والد کا نام پیر محمد تھا۔ قوم کے باغبان تھے۔ لاہور سے نقلِ مکانی کر کے قصور جارہے تھے شاہ عنایت بھی قصور ہی پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم و تربیت پائی۔ قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تکمیلِ علوم کے لیے قصور سے نکلے۔ لاہور پہنچ کر حضرت شاہ محمد رضا قادری شطاری لاہوری کے حلقۂ درس میں شامل ہُوئے۔ استاد کی زبردست شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہی کے ہاتھ پر سلسلۂ قادریہ کی بیعت کر کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر تکمیلِ سلوک کی اور خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ پھر مرشد کے حکم کے مطابق قصور آکر ہدایتِ خلق میں مصروف ہوگئے۔ حلقۂ درس بڑا وسیع تھا۔ قرآن و تفسیر، حدیث و فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے استفادہ کیا۔ مرجع خلائق ہونے کے باعث حسین خاں افغان حاکمِ قصور کو آپ کی شہرت و مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی۔ چنانچہ آپ کو قصور سے نکل جانے کا حکم دیا۔ آپ قصور کو خیر باد کہہ کر پھر لاہور آگئے اور از سرِ نو درس و تدرریس کا سلسلہ شروع کردیا اور اپنے علومِ ظاہری و باطنی سے عوام و خواص کو فیض بخشا۔ آپ کے حلقۂ درس و فکر سے اچھے اچھے باکمال تکمیل پاکر نکلے۔ چنانچہ حضرت میر بُلّھے شاہ قصوری پنجابی کے مشہور شاعر آپ کے ہی شاگرد و مرید تھے۔ آپ صاحبِ تصنیف بھی تھے۔غایت الحواشی، شرح کنزالدقائق آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ۱۱۴۱ھ میں بہ عہدِ محمّد شاہ وفات پائی۔ مزار لاہور میں ہے۔
چوں از فضل و عنایت الٰہی! ز ’’مشتاقِ مکرم‘‘ چو وصالَش ۱۱۴۱ھ
|
|
عنایت رفت از دنیا بہ جنّت دگر ’’تاجِ یقیں اہلِ عنایت‘‘ ۱۱۴۱ھ
|