مصاحب خاں کلاں قادری کے مرید و خلیفہ تھے جنہوں نے حضرت شاہ میر سجادہ نشین حجرہ سے ظاہری و باطنی فیض پایا تھا۔ اپنے عہد کے جیّد عالم اور صوفئِ کامل تھے۔ علومِ تفسیر و حدیث و فقہ میں لاثانی تھے۔ موضع بابک وال جو لاہور شہر سے تقریباً چھ سات میل کے فاصلے پر ہے سکونت رکھتے تھے۔ یہیں تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔
احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں جب افغانی لشکر نے لاہور کے گرد و نواح میں تخت و تاراج کا سلسلہ شروع کیا تو مضافات کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: دعا فرمایئے کہ ہم افغانی غارت گری سےمحفوظ و مامون رہیں۔ آپ نے اپنا خرقہ اتار کر اُنہیں دیا اور فرمایا: اسے اپنے اپنے گاؤں کے گرد پھرائیں۔ چنانچہ جن جن گاؤں والوں نے آپ کے ارشاد کے مطابق عمل کیا وہ ہر طرح سے امن و امان میں رہے۔ ۱۱۸۴ھ میں وفات پائی۔ مزار بابک وال میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
شاہ سردار آں ولئِ متقی! گشت روشن از خرد ’’خور شیدِ دیں‘‘ ۱۱۸۴ھ
|
|
شد چو از دنیا بجنت راہ سالِ وصلِ شاہ ہمچو مہر و ماہ
|