آپ ایک واسطہ سے حضرت سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ کامل درویش اور اکمل عالم دین تھے آپ کے زمانہ میں مندو کے علاقہ میں آپ کےمرتبہ کا کوئی بزرگ نہیں ہوا تھا۔ آپ اس ولائیت کے شیخ طریقت تھے۔ ایک سو بیس سال زندگی پائی تھی۔ جبکہ آپ کے پیر ایک سو پچاس سال جئے تھے۔
صاحب اخبار الاخیار لکھتے ۔۔۔۔
آپ ایک واسطہ سے حضرت سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ کامل درویش اور اکمل عالم دین تھے آپ کے زمانہ میں مندو کے علاقہ میں آپ کےمرتبہ کا کوئی بزرگ نہیں ہوا تھا۔ آپ اس ولائیت کے شیخ طریقت تھے۔ ایک سو بیس سال زندگی پائی تھی۔ جبکہ آپ کے پیر ایک سو پچاس سال جئے تھے۔
صاحب اخبار الاخیار لکھتے ہیں کہ آپ رجب کی پہلی تاریخ سے اعتکاف والے حجرے کو پتھروں کی چٹائی کرکے بند کردیا کرتے تھے اس طرح آپ چھ ماہ تک کھائے پیے بغیر ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے جس دن حجرے سے باہر آنے کا ارادہ کرتے تو اندر سے زور زور سے آوازیں دیتے اور لوگوں کو ہدایت کرتے کہ حجرے کے دروازے سے دُور دُور چلے جاؤ۔ جب مرید چلے جاتے تو آپ دروازے کے پتھر ہٹا کر باہر تشریف لاتے۔ اگر کوئی اتفاقاً سامنے آجاتا شیخ کی جلالی نظر اس پر پڑجاتی تو وہ دو دن تک بے ہوش پڑا رہتا تھا۔ اس شہر کا قاضی آپ کے کمالات کا منکر تھا۔ اس نے کئی بار آپ کا محاسبہ کیا ایک دن آپ حجرے سے نکلے تو قاضی سامنے تھا آپ کی نگاہ قاضی پر پڑی تو وہ بیہوش ہوکر گرپڑا۔ اور دو دن تک پڑا رہا
ایک دن قاضی حضرت شیخ کے احتساب کے لیے آپ کے گھر آیا پالکی پر سوار تھا۔ شیخ کے مکان کے دروازے پر پہنچا تو دروازے پر دستک دی۔ شیخ نے کوٹھے سے دیکھا تو پالکی اٹھانے والوں کے پاؤں زمین میں دھنس گئے قاضی کے ہاتھ کانپ گئے درّہ زمین پر جاگرا۔ قاضی شریعت کا بڑا پابند تھا۔ اور احتساب میں سخت گیر تھا دوبارہ درّہ اٹھایا اور کوٹھے پر چڑھنے لگا۔ حضرت شیخ نے دوبارہ اس پر نگاہ ڈالی قاضی کا ہاتھ پکڑلیا اور اوپر لے گئے۔ قاضی نے دیکھا کہ شراب کی صراحی پڑی ہے قاضی نے پوچھا یہ کیا ہے آپ نے صراحی سے ایک پیالہ بھر کر پیش کیا تو وہ خالص شربت تھا۔ شیخ نے فرمایا بسم اللہ کرکے نوش فرمائیے۔ قاضی شرمندہ ہوکر نیچے اتر آیا۔
شاہ میانجی کی وفات ۸۸۹ھ میں ہوئی۔
میانجی شاہ شہنشاہ عالی
چو رفت از دار دنیا سوئے جنت
رقم کن کاشفِ ممتاز سالش
۸۸۹ھ
دگر فرماز ہے برا کرامت
۸۸۹ھ