شیخ جان محمد قادری لاہوری کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ بڑے بزرگ اور عابد و زاہد تھے۔ عبادت و ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ قوم کے افغان تھے۔ کابل وطن تھا۔ وہیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیّت بھی کابل ہی میں پائی۔ سنِ رشد کو پہنچے تو تلاشِ حق میں نکلے۔ کئی ایک مشائخ کی خدمت میں رہے۔ آخر لاہور آئے اور موضع بابک وال پہنچ کر شیخ جان محمد کی خدمت میں شرف یاب ہوئے اور مرشد کے زیرِ سایہ علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ محنت و مزدوری سے رزقِ حلال حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ شاہد رہ کی منڈی سے گندم اٹھا کر لاتے اورلاہور کی منڈی میں فروخت کرتے۔ نقد و جنس سے جو مزدوری میں ملتا اُس میں سے اپنا حصّہ نکال کر باقی فقراء میں تقسیم کردیتے۔ آج کی کمائی سے کل کے لیے باقی نہ رکھتے تھے۔ زندگی کا زیادہ عرصہ شاہد رہ رہ میں گزارا۔
نقل ہے ایک روز سیّد قطب الدین بن سید صدرالدین گیلانی صاحبِ حجر ہ آپ کی ملاقات کے لیے شاہد رہ تشریف لائے۔ اثنائے گفتگو میں سید قطب الدین نے فرمایا: اس سال عادت کے خلاف ہم خربوزہ پکنے کے موسم میں شاہد رہ نہیں آئے اگر موسم ہوتا تو شاہد رہ کے خربوزے کھاتے ۔ یہ سن کر حضرت شاہ سردار مجلس سے اٹھے اور اپنے حجرے کے کوٹھے پر تشریف لے گئے اور وہاں سے نہایت عمدہ شیریں خوش رنگ خربُوزے اُٹھا لائے اور سیّد قطب الدین کے سامنے رکھ دیئے۔ عرض کیا: اگرچہ خربوزے پکنے کا موسم نہیں ہے مگر وُہ کون سی چیز ہے جو اللہ کے فقیروں کے پاس نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر سیّد قطب الدین بڑے خوش ہوئے۔ اُن خربوزوں کو اپنے ہاتھ سے چیرا خود بھی تناول کیا اور حاضرین میں بھی تقسیم کیا۔ فرمایا: یہ بہشتی میوہ ہمیں اور تمھیں شاہ سردار کے وسیلے سے میسر ہوا ہے۔
۱۲۲۵ھ میں وفات پائی۔ مزار بابک وال میں ہے۔
یافت سرداری چو در خلد بریں! سالِ ترحیل و وصالِ آں جناب
|
|
آں شہ جنّ و بشر سردار شاہ داں ’’ولئی رہبر سردار شاہ‘‘ ۱۲۲۵ھ
|