آپ میر شمس الدین شامی قدس سرہ السامی کی اولاد میں سے تھے آپ حضرت میر ہمدانی قدس السرہ العزیز ہمرکاب خطۂ کشمیر میں وارد ہوئے۔ اور پھر کشمیر میں ہی قیام فرما ہوگئے۔ شاہ قاسم کو ابتدائی زندگی میں ملا قاسم اور حامی قاسم کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ ظاہری علوم کی تحصیل کے بعد شیخ محمد خلیفہ کشمیری کی خدمت میں بیعت ہوئے۔ کمالات حاصل کیے اور شاہ کے خطاب سے مخاطب ہوئے۔ زہدو تقوی مجاہدہ و ریاضت میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کے سینہ بے کینہ میں یاد خداوندی کی یادوں کی آگ سُلگتی رہتی تھی۔ بسا اوقات آپ کی اس آتش دل سے آپ کا حجرہ جل اٹھتا لوگ بجھاتے مگر آگ لگنے کی وجہ معلوم نہ ہوتی آپ کے بدن کے رواں رواں سے خون کے قطرے بہتے اگر کسی کو یہ نظر اخلاص دیکھ لیتے خدا تک پہنچادیتے۔ اگر نظر قہر اٹھاتے تو تڑپا کر رکھ دیتے۔
اپنے پیر روشن ضمیر کی وفات کے بعد آپ حرمین الشریفین کے سفر کو روانہ ہوئے عراق شام اور بغداد میں اولیاء وقت سے ملاقات کی۔ کبرویہ قادویہ سلاسل سے خرقہ خلافت حاصل کیا سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ دیوانہ سواتی سے فیض پایا۔ حضرت سواتی خواجہ سلام جو ئیاری نقشبندی کے خلیفہ تھے۔ سلسلۂ چشتیہ میں حضرت شیخ رمم بغدادی سے خلافت حاصل کی۔ کشمیر واپس آئے اور مخلوق خدا پر رشد و ہدایت کے دروازے کھول دئیے گمراہوں کو راہ ہدایت دکھائی اور ہر سلسلۂ طریقت کا فیضان عام کردیا۔
تواریخ دومری نے آپ کا سن وصال ۱۰۳۳ھ لکھا ہے۔ آپ نے اپنی وفات کے وقت ارشاد فرمایا اس خاکسار کی مقبولیت کی نشانی یہی ہے کہ میری وفات سے چالیس دن قبل میرے ہی یہ آہن گرکی بھٹی سے ایک درخت بلند ہوگا جو سر سبز ہوجائے گا۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ سرسبز درخت لہراتا رہا۔
شد ز دنیا چو در بہشت بریں گفت تاریخ رحلتش سرور
|
|
شاہ قاسم ولی خوش قسمت صاحب علم قاسم النعمت ۱۰۳۳ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)