے اندر جاری ہے اور یہ اعلیٰ قسم کا ذکر ہے۔ چنانچہ اگر کانوں میں انگلیاں دیدی جائیں تو یہ ذکر سنائی دیتا ہے۔ اور بعض لوگ اس آواز کو اُسی آواز ھویت کا نام دیتے ہیں جو باطن میں ملحق ہے۔ جو اس آواز میں مشغول رہتا ہے صدائے ھ ُو ھُو تک پہنچ جاتا ہے اور اس میں گم ہوجاتا ہے اور اس کے مغز، گوشت پوست اور ہڈیوں سے یہی آواز نکلتی ہے۔
صوت ھُو کی اقسام
اس آواز کی تین قسمیں ہیں۔ اول وہ جو دو جسموں کے باہم ملنے سے پیدا ہوتی ہے جیسے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارنے سے تالی بجتی ہے لیکن ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی۔ اس آواز کو محدث اور مرکب کہتے۔ دوم وہ قسم ہے جو دو جسموں کی حرکت اور الفاظ کی ترکیب کے بگیر عنصر آتنش کی وجہ سے انسان اندر سے نکلتی ہے۔ اس آواز کو بسیط اور لطیف کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تیسری قسم کی وہ بے حد آواز ہے جو بے واسطہ ہمیشہ ظاہر ہوتی ہے۔ یہ آواز ہمیشہ ایک ہی طریق پر ہوتی اور کم وبیش نہیں ہوتی اور نہ اس میں تبدیل وتغیر کو دخل ہے۔ یہ آواز بے جہت ہوتی ہے (یعنی کسی خاص سمت سے نہیں آتی) اگر چہ سارا جہان اس آواز سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن اہل اللہ کے بغیر کوئی اس سےمطلع نہیں ہوتا۔ یہ آواز تخلیق کائنات سےپہلے کی آواز ہے اور اس آواز کو بے حد اور مطلق کہا جاتا ہے۔ اس شغل سے اوپر کوئی شغل نہیں ہے۔ کیونکہ باقی جتنے شغل ہیں سب انسان کی کوشش اور اختیار سے صادر ہوتے ہیں جونہی آدمی ایک لمحہ کیلئے ان سے غافل ہوتا ہے منقطع ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ شغل شریف آدمی کے ارادہ اور اختیار کے بغیر علی الدوام بلا انقطاع اور بلا انفعال میسر رہتا ہے۔ حضرت رسالت پناہﷺ غارِ حرا میں اسی شغل میں مشغول رہتے تھے۔ جسکی وجہ سے جبرائیل علیہ السلام آنحضرتﷺ پر ظاہر ہوئے اور وحی کی ابتدا ہوئی۔ اسکے بعد ہوا جو کچھ ہوا۔
سلطان الذکر
لیکن حصول کمال کیلئے اس طریقے سے احسن اور بہتر طریقہ سلطان الذکر ہے جس سے مراد صورت مستقیم ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ رات کے وقت یادن میں صحرا میں جاکر کسی ایسی جگہ پر بیٹھ جائے جہاں لوگوں کی آمد و رفت سے محفوظ ہو۔ یا ایسے حجرہ میں بیٹھ جائےجہاں کوئی نہ آسکے۔ پس خلوت میں بیٹھ کر اپنے کانوں کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس قدر ہوسکے جسم کر متوجہ ہو۔ حتی کہ اُسے آواز لطیف سنائی دے وہ آواز رفتہ رفتہ اس قدر غالب ہوجاتی ہے کہ تمام جہان میں سنائی دیتی ہے اور کوئی جگہ اور کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا کہ وہ آواز اُسے سنائی نہ دے۔ اور یہ آواز جو اسکے کانوں میں پیدا ہوتی ہے اس صوت عظیم کے سمندر میں ایک قطرہ کی مانند ہے۔ نیز باقی تمام آوازوں کی نسبت بھی اس صورت مستقیم کے ساتھ یہی ہے(یعنی قطرہ ازوریا)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حکیم افلاطون کے مابین گفتگو
روایت ہے کہ حکیم افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اے بیوہ کے بیٹے کیا تم جو کہتے ہو کہ میرا پروردگار مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے حالانکہ وہ جہت سے منزہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہاں میں ہوں۔ یہ دعویٰ کرنے والا اور میں تمام جہات (اطراف) سے آواز سنتا ہوں جو انقطاع اور حرکت حروف سے منزہ اور پاک ہے۔ یہ سن کر افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا اقرار کیا اور ان کے ساتھ ایمان لے آیا۔
صوتِ مستقیم وحی کی صورت میں
اسی طرح ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نزول وحی کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کبھی دیگ کے جوش میں مانند ہوتی ہیں۔ کبھی شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھنا ہٹ کی طرح اور کسی وقت فرشتہ آدمی کی شکل میں متصور ہوکر مجھ سے بات کرتا ہے اور بعض اوقات گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ عاشق بے نیازی خواجہ حافظ شیرازی نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔؎
کس ندانست کہ منزل دلدار کجا است |
|
ایں قدرہست کہ بانگ جر سے مے آید |
(کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ دوست کا مقام کہاں ہے۔ بس یہی ہے کہ گھنٹی کی آواز سنتے ہیں[2]) جب شاغل کامل کو یہ آواز سنائی دے تو اس پر واجب ہے کہ اسکی طرف پوری کوشش سے متوجہ رہے تاکہ جس طرح حجرہ اور صحرا میں سنتا تھا اسی طرح کوچہ وبازار اور ہجوم خلائق میں سننے کا ملکہ پیدا ہوجائے۔ نیز جب اس شغل شریف و لطیف کا غلبہ ہوجاتا ہے تو یہ آواز ڈھول ، نقارہ وغیرہ کی آواز سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور ان پر غالب آجاتی ہے اور کیوں غالب نہ آئے کہ اُن سب آوازوں کی اصل وہی آواز ہے اور تمام آوازیں اُسی آواز سے ظہور پذیر ہوئی ہیں کہتے ہیں کہ حضرت میاں میر لاہوری قدس سرہٗ کے شاغل و کامل مریدین اپنا امتحان لینے کی خاطر بازار میں جاکر بیتھ جاتے تھے تاکہ یہ دکھ لیں کہ وہ آواز سب آوازوں پر غالب آتی ہے یا نہیں۔ اور جس شاغل کو سلطان الذکر حاصل ہوجاتا ہے۔ عالم لطافت اور اطلاق کا دروازہ اس پر مکمل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ شغل لطیف اُسے لطیف بنادیتا ہے اور دریائے لطافت اور اطلاق میں بے رنگ بنادیتا ہے سلطان الاذکار کے اکثر فوائد حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور حضرت الاذکار کے اکثر فوائد حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کے حالات میں بیان کیے گئے ہیں تکرار کی ضرورت نہیں۔
شغل بھونکم
منتہیوں کیلئے بہترین شغل بہونکم ہے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس طرح بیٹھ جائے کہ بائیں پاؤں کو پھیلاکر اسکے اوپر بیٹے اور دائیں ٹانگ کے گھٹنے کو اندر سے نکال کر بائیں ٹانگ پر رکھے اس طریقے پر کہ دائیں پاؤں کا تلہ بائیں ران پر جالگے۔ اسکے بعد سانس کو ام الدماغ (سر کی چوٹی) میں بند کر کے وہاں غیر منقطع یعنی ایک مسلسل لمبی آواز کا تصور کرے۔ تاج (آلۂ صوت) کی آواز کی طرح۔ صوفیاء کرام اس آواز کو ’’کن‘‘ کی آواز کہتے ہیں ار جوگی لوگ اسے ’’سن‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ قلب صنوبری پر چراغ کی روشنی کا تصور کرے اور قلب کے نیچے کی طرف سے اوپر کی جانب سے خیال میں اسم مبارک اللہ اللہ کی آہستگی سے ضربیں لگاتا رہے لیکن گردن کو زیادہ جنبش نہ دے اور ہر اسم ذات یعنی اللہ اللہ کے ساتھ دل میں باری باری چامعانی سمجھتا جائے یعنی اللہُ حاضری، اللہُ ناظری، اللہُ شاہدی، اللہُ معی بطریق عروج ونزول۔ اس شغل کو پوری توجہ سے کرنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سالک کو سلطان ذکر، طے الارض، اور زمین پر طیر اور سیر کی قوت حاصل ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ سالکل شغل بوہنکم کو ایک سانس میں پانچ سو دفعہ ذکر تک پہنچادے تو سلطان ذکر تک حاصل ہوجاتا ہے اور عرفان حاصل ہوتا ہے۔
شغل سہ پایہ
اہل شغل کے اشغال میں سے کامل ترین شغل سہ پایہ ہے اس ذکر کے تین ارکان ہیں۔ اول اسم ذات (اسم اللہ) کا لطیفہ نفس میں ذکر، دوم صفات امہات (سمیعٌ بصری علیمٌ) کا دورہ۔ سوم تصور شیخ اس شغل کو شغل سہ پایہ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ ابریق کی طرح اسکے تین اجزا ہیں اور ایک جزو دوسرے جزو کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اسمِ ذات کا اسمائے صفات کے ساتھ ہونا جیسا کہ آگے وضاحت کے ساتھ آرہا ہے مشائخ کی اصطلاح میں اسمِ ذات اور اسم صفات کے بلا نے کا نام ملاحظہ ہے (مثلاً اللہ سمیعٌ) اسے ارادہ بھی کہتے ہیں۔ اور تصور شیخ کو برزخ کہتے ہیں اس ذکر کی سات شرائط ہیں۔ شد،مد، تحت، محاربہ، مراقبہ، محاسبہ، مواعظ پہلی تین شرائط کو داخلی کہتے ہیں اور چوتھی اور پانچویں شرط کو تداخلی کہتے ہیں۔ محاربہ کا تداخل یہ ہے کہ ذکر شدت سے کیا جائے اور مراقبہ کا تداخل یہ ہے کہ ملاحظہ بر قرار ہے یعنی اسمِ ذات اور اسمِ صفات کا ملانا مستقل طور پر قائمرہے۔ چھٹی اور ساتویں شرط (محاسبہ اور مواعظ) خارجی کہلاتی ہیں انکی پابندی بھی لازمی ہے تاکہ سُستی اور غفلت طاری نہ ہو۔ اس شغل کی تمام شرائط اس شعر میں بیان کی گئی ہیں برزخ ذات وٖات وشدو مدد تحت وفوق مے نماید طالبان راکل نفسٍ ذوق وشوق (برزخ سے مراد تصور شیخ ہے، ذات وٖات سے مراد ذات وصفات باری تعالیٰ میں فنائیت ہے۔ شد و مد سے مراد یہ ہے کہ خوب کوشش اور ہمت سے کام لیا جائے۔ تحت وفوق سے مراد نزول وعروج ذکر ہے۔ جسکی وضاحت آگے آرہی ہے)۔ اگر یہ شرائط پوری ہوجائیں تو طالبان راہِ حقیقت کے ذوق شوق میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا ہے۔) اس ذکر کے ساتھ دو مزید چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اول تعظیم دوم حرمت۔ تعظیم سے مُراد حق تعالیٰ کا وقار اور عظمت ہے اور حرمت سے مراد آداب شریعت کا ملحوظ رکھنا۔ اس حساب سے اس ذکر کو بارہ رکنی بھی کہا جاتا ہے اور کمال یہی ہے کہ تمام ارکان پورے کیے جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس شغل کے دوران سانس کو اس حد تک بند رکھنا چاہیے کہ تنگی محسوس ہو اور بے خودی طاری ہوجائے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ایک شبانہ روز میں ایک ہزار سانس بند کر سکے۔ اسکے علاوہ دیگر اوقات میں بھی ہر وقت اسی مراقبہ میں مستغرق ہے۔ حتیٰ کہ ذکر روح میں سما جائے اور ذاتِ حق میں میسر آئے)
طریق شغل سہ پایہ
مندرجہ بالاشرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے شغل سہ پایہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سانس اندر بند کر کے اللہُ سمیع کی ضرب زبان سے نہیں خیال سےلطیفہ نفس پر لگائے جو زیرِ ناف ہے۔ اسکے بعد اللہ بصیرٌ کی ضرب لطیفہ نفس پر لگائے ۔ پر اللہُ عَلِیْمٌ کی ضرب لطیفہ خفی[3] پر لگائے جو وسط پیشانی میں ہے۔ اسکے بعد وہ دورۂ نزول شروع کرے اور لطیفہ خفی پر اللہ علیم لطیفہ قلب پر اللہ بصیر لطیفہ نفس پر اللہ سمیع کی ضربیں لگاتا جائے۔ اور اسماء صفات کا معنی دل میں رکھے۔ اس کے ساتھ برزخ شیخ یعنی تصور شیخ بھی قائم رکھے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ شغل کرتے وقت اپنے آپ کی نفی کردے اور یہ خیال کرے کہ یہ میرا شیخ ہے میں نہیں ہوں اس سے سالک کو فنائیت فی الشیخ حاصل ہوگی اور اسکے ذریعے فنافی اللہ کا مقام حاصل ہوگا۔ شروع میں ایک سانس کے اندر دو دفعہ یہ ذکر کرے اسکے بعد تین مرتبہ اور پھر زیادہ کرتا جائے۔ حتیٰ کہ ایک سانس میں چالیس مرتبہ کرے اسکو محاربۂ صغیر کہتے ہیں۔ جب چالیس سے اوپر جائیگا تو اسکا نام محاربہ کبیر ہوجاتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ ذکر کرے اور ایک سو یا دو سو تک پہنچ جائے۔ جب دوسو تک نوبت پہنچ جائے اور تمام شرائط مثل شد و مد، تحت وفوق اور تصور شیخ پوری ہوتی رہیں تو سلطان ذکر حاصل ہوتا ہے جس سے سالک پر محویت اور استغراق طاری ہوجاتا ہے۔
شغل باطنی کی اقسام
محققین کے نزدیک شغل باطنی کی کئی اقسام ہیں۔ ایک قسم یہ ہے کہ آئینہ کے سامنے بیٹھ کر اپنی صورت پر نظر جمائے رکھے۔ بعض نقش پر نظر رکھتے ہیں۔ یعنی اپنی معنوی روحانی صورت کی طرف توجہ جمائے رکھتے ہیں۔ بعض مرشد کے آئینہ دل پر نظر جماتے ہیں۔ بعض آئینہ کے نقش پر نظر جماتے ہیں۔ بعض ذات حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں بلا لحاظ زمان و مکان۔ اور حدیث وَاعْبُد رَبَّکَ کَاَنَّکَ تراہ کے مطابق حق تعالیٰ کی نوری اور بے نہایت صورت پر توجہ جماتے ہیں جس سے خیال حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ حقیقت جامع عالم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بعض تمام عالم کو دائماً نورِ محض تصور کرتے ہیں تاکہ مراد کو پہنچ جائیں۔
مراقبہ
طالبان راہِ حق کیلئے آخری چیز مراقبہ ہے جسکی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً مراقبۂ صفا، مراقبۂ فنا،مراقبۂ توحید الٰہی، مراقبہ ہوا۔یہاں صرف مراقبۂ ہوا کا طریقہ بتایا جاتا ہے جو سب مراقبات سے زیادہ اہم ہے۔
طریق مراقبہ ہوا
طالب کو چاہیے کہ دونوں آنکھیں کھول کر سامنے یا ذرا اوپر کی طرف (ایک نقطہ پر) دیکھتا رہے اور کوشش کرے آنکھیں جھپکنے نہ پائیں۔ اس مشغولی میں بعض انوار ظاہر ہوتے ہیں اور پلکوں سے آگ نکلتی ہے اور تمام اعضا پر چھاجاتی ہے۔ آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے۔ بعض اعلیاء اس مراقبہ میں آنکھیں کھولے کئی سال حالت تحیر میں رہ چکے ہیں۔
شغل ہوا کا دوسرا طریقہ
شغل ہوا کہ دوسرا طرقہ یہ ہے کہ تنگ و تاریک حجرہ میں بیٹھ کر آنکھیں کھول کر ایک نقطہ پر نظر جمائے رکھے۔ اس شغل میں عالم قدس کے انوار آتے ہیں سالک کو گھیر لیتے ہیں اور حق تک رسائی ہوجاتی ہے۔
حقیقت ہوا
جاننا چاہیے کہ ہوا میں سر عظیم ہے جسکی وجہ سے ہوا قائم ودائم ہے آیۂ کریمہ مَا تریٰ فی خلق الرحمٰن من تفاوت (خلق خدا میں کوئی تفاوت نہیں ہے[4]) میں اسی راز کی طرف اشار ہے پس ہوا عالم خلا (فضا) عالم صفا اور عالم لطافت ہے اور اٹھارہ ہزار عالم اسی ہوا میں نمایاں ہیں۔ جب تک ہوا ہے عالم کون و مکان ہے۔ ہوا سے اوپر عالم سبحان اور مکان ہے۔ الرحمٰن علی العرش استوےٰ کا مطلب یہی ہے۔ تم کہتے ہو کہ یہ ہوا ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہوا کیا ہے۔ عزیزی من! سوا میں وہ لطافت ہے کہ بعض اُسے بے چوں اور بے چگوں جان کر ذات حق قرار دیتے ہیں۔ بعض نے ہوا کو جسم اور ذات الٰہی کو جان یعنی روح کہا ہے۔ شیخ ابن عربی نے ہوا کو نفس رحمانی کے نام سے موسوم کیا ہے ۔بحر حال ہوا کو قرب عالم وحدت حاصل ہے۔ اس لیے اس ہوا پر نظر جمانے سے عالم وحدت کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اور ہوا میں ذکر ملحوظ خاطر رکھنے اور وحدانیت اور لطافت کامشاہدہ کرنے ھویت ذاتیہ کا کشف حاصل ہوتا ہے۔ ان تمام اذکار و مشاغل کا تفصیلی بیان راقم الحروف نے اپنی کتاب شرح جواہر ستہ میں کیا ہے۔ وہاں دیکھنا چاہیے۔ اب اذکار ومشاغل کو چھوڑ کر اب ہم بتیان احوال (احوال و مقامات کی صراحت) کی طرف آتے ہیں جو ہمارا اصلی مقصود ہے۔
جاننا چاہیے کہ جب حضرت شیخ محمد ابراہیم مراد آبادی حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ سے تعلیم ذکر حاصل کر کے اذکار ومشاغل میں مصروف ہوئے اور بڑے بڑے مجاہدات کے بعد فتح باب ہوا تو حضرت شیخ محمد صادق کی خدمت میں تمام واقعات سامانہ نے بھی حضرت شیخ کی خدمت میں اسی قسم کا وا قعہ بیان کیا۔ لیکن حضرت اقدس نے شیخ ابراہیم کے واقعہ کو بہت پسند فرمایا اور شیخ یوسف کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ یہ بھی ہے لیکن شیخ ابراہیم کے واقعہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ شیخ ابراہیم کا واقعہ مقام محبوبیت کی خبر دیتا ہے۔ اسکے بر عکس شیخ یوسف نے جرأت کی اور کہا کہ حضرت شیخ نے شیخ ابراہیم کی رعایت کی ہے حالانکہ میرا واقعہ شیخ ابراہیم کے واقعہ سے زیادہ اہم ہے۔ لیکن حضرت اقدس نے تحمل سے کام لیا اور انکی جرأت کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ چنانچہ آپ نے شیخ ابراہیم کو خرقۂ خلافت دیکر قصبۂمراد آباد کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہاں جاکر خلق خدا کی ہدایت میں مصروف ہوں اب شیخ ابراہیم مراد آبادی اور شیخ یوسف سامانوی کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں تاکہ ان دونوں بزرگوں کی نسبت کے مابین فرق ظاہر ہوجائے اور شیخ یوسف کے مقابلہ میں شیخ ابراہیم کی لیاقت خلافت معلوم ہو لیکن پہلے ایک تمہید بیان کی جاتی ہے تاکہ دونوں واقعات کی حقیقت اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
تمہید
طالب اور مطلولب کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے بعض اوقات طرفین کی طرف سے کشش کا نتیجہ ہوتا ہے اور وصال وسط میں ہوتا ہے۔ (یعنی نصف راہ طالب طے کرتا ہے اور نصف مطلوب) اس وصال کو طائفۂ صوفیاء کی اصلطاح میں منازلہ کہتے ہیں۔ بعض اوقات وصال وسط راہ میں واقعہ نہیں ہوتا بلکہ جس طرف سے کشش زیادہ ہو وہ مُحِبّ اور دوسری طرف محبوب کہلاتی ہے اس حالت میں اگر حق سبحانہٗ کی طرف سے زیادہ کشش ہے اور وصال واقع ہوتا ہے تو اس حالت کو تدلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور اگر بندہ کی طرف سے زیادہ کوشش ہو تو اس قرب کو تدالی کہتے ہیں۔
شیخ ابراہیم کا واقعہ
اس تمہید کے بعد جاننا چاہیے کہ شیخ ابراہیم اور شیخ یوسف دونوں کا واقعہ پہلی قسم کا یعنی منازلہ نہیں ہے بلکہ دوسری قسم کا ہے۔ شیخ ابراہیم کا واقعہ تدلی کی قسم کا ہے۔ اس وجہ سے کہ تجلئ ذات حق سبحانہٗ نے بہ سبب جذب اپنے مرکز سے نزول فرماکر شیخ ابراہیم کو مرکز نا سوتی میں گھیرلیا۔ یعنی اس بحر لاکیف نے مقام لا تعیّن سے نزول فرماکر بمصداق اذکرکم جو فاذکرونی کا ثمرہ ہے۔ شیخ ابراہیم کی روح کی طرف رجوع کیا اور مرکز عالمِ ارواح میں پہنچ کر انکے روح قطرۂ تعین میں جوش پیدا کیا۔ کسی عارف نے خوب کہا ہے؎
جوش زد در قطرہ دریا غلغلہ درہم فتاد |
|
چوں نہ فتد غلغلہ بحرے بجوشد در حباب |
(دریا نے قطرہ کے اندر جوش پیدا کیا اور طوفان برپا ہوا۔ طوفان کیوں نہ برپا ہو کہ دریا حباب کے اندر جوش مار رہا ہے۔)
بات یہ ہےکہ ابھی شیخ ابراہیم حقیقت جبروت میں بھی نہ پہنچے تھے بلکہ عالمِ ملکوت کی ابتدائی تجلیات میں سیر وطیر کر رہے تھے کہ سلطان بے رنگی (ذات بے کیف) نے ہلہ بول دیا اور انکے سارے رخت وجود کو تاخت وتاراج کر ڈالا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ شیخ ابراہیم نے حق تعالیٰ کو بحر لا متناہی کی صورت میں دیکھا کہ انکے قطرۂ روح میں آکر اُسے تقید قطر گی سے نجات دلائی اور بحریت کی صفت بخشی اور بحر بے پایاں کردیا۔ اس لحاظ سے ذات حق شیخ ابراہیم کے قطرۂ وجود کی طالب بنی اور شیخ ابراہیم مطلوب ہوئے یہ مقام محبوبیت ہے۔ فہم من فہم
شیخ یوسف کا واقعہ
شیخ یوسف کا واقعہ باغ تدالی سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ان کے وجود کے قطرے نے جدو جہد کر کے اپنے ناسوتی مرکز سے بڑھ کر عالم ملکوت اور جبروت کی نہروں میں تیرا کی کی اور پھر بحر بے کراں ذات حق میں پہنچے بالفاظ دیگر انکے قطرۂ وجود نے اپنے ناسوتی مسکن سے بحر ذات لاکیف میں انتقال کیا اور جستجو کرتے ہوئے اس سمندر میں غوطہ لگایا اور یک رنگ ہوئے۔ چنانچہ شیخ یوسف کے وجود کا قطرہ طالب ہوا اور بحر ذات مطلوب ہے۔ یہ مقام محبت ہےن ہ کہ محبوبیت اس سے ظاہر ہے کہ شیخ ابراہیم کا مقام محبوبیت ہے اور شیخ یوسف کا مقام عاشقی ہے۔ اور دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ نے شیخ ابراہیم کے واقعہ کو شیخ یوسف کے واقعہ پر ترجیح دیکر ان کو رضا ورغبت سے خلافت عطا فرمائی اور خلق خدا کی ہدایت پر مامور فرمایا اور شیخ یوسف نے درخواست اور عرض ومعروض پیش کر کے خلافت حاصل کی لیکن حضرت اقدس خلافت دینے پر خود بخود راضی نہیں تھے۔
شیخ ابراہیم کی خلافت اور وصال
الغرض شیخ ابراہم قدس سرہٗ حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے حکم سے مراد آباد جاکر تربیّت مریدین میں مشغول ہوگئے اور خلق خدا نے آپ سے بہت فیض حاصل کیا اور کافی لوگ روحانی تربیت حاصل کر کے مرتبۂ تکمیل و ارشاد کو پہنچے ۔ جب آپکا آخری وقت آیا تو آپ نے مشائخ چشت کی امانت بمعہ خرقۂ خلفت اپنے فرزند ارجمند شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کے سپرد فرمائی اور خود پردہ پوش ہوگئے۔ آپکا مزار مبارک مراد آباد میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
[1]۔ بلکہ تمام جاندار جو سانس لیتے ہیں ہر سانس کے ساتھ وانستہ یا ناوانستہ ھُو ھُو کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہر سانس میں ھو کی آواز خود بخود موجود ہے۔
[2]۔ یعنی قافلہ اور منزل مقصود کا علم تو نہیں البتہ قافلے کے اونٹوں کی گھنٹی کی آواز کانوں میں ضرور آتی ہے جس سے منزل وقافلہ کا علم ہوتا ہے۔
[3]۔ لطائف ستہ کے یہ نام مشائخ چشتیہ، سہروردیہ اور قادریہ کی اصطلاح کے مطابق ہیں۔ مشائخ نقشبندیہ ان لطائف کو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
[4]۔ یعنی خلق خدا میں جہاں دیکھو ذات ہی ذات ہے اور ہر چیزیں ساری وطاری ہے۔ ذرہ بھی فرق ہے ۔ یعنی ذرہ بھر ذات سے خالی نہیں ہے۔
(قتباس الانوار)